0
Tuesday 12 Mar 2019 17:15
نواز شریف کسی ڈیل کیلئے تیار نہیں ہیں

پی ٹی آئی پاکستان کو اسرائیل اور ایران میں کسی ایک کے انتخاب کی پوزیش پہ لے آئی ہے، طلال چوہدری

پی ٹی آئی پاکستان کو اسرائیل اور ایران میں کسی ایک کے انتخاب کی پوزیش پہ لے آئی ہے، طلال چوہدری
سابق وفاقی وزیر محمد طلال چوہدری 1973ء میں پیدا ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء نے 2008ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہیں ہوئے، 2013ء میں فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال، اپوزیشن کی حکمت عملی اور ممکنہ حکومت مخالف اتحاد سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انکے ساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت کیطرف سے علاج کی اجازت اور سہولیات فراہم کئے جانیکے باوجود نواز شریف کی بیماری کو سیاسی رنگ کیوں دیا جا رہا ہے۔؟
طلال چوہدری:
یہ جو بات کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ نون میان نواز شریف کی بیماری کو جواز بنا کر سیاست کر رہی ہے، یہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے وقت بھی کہا گیا، وہ تو اللہ کو پیاری ہوگئیں، لیکن ان نادانوں کو ہوش نہیں آیا کہ اخلاق اور اخلاقی قدریں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ حقیقت میں تو جب سے عمران خان اقتدار میں آئے ہیں، انکا چھپا ہوا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ جتنے بورڈ بنائے گئے اور انہوں نے صرف یہ جواب دیا کہ ہم تو چیک اپ کرسکتے ہیں، علاج ہمارے اختیار میں نہیں، اس سے بڑا مذاق کیا ہوسکتا ہے، ایک ایسا لیڈر جس نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا، جس سے ملک ناقابل تسخیر ہوگیا، اسے دربدر پھرایا جا رہا ہے، اس بات کی تصدیق بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی ہے کہ میاں نواز شریف بیماری کے باوجود دباؤ میں ںہیں ہیں، کسی قسم کی کوئی ڈیل یا این آر او جس کا شور ہے، وہ موجودہ حکومت کا ایک شوشا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو زرداری کو بھی لیگی قیادت کیطرح اپنے والد کا مستقبل مخدوش نطر آرہا ہے، کیا نون لیگ کا پیپلزپارٹی کیساتھ ملکر حکومت مخالف اتحاد بنانیکا امکان موجود ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمان اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔؟
طلال چوہدری:
مولانا صاحب اب بھی سب کیلئے قابل احترام ہیں، انہوں نے پہلے بھی اپوزیشن کو متحد کرنیکی کوشش کی ہے، جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی میاں نواز شریف سے ملاقات کی بات ہے، انہوں نے اخلاقی طور پر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے، جو شاید کم ظرف لوگوں کو ہضم نہیں ہو پائیگا، ان کی وہی رٹ ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی ملاقات تھی۔ میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب بی بی محترمہ شہید ہوئیں تو سب سے پہلے میاں نواز شریف ہسپتال میں پہنچے تھے۔ ہمیں یہ اب یقین حاصل ہے کہ میثاق جمہوریت ایک اچھی مثال تھی، لیکن موجودہ حکمران جماعت نے ملک کو درپیش مشکل صورتحال میں بھی سیاسی قیادت کو متحد کرنا اور رکھنا گوارا نہیں کیا۔ یہ بالکل درست ہے کہ پی ٹی آئی اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہوچکی ہے کہ ان کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔

اگر ہم فرض کر لیں کہ آصف زرداری یا اپوزیشن رہنماء کسی مقدمے کا سامنا نہیں بھی کر رہے ہوتے تو موجودہ حکمران ٹولے کی ذہنی حالت یہی ہوتی، یہ لوگ ایسی ہی اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرتے، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ جیل میں قید شخص بیماری میں مبتلا نہیں بلکہ یہ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں ذرا بھر احساس نہیں، میں یقین سے کہتا ہوں کہ میاں نواز شریف کے علاوہ اگر کوئی اور رہنماء بھی ہوتے تو انہوں نے ایسا ہی کرنا تھا۔ ان کا کردار قوم کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، ہر حساس شخص انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کم از کم ریاست مدینہ کا نعرہ انہیں زیب نہیں دیتا۔ یہ تو دشمنی اور عداوت میں اندھے ہوچکے ہیں۔ قوم کی فلاح و بہبود کی توقع ان سے نہیں کی جا سکتی۔ آج یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قید و بند اور بیماری کی حالت میں صعوبتیں نواز شریف کو ہلا نہیں سکی ہیں۔

انہوں نے اپنی طرف سے اذیت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہوتا ہے تو اسکی ایف آئی آر موجودہ حکومت کیخلاف کاٹی جانی چاہیئے۔ جہاں تک حکومت مخالف تحریک کی بات ہے تو اس وقت نون لیگ مزاحمت اور سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہے، لیکن اس کے لئے نواز شریف کی اجازت ضروری ہے۔ پارٹی قیادت پر اس وقت اندر سے بہت دباﺅ ہے اور کارکن نواز شریف کی صحت کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں اور ان میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے۔ پارٹی کیلئے سب سے اہم مسئلہ نواز شریف کی صحت ہے، لیکن موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے لوگ تنگ ہیں۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف کی فیملی کیطرف سے حکومت کیخلاف قتل کی ذمہ داری ڈالنے جیسی کوئی بات سامنے نہیں ائی، یہ ساری باتیں پیپلزپارٹی ہی کیوں کر رہی ہے۔؟
طلال چوہدری:
یہ ایک اہم بات ہے، جب بھی فیملی کی طرف سے علاج کا مطالبہ سامنے آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ڈر گئے ہیں اور بیماری کا بہانہ بنا رہے ہیں۔ یہ بات صرف پیپلز پارٹی نہیں کہہ رہی تمام رہنما کہہ رہے ہیں، مسلم لیگ نون ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، ہمارے سارے کارکن اور پارٹی لیڈر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ بیماری کو تماشا نہ بنایا جائے، لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی، اس غیر ذمہ دارانہ رویئے کی وجہ سے بلاول میدان میں آئے ہیں اور انہوں نے جو محسوس کیا، اسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ خود چل کر گئے ہیں، ہم ان کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے۔ انہوں نے تو بلاول بھٹو کو حکومتی طریقہ کار پر پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عمدہ ترین انداز میں تنقید کرنے پر انہیں غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ بنا دیا، کل کو یہ مودی کو عزیز دوست قرار دیدیں، یہ ان سے بعید نہیں، اسے یہ یوٹرن بھی کہہ سکتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف کا ویژن اور اہمیت کو تمام سیاسی رہنماء سمجھ رہے ہیں، دوسری طرف وفاقی وزراء عمران خان کی خوشامد اور چاپلوسی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہر حد پار کر رہے ہیں، فیصل ووڈا کا بیان اٹھا کر دیکھ لیں، فواد چوہدری بھی اسی دوڑ میں شامل ہیں، فیاض چوہان بھی جب تک عمران خان کی چاپلوسی اور اپوزیشن کو نشانہ بناتے رہے، انہیں کسی نے کچھ نہیں کہا، وہ ہمیشہ میاں صاحب کی بیماری کا مذاق اڑاتے رہے، لیکن جب ان کی وجہ سے حکومت کو عالمی سطح پہ رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تو فوری طور پر منصب سے الگ کر دیا گیا، اب اگلی باری فواد چوہدری کی ہے، اسی لیے وہ اپنی وزارت بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، اس لیے ان سے بعید نہیں کہ یہ غیر ضروری اور نامناسب طرز عمل اختیار کریں گے، لیکن نواز شریف اب بھٹو کی سوچ اور نقش قدم پہ چل رہے ہیں، وہ کسی صورت کمپرومائز نہیں کرینگے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ فواد چودھری اس وقت خود وینٹی لیٹر پر ہیں اور فیاض الحسن چوہان کے قریب قریب ہی ہیں، اس لئے نوکری بچانے کیلئے ایسے بیانات دے رہے ہیں، نواز شریف بھٹو کے فلسفے کو سمجھ چکے ہیں اور اسی لئے وہ جیل سے باہر آنے کیلئے کوئی ڈیل نہیں کر رہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا واقعہ ہو یا عمران خان کے لفٹ سے گرنے کا واقعہ، نواز شریف اپنی انتخابی مہم کو چھوڑ کر پہنچتے رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے بھی نواز شریف کی عیادت کرکے ایک اچھا اشارہ دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں حکومت کو جو چیلنج درپیش تھا، اتحادیوں کو راضی کرکے وہ اب اس مشکل سے نکل چکے ہیں، اپوزیشن اب کیا حکمت عملی اختیار کریگی۔؟
طلال چوہدری:
حکومت میں شامل زیادہ تر لوگ کوئی نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ یہ اقتدار والے لوگ ہیں، اگر کسی دوسری جماعت کی حکومت ہوگی تو یہ دوسری طرف چلے جائیں گے۔ اقتدار والے لوگ ایک رات کسی اور پارٹی میں ہوتے ہیں اور اگلے دن وہ کسی اور پارٹی کا ٹکٹ لیکر انتخابی میدان میں اتر جاتے ہیں، خدا کرے کہ عمران خان کو بھی یہ سمجھ آجائے، ورنہ یہ سمجھ اڈیالہ یا کوٹ لکھپت جیل میں جاکر آتی ہے۔ جیل میں وہی جاتا ہے، جو کسی خاص مقصد کیلئے آمادہ نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت نے بھارت کیخلاف سفارتی محاذ پر اچھی کارکردگی کیوجہ سے پاکستان کو تنہائی سے نکال لیا ہے، کیا کہیں گے۔؟
طلال چوہدری:
اگر اس کو اس طرح کہہ لیں تو زیادہ درست ہوگا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے اسلامی ممالک پاکستان کے قریب ہوئے ہیں۔ ورنہ تو جس طرح حکومت ڈیل کر رہی ہے، پاکستان کے دوستوں میں مزید کمی آجاتی، مودی کا یار ہونے کے طعنے دینے والے اب خود بغیر کسی دباؤ کے پاکستانی سرزمین پہ حملہ کرنیوالے بھارتی ہواباز کو مودی کو تحفے کے طور پر پیش کرچکے ہیں، اگر ان کے دوست ممالک سے اچھے تعلقات ہوتے یا اعتماد پہ مبنی روابط ہوتے تو یہ ان کی مشاورت اور ہم آہنگی سے بھارتی پائلٹ کے بدلے کشمیریوں کو ریلیف دلاتے۔ اسلامی ممالک کیساتھ تعلقات کی جہاں تک صورتحال ہے، اب تو پاکستان کو دوراہے پر کھڑا کر دیا گیا ہے، مشکل سے جو توازن لانے کی کوشش کی گئی سعودی عرب اور ایران کیساتھ تعلقات میں، عمران خان کی حکومت پاکستان کو اب ایران اور اسرائیل میں سے کسی ایک کے انتخاب کی پوزیشن پہ لے آئی ہے۔ یہ نظریہ پاکستان سے انحراف بھی ہے اور فلسطین کیساتھ ساتھ کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ہے، اس عالمی سازش کو سمجھنا ضروری ہے۔

بھارت اسرائیل کیساتھ تعلقات کو اگر پاکستان کیخلاف دباؤ کیلئے استعمال کر رہا ہے تو یہ اصل امتحان ہوتا ہے کہ کیسے اس صورتحال میں باوقار طریقے سے ملک کو نکالیں، دوسری طرف سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو ناراضگی ہے، وہ کم کروائیں، ساتھ ہی دونوں ملکوں کیساتھ تعلقات میں بہتری پہ سمجھوتہ نہ کریں، صرف مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک گفتگو کو کامیابی نہیں قرار دیا جا سکتا، معاشی طور پر جس طرح پاکستان کیخلاف محاذ بنائے جا رہے ہیں، ان سے نکلنے کی سبیل اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، اسی طرح دہشت گردی کے الزامات جن کالعدم تنظیموں پہ ہیں، انکا خاتمہ اور عالمی برادری کو یقین دلانا کہ پاکستان نے اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے، یہ سب ایشوز آپس میں جڑے ہوئے ہیں، دنیا انہیں الگ الگ ک کے نہیں دیکھتی، اگر ریاستی ادارے از خود سفارت کاری کو چلا رہے ہیں تو یہ حکومت کی ناکامی ہے، کسی صورت یہ کامیابی کا سہرا پانے سر نہیں لے سکتے۔
خبر کا کوڈ : 782824
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش