3
0
Friday 8 Jun 2018 21:17
شیعہ جوان کبھی دہشتگرد نہیں ہوسکتا بلکہ وہ محب وطن پاکستانی ہے

امریکہ و اسرائیل نے ملکر اپنی ناجائز اولاد داعش کے ذریعے مسلمان ممالک میں انتشار اور تباہی پھیلائی، علامہ مہدی کاظمی

شیعہ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے خواص اپنا کردار ادا کریں
امریکہ و اسرائیل نے ملکر اپنی ناجائز اولاد داعش کے ذریعے مسلمان ممالک میں انتشار اور تباہی پھیلائی، علامہ مہدی کاظمی
علامہ سید حسن مہدی کاظمی کا تعلق لاہور سے ہے، انہوں نے 1996ء میں University of Engineering & Technology (UET) لاہور سے مکینیکل انجینئرنگ کی۔ فروری 1997ء میں وہ دینی تعلیم حاصل کرنے ایران چلے گئے، کلام اسلامی میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے کہ 2013ء کے آخر میں کچھ وجوہات کی بنا پر چھوڑ پاکستان آنا پڑا۔ دسمبر 2013ء سے جامعہ بعثت پاکستان میں مختلف عہدوں پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں، اسوقت جامعہ بعثت ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ہونے کیساتھ ساتھ جامعہ بعثت کے پرنسپل بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے یوم القدس کی مناسبت اور دیگر مسائل پر گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین عالم اسلام پر لگا ہوا ایک ایسا زخم ہے، جو دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا ہے، اس مسئلے پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
بسم اللہ۔۔۔۔! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، فلسطین کا جو زخم ہے، وہ گہرے سے گہرا تر ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس میں جو ایک خوش آئند بات ہے، وہ یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو عالمی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اس میں لوگوں کے دلوں میں فلسطین کے لئے احساس پیدا ہوا ہے، پہلے لوگوں کو اتنی آشنائی نہیں تھی، لوگوں کو وہاں کے حالات کا اتنا علم نہیں تھا، اب الحمدللہ عالمی سطح پر لوگوں میں آگاہی بڑھ رہی ہے، ابھی تازہ ترین واقعہ ہے کہ پہلے میسی نے اسرائیل کے ساتھ فرینڈلی فٹ بال میچ کھیلنے سے منع کیا اور پھر ارجنٹائن کی ٹیم نے بھی مخالفت کی۔ اسی طرح مختلف ممالک نے بالخصوص یورپ میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں پروٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آپ آج دیکھیں گے کہ پورے عالم اسلام میں اور بالخصوص وہ ممالک جو مکتب اہلِ بیت (ع) سے تعلق رکھتے ہیں، ان ممالک کی طرف سے مظاہرے کئے جائیں گے۔ اس حوالے سے اہلِ سنت دنیا میں بھی بیداری پائی جاتی ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس کے مثبت پہلو کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: امام خمینی کے فرمان کیمطابق بیت المقدس کی آزادی صرف اور صرف مسلح جدوجہد سے ہی ہوسکتی ہے، اس فرمان پر ہمارے مسلمان اور بالخصوص شیعہ ممالک نے کتنا عمل کیا ہے۔؟؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ امام خمینی نے جو کہا ہے کہ مسلح جدوجہد ہی کے ذریعے فلسطین آزاد ہو جائے گا، یہ صرف امام خمینی کا نظریہ نہیں بلکہ قرآنی نظریہ بھی یہی ہے کہ اگر یہود و نصاریٰ صلح کی زبان یا نرمی کی زبان نہیں سمجھتے تو ان کے ساتھ سختی کی زبان میں اور مسلح جدوجہد کے ذریعے ہی بات منوائی جاسکتی ہے، اگر وہ ٹیبل ٹاک کے ذریعے نہیں سمجھتے تو یہ اپنی جگہ قرآنی اصول بھی ہے۔ باقی رہا کہ کتنے شیعہ ممالک اس پر عمل کر رہے تو اس میں خود ایران کا رول قابل تقلید ہے اور بہت واضح ہے، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اسی طرح لبنان نے بالخصوص حزب اللہ کا کردار اس حوالے سے بہت مثبت ہے اور بڑے پیمانے پر انہوں نے جدوجہد کی ہے۔ ہم نے حالیہ واقعات و حالات میں دیکھا کہ امریکہ اور اسرائیل نے ملکر اپنی ناجائز اولاد داعش کے فتنے کے ذریعے سے مسلمان ممالک میں کیا کچھ نہیں کیا ہے، اس فتنے کو ایران، عراق، شام اور لبنان نے ملکر کسی حد تک ختم کیا ہے۔ دراصل یہ اسرائیل اور امریکہ کی ہی سازش تھی جسے ان شیعہ ممالک نے ناکام کیا ہے، تو اس لحاظ سے ان شاء اللہ امید ہے کہ جس طرح یمن میں بیداری ہے، اسی طرح بحرین میں بیداری ہے، اسی طرح عراق کا ایک نیا پارٹنر شام ہوا ہے اس جدوجہد میں، اور ان شاء اللہ تعالٰی امید ہے کہ جلد ہی جو رہبر معظم انقلاب سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ 25 سال سے زیادہ اسرائیل زندہ نہیں رہ سکے گا اور ان شاء اللہ 2 سال اس میں سے مزید گزر چکے ہیں اور عالمی حالات جس طرح سے دکھائی دے رہے ہیں، اس سے لگ یوں رہا ہے کہ ہماری جو مسلح جدوجہد ہے، وہ بہترین نتائج دے گی اور یہی جنگ اسرائیل کے اندر اسرائیل کی نابودی تک لڑی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: ہم اگر مسلم حکمرانوں کیطرف دیکھیں تو ہر کوئی اپنے مفادات کی خاطر مظلوموں کی حمایت سے ہاتھ کھینچے ہوئے ہے، تو یہ کہنا جائز ہے آج فلسطین کا یہ حال ہے تو کل پھر سب اپنی اپنی باری کا انتظار کریں۔؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
مسلمان حکمرانوں کا اگر تجزیہ و تحلیل کریں تو یہ انہی یہودی طاقتوں کے پروردہ اور ان کے بٹھائے ہوئے لوگ ہیں، جو مختلف مسلم ممالک پر حکومتیں کر رہے ہیں، اگر انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچا ہوا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ خود یہودیوں ہی کے پروردہ لوگ ہیں، یہودیوں نے ہی انہیں مسلمانوں پر مسلط کیا ہوا ہے، اب ان کی ظاہری شکل مسلمانوں کی ہے، لیکن ان کا ذہن اور فکر یہودیوں کی ہے اور اس کا نتیجہ جس طرح کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ایک ایک کرکے اپنی باری کا انتظار کریں تو باری تقریباََ آچکی ہے۔ اسوقت جو تمام مسلمان ممالک ہیں، ان کے سربراہان یہودی فکر کے مالک ہیں، ان کو یہودی فکر اور امریکی فکر کنٹرول کر رہی ہے، ان تمام ممالک کے جو ذخائر ہیں، ان کو آہستہ آہستہ امریکی اور یہودی لوٹتے جا رہے ہیں، اکثر ان ممالک میں فسادات، انتشار، لڑائی جھگڑا، لوٹ مار دیکھنے کو مل رہی ہے، حکمران ملکوں کو کھا رہے ہیں، اب ان مسائل کا حل جو ہمیں دکھائی دیتا ہے، وہ یہی ہے کہ یہ مسلم امہ جو ہے متحد ہو، یہ اپنے اپنے حکمرانوں کو جو یہودیت کے پروردہ حکمران ہیں، ان کو اپنے اوپر سے ہٹائے اور خالصتاََ مسلمان حقیقی مخلص حکمران اوپر لے کر آئے۔ اگر آپ کچھ مسلم ممالک کی طرف متوجہ ہوں تو یہ سلسلہ چل نکلا ہے، جس طرح آپ یمن میں صورتحال دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے ان کو کنارے پر پھینک دیا، اسی طرح شام میں الحمدللہ ایک حکومت ہے جو ضدِ یہودی ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اسی طرح عراق میں بھی ہم امید کرتے ہیں، اسی طرح لبنان میں بھی حزب اللہ کی موجودگی کی وجہ سے بھی امیدیں وابستہ ہیں۔ جہاں جہاں مسلم امہ خود اپنے ممالک کے معاملات کو کنٹرول میں نہیں لے گی اور ایسے یہودی فکر کے حکمرانوں سے جان نہیں چھڑوائے گی تو یہ مشکلات کا شکار رہیں گے اور باری کی جو بات کر رہے ہیں، باری تو آئی ہوئی ہے، اب اس سے نجات حاصل کرنی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم دنیا اسوقت تقسیم کا شکار ہے، اسکی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا صرف امریکہ کو ہی قصور وار ٹھہرا دینا کافی ہے یا ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ امریکہ اس تمام تر تقسیم کا ذمہ دار ہے، لیکن ہم خود اور بالخصوص ہمارے حکمران وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہماری مسلم امہ کا بیدار نہ ہونا، غفلت میں ہونا، احساس ذمہ داری کا نہ ہونا، اس بات کا احساس نہ ہونا کہ اگر ایک ملک میں دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مشکل کا شکار ہیں تو ہمارے بھی دل میں درد ہو، ہمیں بھی اس کا حساس ہونا چاہیئے، ایسے افراد کا کم تعداد میں ہونا اور اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے صحیح تعلیم نظام کا نہ ہونا، جتنے بھی نظامات ہیں جیسے کہ سیاست اور حکومت پر یہودی فکر کا قبضہ ہونا، ہماری جہالتیں اور ہماری غفلتیں اور ہمارا اندر احساس کا نہ ہونا، یہ چیزیں بھی باعث ہیں کہ ہم جزوی مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں، اگرچہ یورپ اور امریکہ برطانیہ، فرانس، اسرائیل جیسے ممالک اپنی مداخلتیں ہمارے ملکوں میں کر رہے ہیں، لیکن ہم بھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے انکی سازشوں کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں، اس کا واحد حل یہی ہے کہ سب سے پہلے شعور اور آگاہی قوم و ملت میں پیدا کی جائے، ان کے نظام تعلیم کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے، نظام سیاسیات کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے، صحیح حقیقی اسلامی نظام کا اجراء کیا جائے، تب ہم ان مشکلات سے اور مسائل سے نکل سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب کا اسلامی دنیا میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے، لیکن وہ خود صہیونیوں کی گود میں بیٹھا ہوا ہے تو کیا ایسے میں مسئلہ فلسطین حل ہوسکتا ہے۔؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
یہ بات درست ہے کہ سعودی عرب کا مسلم دنیا میں اثر و رسوخ ہے، ابھی تازہ ترین صورتحال کیمطابق اس کا جو مذہبی چہرہ تھا، اس پر سے آہستہ آہستہ نقاب اتر گیا ہے، ہم پہلے کم از کم دنیا اور بالخصوص اہلِ سنت دنیا میں سعودی حکومت کی مخالفت میں دبی دبی آواز سنا کرتے تھے، لیکن اب شکر ہے کہ آواز واضح آنا شروع ہوگئی ہے، شیعہ ممالک الحمدللہ شروع سے ہی ان کے اصل سے واقف تھے اور انہوں نے شروع سے ہی اپنا قبلہ درست رکھا ہوا ہے۔ ابھی اہلسنت مسلم دنیا ایک نئی لیڈر شپ کی تلاش میں ہے۔ ابھی انہوں نے ترکی کو لیڈر کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی ہے، اسی طرح قطر بھی ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ اب اگر مسلم دنیا نے شعور کے ساتھ اپنی لیڈر شپ کا انتخاب نہ کیا، سمجھدار قیادت کا انتخاب نہ کیا، تو پھر اہلسنت دنیا دوبارہ سے ایک نئی دلدل میں پھنس جائے گی، لیکن یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اہلِسنت دنیا کی عوام پر سعودی عرب کا اب وہ اثر و رسوخ باقی نہیں رہا، جو پہلے ہوا کرتا تھا، پہلے لوگ آنکھیں بند کرکے ان کا احترام کرتے تھے اور اندھی تقلید کی جاتی تھی، اس کی اپنی ہی حرکتوں کیوجہ سے یہ اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے، البتٰہ پیسے کے زور پر اگر کہا جائے تو جو ابھی بھی ان کے زر خرید غلام ہیں، وہ اسی کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی کوششیں کریں گے، باقی رہا یہ فلسطین والا مسئلہ تو یہ ان شاء اللہ تعالٰی ہماری مدبر، بابصیرت اور مضبوط مقام معظم رہبری جیسی قیادت کے سائے میں ہے اور اس کے اثرات جو ہیں، پوری دنیا میں دیکھے جا سکتے ہیں، اس کے مقابلے میں سعودی عرب کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان شاء اللہ ہم امید کرتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ جلدی حل ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اسوقت داعش کو پاکستان کی سرحدی پٹی پر جمع کیا جا رہا ہے، کیا مستقبل قریب میں پاکستان کو شام اور عراق کیطرح داعش کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
داعش کے حوالے سے تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس طرح سے افغانستان میں ان کو جمع کیا جا رہا ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں میں تو کہتا ہوں کہ خود افغانستان اور آگے چل کے ایران پر بھی یہ لوگ اثر انداز ہونے اور حملہ کرنے کی کوشش کریں گے، تو یہ فتنہ صرف پاکستان کیلئے نہیں ہے بلکہ دیگر اسلامی ممالک کیلئے بھی ایک بڑا فتنہ ہے اور ابھی سے اگر تمام اسلامی ممالک اس کے سدباب کا نہیں سوچیں گے، تو یہ ایک ایسا ناسور ہے جو ہمارے اندر انہوں نے ہی پیدا کیا ہے اور آہستہ آہستہ ہمارے اندر اختلافات بھی پیدا کر رہا ہے، اس کے کچھ عرصے بعد بدامنی کے ذریعے سے قبضہ بھی کرنے کی کوشش کرے گا، اللہ نے چاہا اور جس طرح ہماری افواج پاکستان مضبوط ہیں اور سرحدوں کا دفاع اسی طرح جاری رہا اور اس کے ساتھ ہماری قیادتیں پورے اخلاص کے ساتھ اپنے وطن کا دفاع کریں گی تو اتنا آسان نہیں ہوگا کہ یہ پاکستان میں گھس جائیں۔ ابھی جیسا کہ ماضی میں دیکھا کہ گروہوں کی شکل میں آکر عام عوام پر حملے کرنا یا سکیورٹی اداروں کو چھپ کر نشانہ بنانا، یہ سب تو وہ کرسکیں گے، لیکن ان شاء اللہ ہماری افواج پاکستان مضبوط ہیں، جس طرح شام میں اور عراق میں انہوں نے تیزی سے قبصہ کیا اور پھر حکومتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور فوج کے ساتھ لڑتے رہے ہیں، اس انداز میں داعش پاکستان میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مسنگ پرسنز ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، آپکے مطابق اسکے پس پردہ کیا عوامل ہوسکتے ہیں، کیا حکومتی ادارے کسی دباؤ کا شکار ہیں۔؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
میرا خیال ہے اگر ہم مسنگ پرسنز کے ایشو کو مثبت انداز میں اٹھائیں اور پاکستانی اداروں کو متوجہ کریں کہ پاکستانی شیعہ محب وطن ہے اور وہ کبھی بھی اپنے وطن پاکستان کے خلاف سوچ نہیں سکتا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے پاکستان بننے سے لیکر ابھی تک اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ شیعہ جو ہے، وہ دہشتگرد نہیں ہے، وہ محب وطن پاکستانی ہے، مذہبی ہے اور غیرت مند مذہبی ہے، یہ بات ان کو سمجھنی ہوگی۔ ہمارے پاکستانی شیعہ جو سکیورٹی اداروں کے پاس کافی عرصہ رہے اور جب وہ باہر آئے تو عوامی سوالوں کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہماری گرفتاری کا محور شام کے حوالے سے تھا کہ شام میں کیوں گئے، شام میں کیا تھا، کون آپ کے پیچھے تھا، کس لئے آپ کو شام بھیجا گیا؟ تو یہ سارے سوالات ان سے کئے گئے ہیں، اس سے یہ ثابت ہے کہ ہمارا پاکستانی شیعہ غیرت مند بھی ہے، وہ مذہبی بھی ہے اور مذہب دوستی اور متدین ہونے کی وجہ سے جب اس نے دیکھا کہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کی حفاظت کیلئے اس کی ضرورت ہے تو وہ یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ میں نے ملک شام کی مدد کرنی ہے بلکہ وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ میں نے حرم بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی حفاظت کرنی ہے۔ یہی نقطہ اہم ہے، میں آپ کو بتاؤں کہ کل کو اگر آپ یہ لکھوا لیں کہ خدا نہ کرے مکہ یا مدینہ پر کوئی حرف آتا ہے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ہمارے شیعہ جوان سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے پہلے جائیں گے اور صفِ اول میں اس کا دفاع کریں گے کیوں؟ کیونکہ مذہبی طور پر ہمارا شیعہ جوان غیرتمند ہے، تو یہ بات اگر ہمارے اداروں کو سمجھ آجائے، ہماری حکومت کو سمجھ آجائے، تو ان کو پھر اس نگاہ سے نہ دیکھے، یہ مسنگ پرسنز والا مسئلہ قابل حل ہے اور دوسرا یہ کہ ہمارا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ پاکستان میں قانون موجود ہے، اگر آپ کی نگاہ میں کوئی مجرم ہے تو اسے ٹرائل میں لائیں، عدالت میں پیش کریں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے اندر ملت تشیع مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے، جس کیوجہ سے ہمارے مسائل حل ہونیکی بجائے الجھتے جاتے ہیں، آپکی نظر میں کیوں سب ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو رہے۔؟؟
علامہ سید مہدی حسن کاظمی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ملت تشیع گروہوں میں تقسیم ہوئی ہے، ہمارے مسائل حل کم اور الجھ زیادہ جاتے ہیں۔ ایک پلیٹ پر جمع نہ ہونے کی کوئی ایک وجہ کہنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ آسان اور سادہ نہیں کہ ایک فارمولا پیش کرکے سب کے مسائل حل کر دیں، مختلف علل و اسباب ہیں، مثلاََ انقلابی گروہ ہیں، ان کی مشکلات مختلف ہیں، مثلاً جو دیگر افراد ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد بےطرف لوگوں کی ہے، نہ ان کو کسی سیاسی گروہ سے کوئی غرض ہے اور نہ انکا کوئی انقلابی گروہ سے کوئی تعلق ہے۔ ایک گروہ تشیع کا ایسا ہے جو شاید مذہبی لحاظ سے فعال اور ایکٹیو نہ ہو، وہ بالکل ہی بے طرف ہے، ہر چیز سے جدا ہے۔ کچھ ایسے ہیں، جو سیاسی طور پر تو فعال ہیں، مذہبی طور پر فعال نہیں ہیں، مثلاََ دیگر پارٹیوں میں جیسے کہ کوئی پی ٹی آئی میں ہے تو کوئی پیپلزپارٹی میں فعالیت انجام دیتا ہے، یہ مختلف گروہ میں تقسیم بندی ہے، ہر کسی کا الگ علاج ہے، اگر آپ ایک کلی فارمولا کی بات کریں تو وہ قرآن ہے، اگر سب قرآن سے متمسک ہو جائیں، قرآنی تعلیم کیطرف لوگوں کو متوجہ کیا جائے تو خود قرآن بہت بڑا منشاء وحدت ہے ہمارے درمیان، جس کی بنا پر ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتے ہیں، حب اہلبیت اور قرآن ان دو چیزوں کو محور بنایا جائے اور ان بنیادوں پر اکٹھا کیا جائے تو بہت جلد ان شاء اللہ پوری شیعہ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرسکتے ہیں۔ اس سب میں خواص کا کردار بڑا اہم ہے، ایک بڑی تعداد جو حوزہ علمیہ قم میں پڑھ رہی ہے، وہ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، اسی طرح جو یونیورسٹیز میں اچھے پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ اپنا کرادار ادا کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر آئی ایس او آپ کے سامنے ہے، سب لوگ اگر مل جل کر اپنا کردار ادا کریں تو مسائل حل کئے جا سکتے ہیں، یہ مسائل حل نہ شدنی نہیں ہیں۔ اگر کوئی ہمت اور حوصلے کے ساتھ میدان میں آئے اور مسائل کو حل کرے ان شاء اللہ یہ حل ہونے والے مسائل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 730325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

زین
Iran, Islamic Republic of
اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے. جزاکم اللہ.
آل على
Iran, Islamic Republic of
خداوند علماء حق کا سایه قائم رکھے
جزاك الله
حسنین
Pakistan
بہت خوب۔۔قابل استفادہ۔۔جزاکم اللہ
ہماری پیشکش