0
Thursday 29 Nov 2018 21:55
امریکہ شیطان بزرگ ہے، اسے افغانستان سے جلد از جلد نکل جانا چاہیئے

آنیوالے وقت میں دہشتگردی کے خطرات میں مزید اضافہ دیکھ رہا ہوں، عبداللہ گل

کراچی اور ہنگو میں دہشتگردانہ کارروائیوں کا ایک ہدف آئیڈیاز دفاعی نمائش بھی تھی
آنیوالے وقت میں دہشتگردی کے خطرات میں مزید اضافہ دیکھ رہا ہوں، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 2007ء سے 2009ء تک انکو عدلیہ بحالی تحریک میں موثر کردار ادا کرنے پر اڈیالہ جیل میں قید رکھا۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بیلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے کرتار پور راہداری، کراچی اور ہنگو میں ہونیوالے دہشتگردی کے سانحات اور پاکستان کے دیگر معاملات پہ مفصل گفتگو کی، جسکا احوال انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آج ہی کرتار پور کوریڈور کا افتتاح ہوا ہے، کیا بھارت کیساتھ سب اچھا ہے۔؟
عبداللہ گل:
سب سے پہلے تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کرتار پور دربار ہماری ذاتی زمین کے اوپر بنا ہوا ہے۔ مجھے اس علاقے کا بہت اچھی طرح اندازہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے بارڈر پہ واقع ہے۔ پہلے درمیان میں سے ایک راستہ نکالنے کی تجویز تھی، اب جیسرڈ انکلیو کے ذریعے راستہ نکالا جا رہا ہے۔ یہ انڈین بارڈر سے آنے والا ایک راستہ ہے۔ سرحد پہ دونوں جانب ایک جالی لگائی جائے گی اور اس میں سے سکھ یاتریوں کی آمدورفت ہوگی۔ بارڈر سے کچھ دور بھارتی علاقے میں ان کا ایک درشن پوائنٹ ہے کہ جہاں سے سکھ یاتری دوربین لگا کر دربار کا درشن کرتے ہیں۔ دونوں جانب کا فاصلہ بمشکل چھ کلومیٹر بھی نہیں ہے۔ بھارت کی طرف گرداس پور کا علاقہ ہے اور بارڈر کے دونوں طرف لوگ اتنے نزدیک ہیں کہ وہ صبح سویرے جو بھی پڑھتے ہیں تو ان کی آوازیں یہاں سنائی دیتی ہیں اور یہاں کی آوازیں وہ سنتے ہیں۔

کرتار پور راہداری کے افتتاح کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے تو سب ٹھیک رہا مگر بھارت میں حکومت اور سکھوں کے مابین واضح تقسیم دیکھنے میں آئی ہے۔ مرکزی حکومت نے شرکت سے معذرت کی تو وزیراعلٰی اروندر سنگھ نے بھی آنے سے انکار کر دیا۔ جس پہ سکھ کمیونٹی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ویسے بھی خالصتان تحریک کو لیکر حکومت اور سکھوں کے مابین تناو کی کیفیت ہے۔ سکھوں نے خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم کیلئے 2020ء کا وقت بھی دیا ہوا ہے۔ خالصتان ٹی وی، ریڈیو چل رہے ہیں۔
خالصتان کے حوالے سے سکھوں کی تحریک بہت مضبوط ہے۔ آپریشن بلیو اسٹار جو کہ گولڈن ٹیمپل پہ ہوا، جس میں ساڑھے آٹھ ہزار سکھوں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پولیس اور را کے ذریعے سکھوں کے خلاف بڑا شدید آپریشن کیا گیا۔ جس کے بعد بہت سارے سکھ بیرون ملک یعنی کینیڈا، یورپی ممالک میں منتقل ہوئے اور بہت سرگرم ہوگئے۔ یہ تو خالصتان تحریک کی مختصر داستان ہے۔

دوسرا یہ کہ کرتار پور سکھوں کا گردوارہ ہے۔ ان کی عبادتگا ہ ہے۔ پاکستان نے تعلقات میں بہتری اور گڈول میں یہ راہداری کھولی ہے، تاہم ہندوستان اس سے نالاں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سمجھتا ہے کہ خالصتان
کی تحریک جو کہ پنجاب سے انتہائی قربت بھی رکھتی ہے اور سکھوں کے نزدیک آج بھی لاہور، لاہور ہے تو ہندوستان کو بہرحال یہ خطرہ ہے کہ سکھوں کے پاکستان کے ساتھ مراسم بڑھتے نہ چلے جائیں، وہ سمجھتا ہے کہ اگر سکھوں اور پاکستان کے مابین تعلقات گہرے ہوئے تو وہ مشکلات کا شکار ہوگا۔ کچھ بعید نہیں کہ تھوڑے عرصے میں یہ بات بھی بھارت کرنے لگے کہ خالصتان تحریک کو پاکستان کی مدد حاصل ہے، حالانکہ یہ حقائق کے منافی ہے، مگر چونکہ بھارت خود بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں اندورنی مداخلت کر رہا ہے تو اس کے اپنے دل میں چور تو ہے کہ اب پاکستان ہمارے خلاف بھی یہ نہ کرنے لگے۔ بھارت کی ہمارے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہے، یہ تو سکھوں کے دباؤ پہ کرتار پور راہداری کھولنے پہ آمادہ ہوا، ورنہ آپ یہ دیکھ لیں کہ سدھو کے ساتھ انہوں نے کیا کیا ہے۔؟ سکھوں کیلئے کرتار پور انتہائی مقدس ترین ہے اور یہاں آنے کیلئے وہ بہت بے چین ہیں۔ اب جبکہ یہ تاریخی کام ہونے جا رہا ہے تو ان سکھوں کے دل میں امڈنے والی خواہش بہت شدید ہے، جس کو حکومت نہیں روک سکتی۔ تاہم حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ وہ اس تمام معاملے سے حتی الوسع خود کو دور رکھ کر اپنی لاتعلقی ظاہر کرے اور اپنی اسی پرانی روش و ڈگر پہ قائم رہے اور اس وقت بھارتی حکومت یہی کر رہی ہے۔


اسلام ٹائمز: کراچی میں چینی قونصل خانے پہ حملے کی اطلاع تھی، حملے کے پیچھے کون ہے۔؟
عبداللہ گل:
دیکھیں یہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ کوئی ایک ایجنسی کی اطلاع نہیں ہوتی بلکہ مختلف ایجنسیز کی رپورٹس ہوتی ہیں جبکہ سکیورٹی تھریٹ عمومی طور پر بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ جیسے ابھی کرسمس کی آمد آمد ہے تو پاکستان کے تمام چرچ، گرجا گھروں پہ حملے کا خدشہ ظاہر کیا جائے گا۔ اس مد میں سکیورٹی تھریٹس نارمل سی بات ہو جاتی ہے۔ اطلاعات میں ثبوت کے ساتھ کنفرم اطلاع نہیں ملتی کہ خطرہ ہے کہاں اور کس وقت ہے۔؟ اس طرح کی خبر اس وقت ملتی ہے کہ جب اس حملے کے حوالے کوئی گفتگو ٹیپ ہو جائے یا کوئی سورس ایسا ہاتھ لگ جائے جو اس ممکنہ منصوبہ بندی کا حصہ ہو یا پھر کسی ایجنسی کا کوئی مخبر دہشتگرد گروہ کے اندر موجود ہو، تو پھر وقت اور مقام کا حتمی اندازہ ہوتا ہے، تاہم ایسی مصدقہ اطلاع بہت کم ملتی ہیں۔ عمومی سکیورٹی خطرات پہ کارروائی یا بچاؤ مشکل بات ہے۔ اب چینی قونصل خانے پہ حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی قبول کر رہی ہے جبکہ بی ایل اے کا کراچی میں کوئی سیٹ اپ سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو وہ وہاں پہ کیسے اتنی بڑی کارروائی انجام دے سکتی ہے۔؟

اسلام ٹائمز: تو پھر حملہ کس نے کیا اور کیسے ہوا۔؟
عبداللہ گل:
اب یہ حملہ ہوا کیسے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جیسا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ کراچی میں ایک دہشتگرد گروہ تھا، چونکہ عدالت کی جانب سے منع کیا گیا ہے، لہذا میں اس کا نام نہیں لیتا۔ اس دہشت گرد گروہ کے سلیپر سیل آج بھی موجود ہیںَ۔ ہمیں نیٹو کے وہ پچیس سو کنٹینر بھی یاد ہیں کہ جن میں اسلحہ تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر اسلحہ کے اندر بھی ایک ٹریکر ڈیوائس لگی ہوئی تھی۔ پھر بھی یہ سارا اسلحہ غائب ہوا۔ اس موقع پہ یا تو ان کی سیٹلائٹس نے کام چھوڑ دیا تھا یا پھر وہ خود یہی چاہتے تھے کہ یہ اسلحہ غائب ہو۔ وہ کنٹینر بھی کراچی میں غائب ہوئے جبکہ سلیپر سیل بھی کراچی میں موجود ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں کراچی کو آگ لگا دیتے ہیں۔ کراچی میں لوکل سلیپر سیل کے تعاون کے بغیر کارروائی ممکن نہیں۔ بی ایل اے کے پیچھے بھارت ہے۔ دوسرا
اس دہشتگرد جماعت کے بھی بھارت کے ساتھ تعلقات تھے، یہاں تک کہ اس کے سربراہ بھارت کو اپنی جان قرار دیتے تھے۔

ہندوستان سے پہلے بھی انہی کو فنڈنگ آتی تھی۔ آج بھی یہ فنڈنگ آتی ہے۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پہ ہونے والے حملے میں بھارت ملوث ہے۔ بھارت افغانستان میں بھی سرگرم ہے اور بلوچستان میں بھی۔ جب سے بھارت کو یہ محسوس ہوا ہے کہ امریکہ خطے میں جنگ ہارنے کے بعد افغان حکومت طالبان کے ہاتھوں میں سونپ کر جانے کی تیاری میں ملوث ہے تو را اور این ڈی ایس پاگل پنے کا شکار ہوکر انہیں ڈھونڈ رہی ہیں، کیونکہ بھارت کو پتہ ہے کہ اگر افغانستان میں پرو پاکستان حکومت آگئی تو ان کا کوئی ایک آدمی بھی افغانستان میں نہیں ٹک پائے گا۔ 4.2 بلین ڈالر کی افغانستان میں انوسٹمنٹ ضائع ہو جائے گی۔ جس کو بچانے کیلئے بھارت ہر حربہ استعمال کرنے پہ تیار ہے۔ مجھے آنے والے وقت میں شدید دہشتگردی کے خطرات میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ بھارت امریکہ کے جانے سے پہلے کوئی سمجھوتہ کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس کی انوسٹمنٹ اور سلیپر سیل دونوں بچ سکیں۔


اسلام ٹائمز: چینی سفارتخانے اور اورکزئی ایجنسی میں ایک ہی دن حملے ہوئے، کیا دونوں کے مقاصد مشترک تھے۔؟
عبداللہ گل:
ہنگو میں ہونے والا بم دھماکہ بہت تباہ کن اور شدید نوعیت کا تھا۔ اس کا بھی مقصد یہ تھا کہ پاک افغان سرحدی علاقے میں ایک مرتبہ پھر خوف و ہراس پیدا کیا جائے اور پاکستان کی جانب سے جانے والے امن کے پیغام کو سبوتاژ کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ تاجر برادری کہ جس کو شنگھائی میں عمران خان نے خطاب کیا اور جسے مدعو کیا کہ آپ آئیں اور یہاں پہ انوسٹ کریں کہ کراچی اب امن میں ہے، کیونکہ چینیوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی کراچی میں ہے اور ہماری سب سے زیادہ شرح اکانومی بھی کراچی سے آرہی ہے تو اس کو روکنے کیلئے اور پاکستان کے ساتھ ساتھ چین اور چینیوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے یہ کارروائیاں کی گئیں۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا چوتھا ہدف ہماری آئیڈیاز کانفرنس تھی، جو کہ کراچی میں چل رہی ہے۔ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ پاکستان کوئی محفوظ ملک نہیں، تاکہ دنیا یہاں پہ نہ آئے۔ پاکستانی اسلحہ دنیا کے ممالک میں بڑی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اپنی کوالٹی، کم قیمت اور کم شرائط کی بنیاد پہ پاکستانی اسلحہ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ اسلحہ لو تو وہ یہ شرط بھی لگا دیتے ہیں کہ یہ اسلحہ تو ہمارے آدمی آکر چلائیں گے۔ فلاں وقت یہ چیز چلے گی اور اتنے گھنٹے کے بعد فلاں جہاز نہیں چلے گا۔ پاکستان کی ایسی کوئی شرائط نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: تحریک نوجوانان پاکستان کا بنیادی ہدف کیا ہے۔؟
عبداللہ گل:
تحریک جوانان پاکستان و کشمیر کا بنیادی مقصد نوجوانوں میں نئی روح پھونکنا ہے اور ان کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کے 68 فیصد لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں اور ان کی قیادت کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ ہم نوجوانوں کو آگے لانا چاہتے ہیں اور یوتھ کی بہت بات ہو رہی ہے۔ جو یوتھ کی بات کر رہے ہیں، کیا انھوں نے یوتھ کے نمائندگان کو آگے آنے کا موقع بھی دیا؟ اگر یوتھ کا تناسب 68 فیصد ہو اور نمائندگی صرف دو لوگ کر رہے ہوں تو یہ غیر مناسب اور غیر جمہوری ہے، کیونکہ جمہوریت برابری کا درس دیتی ہے۔ اس لئے یہ خیال پیدا ہوا کہ جوانوں کی کردار اور ذہن سازی کرنی ہے، سب سے زیادہ قوم کو کردار سازی کی ضرورت ہے، کیونکہ قائداعظم کے جانے کے بعد یہ عمل بالکل رک گیا۔ قائداعظم
یونیورسٹیز اور کالجز میں جاکر جوانوں کی کردار سازی کرتے تھے۔ قائد سے جب پوچھا گیا کہ آپ علی گڑھ یونیورسٹی میں بار بار کیوں جاتے ہیں تو آپ نے کہا یہ مسلم دنیا کا اسلحہ خانہ ہے، میں اس لیے ادھر آتا ہوں۔

نوجوانوں کو ان مقاصد کیلئے تیار کرنا ہے، جدھر عقابی روح پیدا ہو جائے، ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آئے۔
تحریک جوانان پاکستان کا بھی یہی مقصد تھا کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے، ان کے اندر وہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ آنے والے وقت میں وہ اچھے سیاستدان، ڈاکٹر، انجینئر، فوجی، جج اور سول بیوروکریٹ بن سکیں۔ ہم کہتے ہیں تمام رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر آپ ہماری تحریک کا حصہ بنیں۔ سیاستدان ہمیں گلی اور محلے جبکہ علماء کرام مسجد اور منبر میں تقسیم کر رہے ہیں۔ تقسیم اللہ کو پسند نہیں، ''واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا'' بڑا واضح کہا گیا۔ جس اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، ہم اس کو آج تک مکمل نہیں کر پائے۔ جوانان کشمیر ایک الگ تنظیم ہے، جس کا مقصد لے کر رہیں گے آزادی اور آزادی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہم نے حاصل کرنی ہے۔ ہمارا مقصد نوجوانوں کا ایسے انقلاب کی طرف رججان دلانا ہے، جہاں وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرسکیں، جہاں وہ اپنے خیالات کو کسی کے تابع نہ کریں اور ان کی محکومانہ سوچ کو ختم کرکے آزادی حاصل کی جائے، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا، تعلیمات قائداعظم محمد علی جناح نے دیں۔

اسلام ٹائمز: انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
جی بالکل، انتخابات کا راستہ ہم نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان کی جو حکومت جا رہی ہے، اس میں بھی ان کیلئے بہت ساری مشکلات ہیں۔ اگر یہ حکومت اس انداز سے عمل نہ کر پائی جیسی لوگوں نے ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس نظام کو بھی اپنے ساتھ لپیٹ کر جائے گی۔ پھر ایک نیا نظام آئے گا، جس کیلئے ہم تگ و دو کر رہے ہیں۔ طریقہ جمہوری ہی ہوگا لیکن یہ سسٹم آف گورنس نہیں ہوگا۔ خان صاحب کو ہی دیکھ لیں، اگر وہ پولیس ریفارمز اور صحت و تعلیم کے حوالے سے کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اٹھارویں آئینی ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا وہ لا سکتے ہیں؟ نہیں کیونکہ انہیں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی ضرورت پڑے گی، جس کیلئے سمجھوتہ کرنا پڑے گا تو پھر ان میں باقی لوگ میں کیا فرق رہ جائے گا۔

اسلام ٹائمز: مولانا سمیع الحق کو کن لوگوں نے قتل کیا اور انکے عزائم کیا تھے۔؟
عبداللہ گل:
مولانا سمیع الحق صاحب کی شہادت ایک تاریخی اور افسوس ناک واقعہ ہے، مولانا صاحب کو ایسے وقت میں شہید کیا گیا، جب افغانستان کے اندر معاملات بہتری کی طرف اور طالبان کے حق میں جا رہے تھے۔ امریکہ طالبان سے بات کرنے کیلئے تیار ہے اور بات چیت ہو بھی رہی ہے۔ یہ سارے عوامل کابل کی کٹھ پتلی حکومت کو پسند نہیں ہیں، کیونکہ اگر طالبان سے معاملات طے ہو جاتے ہیں تو کابل حکومت کو جگہ نہیں ملے گی۔ مولانا سمیع الحق کو افغانستان میں طالبان کی حمایت اور پاکستان سے محبت کرنے کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ شہید کرنے والوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح امن کا راستہ روکا جائے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں بیرونی طاقتیں موجود رہیں، کیونکہ کابل حکومت نے کہا ہوا ہے کہ بیرونی افواج کے بغیر ہم دو دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے، دوسری وجہ بھارت ہے، جس نے کابل حکومت کی حمایت میں کھربوں ڈالر کا خرچا کیا ہے۔ جہاں میں کابل کہتا ہوں تو اس کا مطلب افغان نہیں بلکہ
کابل حکومت ہے، کیونکہ افغانستان کا 85 فیصد حصہ افغان طالبان کے پاس ہے۔ مولا ناصاحب نے ہمیشہ حق اور سچ کی بات کی ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی طاقتیں نہ رہیں۔ افغانستان میں غیر ملکی طاقتوں کی وجہ سے دہشت گردی کو فروغ ملا، تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔


امریکہ شیطان بزرگ ہے، اس کو ادھر سے جلد از جلد چلے جانا چاہیئے۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان سے جانا چاہتا ہے تو ہندوستان اور کابل حکومت نہیں چاہتی کہ امریکہ افغانستان سے واپس جائے۔ اسی وجہ سے ان قوتوں نے مولانا صاحب اور ایس پی طاہر داوڑ کو شہید کیا اور مولانا صاحب کی شہادت کے روز میرے اوپر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ آپ حکومت کے کام دیکھیں کہ وزیراعظم کے ترجمان کہتے تھے، ایس پی صاحب کا فون بند ہے اور وہ محفوظ ہیں، کیا انھیں قوم کو گمراہ کرنے کے جرم میں سزا ملے گی؟ 26 اکتوبر کو یہ واقعہ پیش آیا اور ترجمان وزیراعظم کہتے رہے کہ ایس پی صاحب محفوظ ہیں، ایسے ہی میڈیا بات کا بتنگڑ بنا رہا ہے۔ اگر اسی وقت موزوں ایکشن لیا جاتا تو شاید نوبت ایس پی صاحب کی موت تک نہ آتی۔ اسلام آباد سے میانوالی، میانوالی سے براستہ بنوں اور کوہاٹ افغانستان لے جایا گیا۔ آپ مجھے بتائیں یہ 300 کلومیٹر سے زائد راستے میں کیا کوئی نہیں پکڑ سکتا تھا؟

13 نومبر کو شہادت کی تصدیق ہوئی تو 14 نومبر کو وزیر داخلہ کہتے ہیں ہم فوری تحقیقات کرتے ہیں۔ اتنے عرصے بعد فوری کی تو بات ختم ہوگئی اور میری بات دیکھ لیں، مجھے پہلے بھی دھمکیاں آئیں کہا گیا کہ آپ ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کی ہٹ لسٹ پہ ہو اور میں نے وزرات داخلہ کو آگاہ بھی کیا ہے، لیکن مجھے بھی سکیورٹی نہیں فراہم کی گئی۔ حکومت تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو ٹیکس کیوں لیتی ہے۔ مولانا صاحب کو سکیورٹی نہیں دی گئی، ایس پی داوڑ جن کو سکیورٹی خطرات تھے، جن کی بنیاد پر وہ اپنے علاقے میں رہنے کی بجائے یہاں اسلام آباد میں رہتے تھے، ان کو بھی سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ میرے اوپر ایک بار نہیں ماضی میں تین بار حملے ہوچکے ہیں اور سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ پارٹی سربراہان کو سکیورٹی دی جائے، کیا مجھے دی گئی؟ مولانا صاحب اور ایس پی داوڑ کی شہادت کے معاملات میں حکومت کی مکمل طور پر نااہلی ہے۔


اسلام ٹائمز: کیا ہماری انٹیلیجنس ایجنسیزر غافل ہیں۔؟
عبداللہ گل:
انٹیلی جنس ایجنسیز کو خطرات کے متعلق جب خبر موصول ہوتی ہے تو وہ نیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی) کو منتقل کر دیتی ہیں۔ نیکٹا پولیس اور آئی بی کو خط جاری کر دیتی ہے کہ فلاں فلاں شخص کو خطرات ہیں، آپ ان کی حفاظت کریں۔ آئی ایس آئی کے اندر باقاعدہ ایک کانٹر ٹیرارزم ڈپیارٹمنٹ ہے، جو خطرات کے متعلق اداروں کو آگاہ کرتا ہے، لیکن آئی ایس آئی اپنے لوگوں کے علاوہ تو کسی کو سکیورٹی فراہم نہیں کرسکتی۔ سکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری تو پولیس کی ہوتی ہے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے تو اپنا کام مکمل کرکے خطرات کے متعلق آگاہ کر دیا، اب تحفظ کو یقینی بنانا تو پولیس، آئی بی اور وزرات داخلہ کا کام ہے، لیکن وزرات داخلہ تو مکمل طور پر غافل ہے۔ افواج پاکستان کے جن شہروں میں ہیڈکوارٹر ہیں، ان ہیڈکوارٹرز کے اندر کی سکیورٹی کا خیال رکھنا ملٹری انٹیلی جنس کی ذمہ داری اور اختیارات کے اندر آتا ہے۔

یہ معاملات جن پہ آپ بات کر رہے ہیں، ان کے دائرہ اختیار کے اندر نہیں آتے، انہوں نے متعلقہ اداروں کو خطرات سے آگاہ کیا۔ کیا متعلقہ اداروں نے انہیں
کہا کہ فلاں فلاں شخص کی سکیورٹی آپ کے ذمہ ہے؟ جیسے سیلاب، زلزلہ یا کوئی ناگہانی آفت آتی ہے تو فوج کو طلب کر لیا جاتا ہے۔ کیا کبھی فوج نے آنے سے انکار کیا۔؟ اگر آپ طلب کریں گے تو وہ آئیں گے۔ تحریک لبیک کے دھرنے میں کس نے کردار ادا کیا؟ جنرل فیص حمید صاحب نے کردار ادا کیا، حکومت کا تو کوئی نمائندہ وہاں موجود نہیں تھا، وہ تو چین چلے گئے تھے۔ ہمیں اپنے انٹیلی جنس اداروں کے اندر ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ انٹیلی جنس اداروں پر سوال اٹھتا ہے، لیکن جب بھی انٹیلی جنس اداروں کا نام آتا ہے تو آئی ایس آئی اور ایم آئی ہی مراد کیوں لیا جاتا ہے۔؟


اسلام ٹائمز: قیام پاکستان سے کشمیر کا مسئلہ چلا آرہا ہے ، یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا اور کیا حکومت پاکستان اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہے۔؟ 
عبداللہ گل:
بالکل بھی نہیں، معذرت کے ساتھ پاکستان کی کوئی حکومت اس کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں رہی۔ قائداعظم کے دور میں کشمیر پر اٹھارہ قراردادیں پیش ہوئیں، اس کے بعد آمریت بھی آئی اور جمہوریت بھی، لیکن کیا کسی نے ایک بھی قرارداد پاس کی؟ اگر ایک بھی قرارداد منظور نہیں ہوئی تو آپ کو سنجیدگی کا اندازاہ ہو جاتا ہے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر کیلئے ایک ہزار سال کی جنگ لڑیں گے لیکن آپ کہتے ہیں سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کریں گے۔ بھارت کی فوجیں اتارنے سے پہلے کشمیر پاکستان کا حصہ تھا، لیکن اب آپ لڑنے کیلئے نہیں تیار۔ آپ کے قائد نے ایک ہزار سال کی جنگ کا کہا یا تو پھر کہہ دیں قائد کی سب پالیسیاں غلط تھیں۔ نوٹ سے قائداعظم کی تصویر اتار دو اور وقت کے وزیراعظم کی لگا دو۔ آپ نے ایٹم بم کس کیلئے بنایا تھا؟ آپ بولیں تو سہی کہ کشمیر کیلئے ہم ایٹمی جنگ تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ ان کے متعدد افواج کے اعلی آفیسر کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کا اب پاکستان سے معاملات حل کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ نہرو نے کہا تھا کشمیر کو ہم پلیٹ میں رکھ کر پاکستان کو دیدیں گے لیکن کشمیر کو آزاد نہیں کریں گے، کیونکہ کشمیر کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی باقی ریاستیں بھی ایک ایک کرکے آزاد ہو جائیں گی۔ نیوکلیئر ڈرانے کیلئے ہے، جب ہم نیوکلیئر کی دھمکی دیں گے تو دنیا ہمیں سنجیدہ لے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا اسوقت ملکی معاملات میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں۔؟
عبداللہ گل:
فوج ڈے ٹو ڈے افیئرز میں تو نہیں پڑتی۔ انٹرنیشنل اور دفاعی پالیسیز پر میں نہیں سمجھتا کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں۔ بالکل ایک ہی پیج پر ہیں۔ ماضی میں بھی ایک پیج پر رہے ہیں۔ مسائل تب ہوتے ہیں، جب آپ اپنا قصور فوج پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ آپ فضول میں سرل امیڈا جیسے کیسز کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ اپوزیشن الزام عائد کرتی ہے کہ عمران خان کو خاکی وردی والوں نے ایک ڈیل کے تحت وزیراعظم بنوایا، کیا اس میں کوئی صداقت ہے۔؟
عبداللہ گل:
جہاں تک بات آرمی کے کردار کی ہے تو آرمی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کیا نواز شریف، بے نظیر اور ماضی کی دیگر حکومتوں میں آرمی کا کردار نہیں تھا؟ آرمی ایک حقیقت ہے، جیسے دوسرے لوگ حقیقت ہیں۔ آرمی کی موجودگی میں ہی الیکشن کیوں کروائے جاتے ہیں، کیونکہ پولیس فورس ناکافی ہے۔ ساتھ ساتھ آپ آرمی کو گالی بھی دینا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس پہ اعتبار نہیں، یہ سیاستدانوں کے دہرے معیار ہیں، جب چاہتے ہیں یہ آرمی کو اپنے مفاد میں استعمال کر لیتے ہیں، جب چاہتے ہیں آرمی کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 763841
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش