0
Friday 18 Oct 2019 05:52
لیگی حکومت نے سوائے کرپشن اور اقرباء پروری کے کچھ نہیں کیا

گلگت بلتستان میں پرائمری سے پی ایچ ڈی تک تعلیم مفت اور ہر خاندان کو صحت کارڈ دینگے، فتح اللہ خان

جی بی میں حلقہ بندیوں کیلئے وفاق کو قائل کرنے کی کوشش کرینگے 
گلگت بلتستان میں پرائمری سے پی ایچ ڈی تک تعلیم مفت اور ہر خاندان کو صحت کارڈ دینگے، فتح اللہ خان
فتح اللہ خان تحریک انصاف گلگت بلتستان کے جنرل سیکرٹری ہیں، ان کا تعلق گلگت میں وزیراعلٰی کے حلقے جگلوٹ سے ہے، گلگت بلتستان کے گذشتہ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل تک مسلم لیگ نون میں سرگرم رہے، تاہم پارٹی سے اختلافات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ پی ٹی آئی گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک ہے۔ انہوں نے گلگت میں پارٹی کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اس دوران کئی وکٹیں لینے میں بھی کامیاب رہے، رواں سال جولائی میں جی بی میں پارٹی کی تنظیم نو کے نتیجے میں پارٹی کی مرکزی قیادت نے انہیں ایک بار پھر جنری سیکرٹری مقرر کیا، وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن کے حلقے سے تعلق ہونے کے ناطے وہ ان کے سب سے بڑے ناقد شمار ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں فتح اللہ خان سے گلگت بلتستان کی سیاسی صورتحال و دیگر امور پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عام انتخابات نزدیک ہیں، الیکشن میں پی ٹی آئی کا منشور اور ویژن کیا ہو گا؟
 فتح اللہ خان:
ہماری پالیسی یہ ہو گی کہ جو کمی بیشی گذشتہ ادوار میں رہی ہے وہ ہم پوری کرینگے، پی ٹی آئی ایک ایسا میگا پلان لے کر میدان میں آئے گی، انشاء اللہ جس سے خطے کی تقدیر بدل جائے گی، کرپشن سے پاک لوگوں کو آگے لائیں گے، اکثریت نئے چہرے اسمبلی میں ہوں گے، گلگت بلتستان کے تمام گھرانوں کو الیکشن سے پہلے پہلے تحریک انصاف ہیلتھ کارڈ فراہم کریگی، اس کا باقاعدہ فیصلہ ہو چکا ہے، بلتستان اور دیامر ریجن کے کارڈ پہنچ چکے ہیں، گلگت ریجن کے کارڈ اگلے ہفتے پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ کی ہیلتھ فیسلیٹی فری ہو جاتی ہے تو اسے کہتے ہیں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ۔ یہاں پسند ناپسند، امیر غریب کا کھیل نہیں ہوگا، نادرا کے ڈیٹا کے مطابق ہر گھر کے سربراہ کے نام کارڈ جاری ہوگا اور علاج کیلئے ساڑھے سات لاکھ تک کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگلے سال سے پورے گلگت بلتستان میں تعلیم سو فیصد مفت فراہم کی جائے گی۔

یہ عمران خان کا ویژن ہے، ان کے منشور کا حصہ ہے۔ پرائمری سے پی ایچ ڈی تک تعلیم فری ہوگی، پاکستان کے دیگر صوبوں سے ایک قدم آگے آتے ہوئے عمران خان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام گھرانوں کو صحت کارڈ فراہم کیا جائے گا۔ ایجوکیشن اور ہیلتھ تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے۔ پھر محکموں میں اصلاحات لائی جائیں گی، پی ڈبلیو ڈی میں تھرڈ پارٹی آڈٹ کا نظام لایا جائے گا۔ یہاں آڈٹ کا نظام بہت خراب ہے، اس لئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کا نظام لایا جائے گا، اس سے یہ ہوگا کہ لوگوں میں کرپشن کے حوالے سے ایک خوف کی فضاء قائم ہو گی اور وہ کرپشن کرنے سے پرہیز کرینگے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک محکمہ دوسرے محکمے کا، دوسرا تیسرے محکمے کا سرپرائز آڈٹ کرے۔ اس سے چھوٹی کرپشن کم ہو جائے گی، یہ ہمارے منشور کا حصہ ہے اور ہمارا ویژن ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان میں مزید حلقہ بندیوں کی گنجائش موجود ہیں؟ تحریک انصا ف کا کیا موقف ہے؟
فتح اللہ خان:
جی بی میں حلقہ بندیوں کی اشد ضرورت ہے، ہم مرکزی حکومت کو حلقہ بندیاں کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کرینگے، لیکن حفیظ الرحمٰن مذہبی کارڈ استعمال کر کے الیکشن میں آتے ہیں اور وہ نئی حلقہ بندیوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ گلگت بلتستان میں کچھ بڑے حلقے ہیں، مثلاً حلقہ نمبر دو بہت بڑا حلقہ ہے، اس کے مقابلے میں نگر حلقہ پانچ میں گیارہ ہزار رجسٹرڈ ووٹ ہے، تانگیر بھی گیارہ ہزار ہے یہاں تک کہ گورنر راجہ جلال کا حلقہ ہے وہاں بھی تیرہ ہزار رجسٹرڈ ووٹ ہیں، اس حوالے سے ہماری پارٹی کی اعلٰی قیادت سے گفتگو ہوئی ہے، تحریک انصاف جی بی میں حلقہ بندیاں کروانے کیلئے پوری طرح تیار ہے، مسلم لیگ نون کے وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن ذاتی مفاد کی خاطر اس راہ میں رکاوٹ ہیں، ہم ان کو رکاوٹ بننے نہیں دینگے، ہنزہ، بلتستان، گلگت اور غذر میں نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ الیکشن سے پہلے گلگت بلتستان میں آٹھ سے دس مزید حلقے بنائے جائیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں نون لیگ کی حکومت کا پانچ سالہ دور کیسا رہا؟
فتح اللہ خان:
موجودہ حکومت نے پانچ اے ڈی پیز مکمل کر لی ہیں، اس حکومت کی مدت بھی تقریبا پوری ہونے والی ہے، ان پانچ سالوں میں حفیظ الرحمٰن نے کرپشن، اقرپاء پروری اور اپنوں کو نوازنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، جب بھی نئی اسامیاں آئیں تو این ٹی ایس اور سی ٹی ایس پی کا بہانہ بنا کر اپنوں کو نوازا گیا، دور دراز علاقوں اور دیہاتوں کو دیوار سے لگایا گیا، صرف اس بندے کو نوازنے کی کوشش کی گئی جہاں سے ان کو ذاتی مفاد ملتا ہو یا کک بیک کے نام پر کمیشن ملتا ہو، اس کی چھوٹی سی مثال میں اپنے حلقہ نمبر 2 جس کے حفیظ الرحمٰن وزیراعلٰی ہیں کی یہ پیش کر سکتا ہوں کہ، تین چار سڑکیں جگلوٹ اور چکرکوٹ میں بنائی گئی ہیں اور وہ چاروں ٹھیکیدار حفیظ الرحمٰن کے گھر کے ہیں، یہاں تک کہ وزیراعلٰی کا سسر بھی ٹھیکیدار ہے، یہ اٹھارہ سے بیس کروڑ روپے کا ٹھیکہ ہے، شروع میں یہ کام مرمت کا ایک چھوٹا سا منصوبہ تھا بعد میں اپنوں کو نوازنے کیلئے کروڑوں میں پہنچا دیا گیا۔

ٹینڈر کے بغیر وزیراعلٰی کے رشتہ دار ٹھیکہ داروں کو کام ملتا رہا، جہاں مرمت کا کام تھا اس کو پورا منصوبہ بنا دیا گیا، اچھے کلوٹ توڑے گئے، اچھی نالیوں کو اکھاڑ کر دوبارہ بنایا گیا، یہ یہاں کے بچے بچے کو پتہ ہے، اب میں تین چار سڑکوں کو تبدیلی یا ترقی کا نام نہیں دے سکتا۔ اس کی ایک وجہ ہے، آپ ایک تقابلی جائزہ لیں، میرے عوام کو ہسپتال چاہیئے، میرے حلقے میں قیام پاکستان دور کا ایک دس بیڈ کا ہسپتال ہے جو اسی حالت میں موجود ہے، 46 ہزار کی آبادی کو چار سڑکوں کے علاوہ کوئی ہسپتال یا نیا سکول نہیں دیا گیا، کے کے ایچ پر جگلوٹ کی پوری معیشت کا انحصار ہے، استور، چلاس اور گلگت کا جنکشن پوائنٹ ہے، آپ کو معلوم ہے کہ کے کے ایچ پر اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں، وہاں ابتدائی طبی امداد کی کوئی سہولت موجود نہیں، کئی دفعہ ایسا ہوا ہے۔ دوسری اہم چیز ایجوکیشن ہے، خود وزیراعلٰی کے حلقے میں گرلز مڈل سکول کو حفیظ الرحمٰن ہائی سکول نہ بنا سکے۔

وزیراعلٰی نے وہ کام کئے ہیں جس میں انہیں اور ان کے بھائی عطاء الرحمٰن کو براہ راست فائدہ ملتا ہو، وزیراعلٰی اور ان کے بھائی نے نیٹکو (سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی) کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، ٹائروں کا ٹھیکہ وزیراعلٰی کے بھائی کو دیا گیا، سپئر پارٹس کا کام حفیظ الرحمٰن کے بھائیوں کو دیا گیا، گذشتہ سال نیٹکو کے تین ٹرکوں کے ٹائر پھٹنے سے حادثے ہوئے، میں جھوٹ بولتا ہوں تو آپ جا کر فائل دیکھیں، ناقص ٹائر فراہم کرنے سے دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہ چل سکے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس حکومت نے ہر اس کام کو ترجیح دی ہے جس میں کمیشن ملتا ہو، کرپشن تو پیپلزپارٹی نے بھی کی ہے، پی پی نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر کرپشن کی لیکن حفیظ الرحمٰن نے سائینٹفک کرپشن کی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت تو کہتی ہے کہ انہوں نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے؟
فتح اللہ خان:
یہ حکومت ترقیاتی کام کا دعویٰ کرتی ہے اور اکثر شاہراہ بلتستان کی مثال دی جاتی ہے، لیکن یہ منصوبہ مشرف دور کا تھا اور دوسری اہم بات یہ ایک اسٹریٹجک منصوبہ تھا، جس کو پاک فوج نے بنانا ہی تھا، اب کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو یہ کہے کہ گلگت سکردو روڈ کو مسلم لیگ نون نے بنایا، چار سڑکیں بنا کر ترقی کا دعویٰ کرنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے تعلیم اور صحت کے میدان میں کیا تیر مارا، وزیراعلیٰ نے اپنے بھائی کے نام پر ایک ہسپتال اپنے محلے میں بنایا، پھر چلڈرن ہسپتال بھی بنایا وہ بھی اپنے محلے میں، تو کیا گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں انسان نہیں بستے؟ وہاں ہسپتال کیوں نہیں بنایا، آج ہمارے اور وزیر اعلٰی کے حلقے میں دس بیڈ کا ایک قدیم ہسپتال ہے جہاں ایک لیڈی ڈاکٹر تک موجود نہیں، کوئی ڈینٹل ڈاکٹر نہیں، اگر ان کو ہمارے علاقے کے ساتھ کوئی ہمدردی ہوتی تو ہیومن ریسورس کی طرف توجہ دیتے۔ حفیظ الرحمٰن کے سسر کے مرمت کے نام پر ایک چھوٹا سا منصوبہ لینے کے بعد سے پندرہ کروڑ کا کام ابھی تک چل رہا ہے، یہ میں حلفاً کہنے کیلئے تیار ہوں، پی ڈبلیو ڈی سے جا کر ریکاڑد چیک کرسکتے ہیں، یہی سائینٹفک کرپشن ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں تحریک انصاف میں اختلافات کی خبریں بھی ہیں، حقیقت کیا ہے؟
فتح اللہ خان:
گلگت بلتستان میں تحریک انصاف سید جعفر شاہ کی قیادت میں متحد ہے، انشاء اللہ ہم آنے والے الیکشن میں مرکز میں عمران خان کی نیک نیتی کے فیصلوں کے مطابق آگے بڑھیں گے۔ دیکھیں قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو سخت فیصلے کرتی ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان وفاق میں سخت فیصلے لے رہے ہیں، مثال کے طور پر ٹیکس کے نظام کو دیکھ لیجئے، ڈھائی سے تین لاکھ نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو گئے، ایلیٹ کلاس سے ٹیکس لینا بہت مشکل کام ہوتا ہے، اس امید کے ساتھ ہم گلگت بلتستان میں آنے والے الیکشن میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو شکست فاش دینگے اور انتخابات میں ہمیں عمران خان کے نام پر ووٹ ملے گا۔

اسلام ٹائمز: عوامی ایکشن کمیٹی سرکاری ملازمتوں میں پاور شیئرنگ فارمولے کیخلاف احتجاج کرنے جا رہی ہے، آپ اس احتجاج کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
فتح اللہ خان:
ہم اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، مقامی ملکیتی اداروں میں مقامی لوگوں کو ہی بھرتی ہونا چاہیے، ابھی کونسل میں 80 فیصد تک غیر مقای ہیں، ہم اس کیخلاف ہیں،کونسل میں سکیل ایک سے جوائنٹ سیکرٹری تک مقامی لوگوں کو ہونا چاہیے، کیونکہ ہمارے مقامی لوگوں میں کافی صلاحیتیں موجود ہیں، ان کو موقع ملنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 822726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش