0
Tuesday 12 Feb 2019 11:24
عوام نے ہمیں انصاف کیلئے ہی منتخب کیا اور اب ہم ہر صورت انصاف کرکے دکھائیں گے

جب دل صاف، ارادے نیک اور مضبوط ہوں تو رکاوٹیں راستہ نہیں روک سکتیں، محمود خان

صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے عوامی مسائل سے براہ راست آگاہی اور انکو حل کرنا میرا فرض ہے
جب دل صاف، ارادے نیک اور مضبوط ہوں تو رکاوٹیں راستہ نہیں روک سکتیں، محمود خان
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان کا تعلق ضلع سوات کی تحصیل مٹہ سے ہے، جہاں وہ اکتوبر 1972ء کو پیدا ہوئے۔ محمود خان نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول مٹہ سے حاصل کی، جبکہ ثانوی تعلیم پشاور پبلک اسکول سے حاصل کی۔ انہوں نے شعبہ زراعت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ محمود خان نے 2012ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور انہیں صدر پی ٹی آئی مالاکنڈ بنایا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں انہوں نے سوات سے کامیابی حاصل کی تھی، انہیں صوبائی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا تھا، تاہم انہیں اس منصب سے ہٹا دیا گیا تھا۔ محمود خان کو اسکے بعد صوبائی وزیرِ کھیل، آبپاشی اور سیاحت کا قلمدان سونپا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق محمود خان تحریک انصاف میں شامل ہونے سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا حصہ بھی رہے ہیں۔ محمود خان 2005ء میں مٹہ تحصیل کی یونین کونسل خیریرئی کے ناظم منتخب ہوئے اور 2008ء کے بلدیاتی انتخاب میں بھی وہ اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ 25 جولائی کو ہونیوالے عام اتنخابات میں محمود خان نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشست پی کے 9 سوات سے کامیابی حاصل کی تھی، جسکے بعد محمود خان وزارتِ اعلٰی کیلئے اچانک امیدوار بن کر سامنے آئے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز۔ آپ نے ایک ایسے مرحلے پر عہدہ سنبھالا جب مرکز اور صوبے میں دونوں جگہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اس وجہ سے عوام کی توقعات بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر ہیں، یہ توقعات پوری کرسکیں گے۔؟
محمود خان:
آپ نے بالکل ٹھیک کہا، اسوقت ہم سے لوگوں کی توقعات بہت زیادہ ہیں، وہ بہت زیادہ امیدیں رکھے ہوئے ہیں اور یہ یقیناََ ان کا حق بھی ہے۔ ان شاء اللہ اچھا وقت بہت جلد آنے والا ہے۔ ہم اپنے لوگوں کو کسی بھی صورت مایوس نہیں کریں گے، اگرچہ فنڈ کی کمی کا مسئلہ ہے، مگر یہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔ ہمیں درپیش چیلنجز بھی زیادہ ہیں، مگر ہمارے عزم کے سامنے ان کی کچھ حیثیت نہیں، ہم تمام مشکلات پر قابو پا لیں گے اور اپنے ووٹروں کی توقعات ضرور پوری کریں گے، کیونکہ جب دل صاف، ارادے نیک اور مضبوط ہوں تو پھر رکاوٹیں راستہ نہیں روک سکتیں۔ تاریخ میں جو سنہرا موقع اس صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کا ملا ہے، اس سے ضرور فائدہ اٹھایا جائے گا۔

ماضی کی وفاقی حکومتوں میں ہمارے صوبے کیساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں، ہمارے فنڈز روکے گئے یا پھر ان کے اجراء میں مختلف تاخیری حربے استعمال کئے گئے۔ ہمیں ہمارے حصے کے بڑے پراجیکٹس سے بھی محروم رکھا گیا۔ سابقہ وفاقی حکومتوں کی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی میں شدید اضافہ ہوا۔ اسی لئے تو وہ جماعتیں عوامی پذیرائی سے محروم ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے انصاف کا نعرہ بلند کیا اور عوام نے ہمیں انصاف کیلئے ہی منتخب کیا اور اب ہم ہر صورت انصاف کرکے دکھائیں گے۔ بے انصافی کا دور ختم کرچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسوقت وفاقی حکومت میں پختونوں کو ریکارڈ نمائندگی ملی ہوئی ہے، اسکو اپنے حق میں کیونکر استعمال کیا جاسکتا ہے۔؟
محمود خان:
الیکش کے بعد نہ صرف مرکز اور صوبے میں ہماری حکومتیں قائم ہوئیں بلکہ مرکزی حکومت میں ہمارے صوبے کو پہلی بار موثر نمائندگی بھی ملی ہے۔ کئی اہم وزارتیں ہمارے پاس ہیں، صوبے کے سابق وزیراعلٰی بھی کابینہ کا حصہ ہیں، جن کو صوبے کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے۔ مرکز میں پختونوں کو نمائندگی حاصل ہوچکی ہے، جبکہ صوبے میں بھی ہماری جماعت کی اکثریت ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، اسی وجہ سے ہی لوگوں کی توقعات بھی بہت زیادہ ہوچکی ہیں۔ ہماری وفاقی حکومت کو سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خزانہ خالی ملا ہے، ملکی قرضوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کو مالی بحران ورثے میں ملا، جس کے بعد انہوں نے قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور مالی استحکام کیلئے فوری طور پر دوست ممالک سے رجوع کی غرض سے دوروں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابیاں ملی ہیں۔

اسوقت فنڈز کم تو ہیں مگر اس کے باجود صوبے کو اس کا جائز اور قانونی حصہ مل کر رہے گا۔ ہماری حکومت نے آتے ہی پن بجلی منافع پر دوٹوک موقف لیتے ہوئے اے جی این قاضی فارمولے کو عملی صورت دینے کا مطالبہ کر دیا۔ اگرچہ اس کیلئے سابق دور میں کمیٹی بنانے کا اعلان تو کیا جاچکا تھا، مگر اس کے بعد خاموشی تھی۔ میرے مطالبے پر قاضی فارمولے پر عملدرآمد ممکن بنانے کیلئے قائم کمیٹی کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا، جس کے بعد اب خصوصی کمیٹی اور اس کی قائم کردہ ٹیکنیکل کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے۔ ہماری طرف سے مشیر توانائی حمایت اللہ خان اس کے رکن ہنے، جو انتہائی تجربہ کار اور ٹیکنیکل معاملات پر عبور رکھنے والی شخصیت ہیں اور اسوقت بڑی محنت سے صوبے کا مقدمہ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ہماری کوششوں سے صوبے کی مالی حالت جلد اچھی ہو جائے گی، جس سے اپنے منصوبوں پر عملدرآمد میں آسانی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اسوقت 100 روزہ پلان تیار ہوچکے ہیں، اگلے پانچ سال کیلئے ان کی کیا اہمیت ہے اور عملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ کون کر رہا ہے۔؟
محمود خان:
مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں نے سو روزہ پلان بنائے ہوئے ہیں، جن پر اب عملدرآمد بھی ہوچکا ہے۔ اس معاملے میں ہماری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ صوبے میں پانچ سالہ حکومت کے دوران بہت سی اصلاحات نافذ کیں اور اب ان میں مزید بہتری لا رہے ہیں۔ ہم اب اس سے ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم صوبے میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کریں، ساتھ ہی انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی بھی ہمارے لئے چیلنجنگ ٹاسک ہے، اس کو بھی سو روزہ پلان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ سو روزہ پلان پر عملدرآمد جاری ہے اور اس کی مانیٹرنگ میں خود کر رہا ہوں، تین ماہ بعد پھر اس کا جائزہ لیں گے۔ پہلے ایک سالہ پلان ہے، پھر باقی مدت کیلئے منصوبہ بندی ہے۔ اس تمام تر عمل کی مانیٹرنگ مرکز میں وزیراعظم اور صوبے میں وزیراعلٰی کر رہے ہیں۔ اس سے محکموں کو اپنے اہداف بروقت حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی مل سکے گی اور یہی ہمارا بنیادی مقصد بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی حکومت نے بی آر ٹی کیلئے جو ڈیڈ لائن دی ہے، کیا وہ آخری ثابت ہوسکے گی۔؟
محمود خان:
بی آر ٹی اس پورے صوبے کا بہت بڑا پراجیکٹ ہے، جب میں نے عہدہ سنبھالا تو چند ایشوز تھے، اے ڈی بی کے قرضے کا مسئلہ تھا جبکہ منصوبہ ایکنک میں بھی نہیں گیا تھا۔ اگرچہ اس کی لاگت میں اضافہ تو ہوگیا، مگر اس کے باجود ایکنک سے منظوری مل گئی، پھر کنٹریکٹرز اور فنڈنگ کے بعض چھوٹے موٹے ایشوز بھی چل رہے تھے۔ اس سلسلے میں، میں نے خود پے درپے کئی اہم اجلاس بلائے، ہماری حتی الوسع کوشش ہے کہ جن مقاصد کیلئے بی آر ٹی بن رہی ہے، وہ ہر صورت حاصل ہوں، کیونکہ اس پر اربوں روپے کی لاگت آئی ہے۔ یہ رقم کسی بھی صورت ضائع نہیں ہونی چاہیئے۔ اسوقت بی آر ٹی پر پوری توجہ مرکوز ہے اور 23 مارچ کی جو ڈیڈلائن دی گئی ہے، وہ حتمی ثابت ہوگی اور مقررہ تاریخ پر میں خود اس کا افتتاح کروں گا۔

اسلام ٹائمز: فاٹا کا انضمام ہوچکا ہے مگر بعض عناصر کیطرف سے اصلاحاتی ایجنڈے کی راہ میں رکاؤٹیں ڈالی جا رہی ہیں، ان سے کیسے نبردآزما ہونگے۔؟
محمود خان:
فاٹا اسوقت صوبے کا حصہ بن چکا ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ایسے وقت میں وزیراعلٰی بنا ہوں، جب قبائلی اضلاع صوبے کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور قبائلی عوام کو بدترین نظام سے چھٹکارہ مل چکا ہے، جس وقت فاٹا کا انضام ہو رہا تھا تو حکومتیں رخصت ہونے والی تھیں، ان دنوں ان علاقوں کی تعمیر و ترقی کیلئے سالانہ ایک سو ارب روپے دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اب جبکہ یہ علاقے صوبے کا حصہ ہیں تو ہم اس اضافی رقم کے حصول کیلئے وفاقی حکومت کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ فیصلہ کیا گیا تھا کہ این ایف سی کے ذریعے تمام فریق تین فیصد اضافی فنڈز ان علاقوں کیلئے مختص کریں گے، چونکہ اب تک این ایف سی کا اجلاس نہیں ہوسکا ہے، اس لئے ہم نے وفاقی حکومت سے کہا کہ جب تک این ایف سی میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا، اسوقت تک خیبر پختونخوا، پنجاب، اور خود وفاق اپنے حصے سے تین فیصد فنڈ قبائلی اضلاع کیلئے فراہم کریں، تاکہ تعمیر و ترقی کا جاری عمل رکنے نہ پائے۔

ہم نے تمام محکموں کو قبائلی اضلاع تک توسیع دیدی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عملدرآمد کیا جائے گا۔ صوبے کے تمام قوانین کا نفاذ قبائلی اضلاع میں ہوگا۔ صحت و تعلیم کے شعبوں کی بہتری کے انڈی پینڈینٹ مانیٹرنگ یونٹس کو بھی ان علاقوں تک توسیع دی جاچکی ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبوں میں انفراسٹرکچر اور افرادی قوت کی کمی ترجیحی بنیادوں پر پوری کی جا رہی ہے۔ قبائلی اضلاع کے تمام خاندانوں کو صحت کارڈ دیئے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیں گے۔ ان کو حقیقی معنوں میں قومی و سیاسی دھارے میں لایا جا رہا ہے۔ اس کیلئے صوبائی حکومت نے حکمت عملی تیار کی ہوئی ہے اور اب اس پر عملدرآمد جاری ہے۔ میں خود ہر دس دن بعد ترقیاتی امور کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتا ہوں، تمام محکموں کو مختلف اقدامات کیلئے ڈیڈلائنز دی جاچکی ہیں۔ قبائلی بھائیوں کو کسی بھی صورت ہرگز مایوس نہیں ہونے دیں گے، نہ ہی کسی کو اصلاحاتی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے دی جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کے تحفظات ہیں، واقعی کوئی ایسی بات ہے۔؟
محمود خان:
عملدرآمد کا مرحلہ جاری ہے، اس دوران اکا دکا شکایات سامنے آتی رہیں گی، جن کو دور کرنے کیلئے بات چیت کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے، مگر میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انضمام کے تحت تمام متعلقہ قوانین نافذ کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے احکامات بھی بالکل واضح ہیں، حکمت عملی تیاری کی جاچکی ہے، جو اگلے چند دن میں سامنے آجائے گی۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت میں توسیع کب تک متوقع ہے۔؟
محمود خان:
(ہنستے ہوئے) میں جہاں بھی جاتا ہوں یا کوئی بھی پریس کانفرنس کرتا ہوں تو کابینہ میں توسیع اور نیب کے حوالے سے سوال مجھ سے ضرور ہوچھتے ہیں۔ کابینہ میں توسیع ضرور ہوگی، اس سلسلے میں فروری کے اواخر تک فیصلہ ہو جائے گا۔ میرے پاس زیادہ محکمے ہیں اور میں خود بھی چاہتا ہوں کہ وہ کسی کے حوالے ہوں۔ ویسے بھی فاٹا کے انضمام کے بعد کام کا بوجھ زیادہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں ذمہ داریاں تقسیم کرنے سے ہی سرکاری امور میں بہتری آئے گی اور کام بھی تیز ہوگا۔ میں یہ ذمہ داریاں فوری تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں ہسپتالوں پر چھاپوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ خوش آئند تو ہے مگر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ دورے وزیر صحت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
محمود خان:
یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ میرے ان چھاپوں کا مقصد وزیر صحت پر عدم اعتماد ہرگز نہیں، وہ محنتی اور متحرک انسان ہیں۔ ان کا محکمہ بہت بڑا ہے، میرے دوروں کا مقصد عوام کے درمیان جاکر ان کو یہ احساس دلانا ہے کہ موجودہ حکومت ان کے مسائل سے لاتعلق نہیں ہے۔ جب وزیراعظم عمران خان ہسپتالوں کے دورے کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا؟ میرے ان دوروں کا مقصد وزیر صحت کو کور اپ کرنا ہے۔ میں نے اس کے بعد تھانوں، تعلیمی اور دیگر اداروں کا بھی رخ کرنا ہے۔ یہ سلسلہ صرف پشاور تک محدود نہیں رہے گا، دیگر اضلاع کی باری بھی جلد آنے والی ہے۔ اس سے اداروں کے کام میں بہتری آئے گی۔ ویسے بھی صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے عوامی مسائل سے براہ راست آگاہی اور ان کو حل کرنا میرا فرض بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: پور صوبے سمیت پشاور کو بھی ان دنوں گیس کی بدترین کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کیوجہ سے لوگ سخت پریشان ہیں، صوبائی حکومت اس مسئلے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے۔؟
محمود خان:
یہ بجا ہے کہ شہر کو اسوقت گیس کی کمی کا سامنا ہے اور ہمیں لوگوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کا بھی بھرپور احساس ہے، اس لئے اس حوالے سے ہم پوری طرح سے کوشاں ہیں۔ گیس کے مسائل بی آر ٹی کے ساتھ بھی جڑے ہوئے تھے، جو اب وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوتے جا رہے ہیں۔ پشاور ہم سب کا شہر ہے، یہاں پورے صوبے سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ اس شہر کے مسائل کو نظرانداز کرنے پر یقین نہیں رکھتے، آبادی میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے اس شہر کو دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مختلف مسائل سامنے آرہے ہیں، جن سے نمٹنے کیلئے ہم سب ایک ٹیم بنا کر ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ گیس کی مین لائن پر کام جاری ہے، جس کا افتتاح دو ہفتوں تک ہو جائے گا اور اس کے بعد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی والوں نے ڈیڑھ کروڑ روپے لے کر این او سی دیا ہے، تاہم میں نے سی اینڈ ڈبلیو کو ہدایت کی ہے کہ پانچ کروڑ لئے بغیر فوری این او سی جاری کیا جائے، کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کر دیں گے۔

اسلام ٹائمز: سابقہ ادوار میں سی پیک کو اندھیرے میں رکھا گیا، جس پر چھوٹے صوبوں میں کافی تشویش پائی جاتی رہی، اسوقت سی پیک میں صوبے کے جائز حصے کے حوالے سے اصل صورتحال کیا ہے۔؟
محمود خان:
میں اس کو اس صوبے کی عوام کی خوش قسمتی کہوں گا کہ اسوقت مرکز میں بھی ہماری حکومت ہے، وزیراعظم عمران خان اس تمام معاملے سے پوری طرح باخبر ہیں، وہ تمام صورتحال سے آگاہ ہیں۔ اس لئے اب کسی کی حق تلفی کا کوئی امکان نہیں، گذشتہ دنوں چین میں جے سی سی کا جو اجلاس ہوا تھا، اس میں نمائندگی مشیر توانائی حمایت اللہ خان نے کی تھی۔ اس اجلاس میں صوبے کیلئے پن بجلی کے تین منصوبوں کی منظوری دی گئی جبکہ ساتھ ہی چشمہ رائٹ بینک لفٹ کنال کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اگر اس کو سی پیک کا حصہ نہیں بنایا جاتا تو پھر اس کیلئے مرکز سے فنڈز لیں گے۔ سی پیک میں پن بجلی کی نئی اسکیمیں ڈالنے کیلئے بھی کوششیں کر رہے ہیں، رشکئی اکنامک زون سے صوبے میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ ان شاء اللہ سی پیک میں صوبے کا جائز حصہ اب کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔

اسلام ٹائمز: آپکا تعلق مالاکنڈ سے ہے، وزیراعلٰی کی حیثیت سے اپنے علاقہ کیلئے کیا سوچ رکھا ہے۔؟
محمود خان:
یہ درست ہے کہ مجھ پر میرے علاقے کا بہت حق ہے، جو ماضی میں کافی نظر انداز ہوتا رہا ہے، تاہم گذشتہ پانچ سال کے دوران ہم نے ان محرومیوں کے ازالے کیلئے بہت کام کیا ہے، تاہم میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی ایک علاقے کا نہیں بلکہ پورے صوبے کا وزیراعلٰی ہوں۔ میں اپنے قول و فعل سے ثابت کر دوں گا کہ میں مالاکنڈ کا نہیں خیبر پختونخوا کا وزیراعلٰی ہوں۔ جو کچھ ماضی میں ہوا، وہ کسی صورت نہیں دہرائیں گے۔ سب کے گلے شکوے دور کریں گے، سب کو گلے لگائیں گے۔ میری کوشش ہے کہ ہر ڈویژن اور ہر ضلع کو ایک ایک بڑا پراجیکٹ دیا جائے۔ مالاکنڈ کے ساتھ ساتھ پشاور، ہزارہ، مردان اور جنوبی اضلاع کو بھی حق دیں گے۔ علاقائی تقسیم پر نہیں حقیقی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان صوبائی حکومت اور آپکی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
محمود خان:
میری جب بھی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات ہوئی، میں نے ان کو صوبائی حکومت کے حوالے سے مکمل طور پر مطمئن پایا بلکہ میں اگر یہ دعویٰ کروں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ 110 فیصد مطمئن ہیں۔ مجھے ان کا بھرپور اعتماد حاصل ہے اور میری کوشش ہے کہ اپنے قائد کے اعتماد پر ہر صورت پورا اتروں۔ اپنے ووٹروں کو بھی مایوس نہیں کریں گے، پارٹی منشور کے مطابق اصلاحاتی اور خدمت پر مبنی اقدامات کا سلسلہ مزید تیز کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: جب حکومت سازی کی دوڑ شروع ہوئی تو آپ خاصے لاتعلق نظر آئے، وزیراعلٰی بنانیکا فیصلہ سنایا گیا تو اسوقت کیا کیفیت تھی۔؟
محمود خان:
آپ بخوبی میرے مزاج سے واقف ہیں کہ میں لابنگ پر یقین نہیں رکھتا، اس لئے میں خود کو اس بھاگ دوڑ سے بچانے میں کامیاب رہا تھا۔ پھر ایک دن عمران خان کا بلاوا آیا، ان کے سامنے بیٹھا تو انہوں نے خبر دی کہ ہم نے آپ کو وزیراعلٰی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کچھ دیر کیلئے تو میرے منہ سے کچھ نہ نکل سکا، ایک دفعہ جی میں آیا کہ سوچنے کیلئے دو دن کی مہلت مانگ لوں، مگر اس کو نامناسب خیال کرتے ہوئے پارٹی قیادت کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا اور کہا کہ جو آپکا فیصلہ ہے، مجھے قبول ہے۔ پارٹی قیادت کے فیصلے کو سب کی تائید حاصل تھی۔ اِسوقت بھی مجھے تمام اراکین کا اعتماد حاصل ہے۔ پارٹی میں گروپ بندی کا تاثر غلط ہے، ہم سب پی ٹی آئی کے منشور کے مطابق نیا پاکستان بنانے کیلئے ایک ہیں۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے مسلسل دوسری بار صوبے میں حکومت قائم کرکے تاریخ رقم کر دی، اس میں بڑا کردار عمران خان کی شخصیت اور سابق حکومت کی کارکردگی میں کس کا رہا۔؟
محمود خان:
اگر سابق حکومت نے کارکردگی دکھائی تھی تو اس کا کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے، جن کی مسلسل مانیٹرنگ سے حکومتی کارکردگی نکھرتی چلی گئی۔ عمران خان نے مسلسل محنت اور جدوجہد سے پارٹی کو اس مقام پر پہنچایا ہے۔ انہوں نے کارکنوں کو متحرک کئے رکھا، ہم نے جب سابق دور میں حکومت سنبھالی تو شدید مشکلات کا دور تھا، مگر سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک کو داد دینی چاہیئے کہ جنہوں نے کم تعداد اور اتحادی جماعتوں کے دباؤ کے باوجود بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اصلاحات لے کر آئے، اداروں کو مضبوط کیا، اس میں عمران خان کی سپرویژن کا بھی بہت بڑا عمل دخل تھا اور اسی کی وجہ سے پی ٹی آئی نے نئی سیاسی تاریخی رقم کی۔

اسلام ٹائمز: دیگر جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی اسوقت مضبوط تنظیمی ڈھانچے سے محروم ہے، جس سے کارکنوں میں مایوسی پھیلتی جا رہی ہے، تنظیم سازی کا کام کب تک مکمل ہوگا۔؟
محمود خان:
تنظیم سازی سے قبل نئے پارٹی آئین کی تیاریاں جاری ہیں، جس میں ماضی کی نسبت کئی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ حکومتی اور جماعتی عہدے تو الگ الگ کر دیئے گئے تھے، تاہم اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی منتخب رکن بھی پارٹی عہدیدار نہیں بن سکے گا۔ نئے آئین کی تیاری کے ساتھ ہی تنظیم سازی کا عمل بھی مکمل کر لیا جائے گا، جس کے بعد پارٹی نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
خبر کا کوڈ : 777230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش