0
Thursday 26 Dec 2019 09:29
این آر سی فقط مسلم مخالف نہیں بلکہ غریب مخالف، دلت مخالف اور خواتین مخالف بھی ہے

شہریت ترمیمی قانون کیخلاف احتجاجی مظاہرے ایک عوامی تحریک بن گئی ہے، دیونیدر سنگھ رانا

شہریت ترمیمی قانون کیخلاف احتجاجی مظاہرے ایک عوامی تحریک بن گئی ہے، دیونیدر سنگھ رانا
دیونیدر سنگھ رانا کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے جموں خطے سے ہے، دیونیدر سنگھ رانا مقبوضہ کشمیر کے متعدد بار اسمبلی ممبر رہ چکے ہیں۔ تقریباً بارہ سال سے جموں  و کشمیر نیشنل کانفرنس سے وابستہ ہیں۔ فی الحال جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے صوبہ جموں کے صدر بھی ہیں۔ جموں کی ہندو اکثریت کو ہندو انتہاء پسند جماعت بی جے پی کے منصوبوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہند و پاک مذاکرات کی ہمیشہ زوردار وکالت کی ہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے دیونیدر سنگھ رانا سے این آر سی اور سی اے اے کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا آپ شہریت ترمیمی بل (این آر سی) کو صرف مسلم مخالف مانتے ہیں۔؟
دیونیدر سنگھ رانا:
ہندوستان میں میرے جیسے تمام ہندو ہیں، جن کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے ضروری کاغذات نہیں ہیں، لیکن پھر بھی این آر سی کے بارے میں جو سیاسی مشورہ چل رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایک ہندو ہونے کے ناطے میں بہت پریشان نہیں ہوں، لیکن مسلم طبقہ کے لوگ بہت پریشان ہیں۔ این آر سی کے بارے میں یہی سیاسی پیغام دیا گیا ہے کہ اگر آپ مسلم چھوڑ کر کسی بھی مذہب کے ہوں تو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ مسئلہ شہریت ترمیمی بل سے ختم ہو جائے گا۔ اگر کوئی ہندو اپنی شہریت نہیں بھی ثابت کر پائے تو اسے پناہ گزین مان لیا جائے گا اور پھر اسے شہریت دے دی جائے گی۔ یہ ضرور ہے کہ حکومت کھل کر یہ نہیں کہہ رہی ہے، لیکن پیغام یہی دیا جا رہا ہے کہ ہندوؤں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب غیر قانونی مہاجر بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، پناہ گزین اور درانداز۔ یہاں آنے والے سبھی غیر مسلم پناہ گزین ہیں تو مسلم درانداز۔ اس ضمن میں بالکل سیدھا سوال کیا جاتا ہے۔ کیا ہمیں دراندازوں کو باہر کرنا چاہیئے۔ ہر آدمی اس کا جواب ہاں میں دے گا۔ سارے مسئلہ کا جڑ یہی ہے۔ یہ سب سیاسی سوال ہیں، جو بڑے اور بنیادی مسائل کا خاتمہ آسان کر دیتے ہیں۔

میں لوگوں کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ بڑے مسائل کو آسان سوال میں بدل دینا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ آسان سوال کا بغیر سوچے سمجھے جواب دے دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایک تباہ کن حل تھما دیا جاتا ہے۔ یہی حال این آر سی کا ہے۔ میں لوگوں سے یہ پوچھنے کو کہتا ہوں کہ غیر قانونی مہاجر کون ہیں اور ان کی پہچان کیسے ہوگی۔ اگر ہم یہ سوال نہیں کریں گے تو ہمیں بڑے نوٹوں کی منسوخی کی طرح ہی ایک نہایت ہی بکواس اور تباہ کن حل تھما دیا جائے گا۔ جب ہم یہ سوال کریں گے تو ہمیں احساس ہوگا کہ حکومت غیر قانونی مہاجروں کی پہچان کاغذات کی بنیاد پر کرے گی۔ اس کا مطلب ہوا کہ جن کے پاس ضروری کاغذات نہیں ہوں گے، وہ غیر قانونی مہاجر ہوں گے۔ اب اگر اس مرحلہ میں کوئی آپ سے پہلا سوال پوچھے تو ظاہر ہے کہ آپ کا جواب
نہیں ہوگا کیونکہ تب آپ کو پتہ ہوگا کہ ایسے تمام لوگ ہیں، جن کے پاس اس طرح کے کاغذات نہیں ہیں۔ یعنی این آر سی کے بارے میں سیاسی طور پر کچھ بھی کہا جائے، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ فقط مسلم مخالف نہیں بلکہ غریب مخالف، دلت مخالف اور خواتین مخالف بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: این آر سی کو کیسے لاگو کیا جائیگا اور اس قدر مخالفت اور احتجاجی مظاہروں کے بعد کیا حکومت اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نہیں نکالے گی۔؟
دیونیدر سنگھ رانا:
ہم نریندر مودی اور امت شاہ کو سرکار مان لیتے ہیں۔ لیکن حقیقی معنوں میں سرکار تو وہ آخری شخص ہوتا ہے، جو آپ کے گھر دستاویزوں کی جانچ کے لئے آتا ہے۔ اور "دراندازوں" کو کھدیڑ کر بھگانے پر اتفاق ظاہر کرکے ہم سرکار کے اسی آخری شخص کو یہ طے کرنے کا اختیار دیتے ہیں کہ ہم ملک کے شہری ہیں یا نہیں  ہیں۔ آسام میں محض تین کروڑ لوگوں کی شہریت طے کرنے میں 50 ہزار ملازمین کو 6 سال لگ گئے اور ان قواعد میں 1600 کروڑ خرچ ہونے کے بعد آج ہر کوئی اسے کوڑے کے ڈبے میں ڈالنے کو بے تاب ہے تو 130 کروڑ لوگوں کی شہریت طے کرنے کے کام میں کتنا وقت اور پیسہ لگے گا، اس کا بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں لوگوں کو جو ذہنی تکلیف پہنچے گی، وہ تو الگ ہے۔ این آر سی ایسا عمل ہے، جس میں کسی کی شہریت ثابت کرنے کی اپنی ذمہ داری کو حکومت نے بڑی ہوشیاری سے لوگوں پر ہی ڈال دیا ہے۔

حکومت ایسا اس لئے کر رہی ہے، کیونکہ وہ اپنا کام نہیں کرنا چاہتی ہے۔ غیر قانونی شہریوں کی پہچان کرنا، انہیں باہری ثابت کرنا تو حکومت کا کام ہے، لیکن حکومت کام چور ہے، اس لئے وہ چاہتی ہے کہ اس کا یہ کام ہم کریں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی سرکار ایسی ہمت کر کیسے سکتی ہے۔ ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں، اتنا ہی ثبوت کافی ہے کہ ہم یہاں کے شہری ہیں، لیکن اگر سرکار کو ہماری شہریت کو لے کر کوئی شبہ ہے تو اس نے ہمارے ہی ووٹ لے کر حکومت کی کمان اپنے ہاتھ میں کیسے لے لی ہے۔ پھر تو اس کے بھی حکومت میں ہونے کو مشتبہ مانا جانا چاہیئے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ حکومت آج ہے، کل نہیں رہے گی، لیکن این آر سی کا منفی اثر آگے بھی بنا رہے گا، کیونکہ یہ کام وہ اپنے دور اقتدار میں تو پورا کرنے سے رہی۔ اگر پورے ملک میں این آر سی نافذ ہوتا ہے تو لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے اگلے بیس سے تیس
سالوں تک سرکاری دفتروں کے آگے لائن میں کھڑے رہنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: این آر سی کے حربے سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور عوام کو آگاہ کیا جاسکتا ہے۔؟
دیونیدر سنگھ رانا:
جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حکومت نے این آر سی کے ایشو پر ملک کی عوام کے سامنے آسان سوال کا ایسا جال پھینکا ہے کہ اگر پلٹ کر سوال نہیں پوچھا تو اس میں پھنس جانا طے ہے اور اس کا خمیازہ لوگوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ دراصل این آر سی کو لانے کے پیچھے یہی اہم جذبہ ہے کہ لوگوں کو ہمیشہ خوف اور عدم تحفظ کے ماحول میں رکھا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہماری شہریت پر اندیشہ رہے گا تو کیا ہم اس حکومت کے خلاف منہ کھول پائیں گے۔ کتنے ہندوستانی شہری ضلع مجسٹریٹ کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ غلط ہو رہا ہے۔ جواب یہی ہے کہ بہت کم۔ کیونکہ ایک ملک کے طور پر ہم نے اپنے شہریوں کو اتنا اختیار دیا ہی نہیں ہے۔ اتنا طے ہے کہ اگر ملک این آر سی کے راستے پر چل نکلا تو ہم ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے، جہاں سے واپس آنا مشکل ہوگا کیونکہ یہ پورا عمل نفرت کے جذبہ سے چلے گا۔ اس راہ پر چلتے چلتے ہم ایک ناکام جمہوریت ثابت ہوجائیں گے۔ مجھے بھروسہ ہے کہ ہم اس ملک کے لوگ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہمیں ایسے تخریب والے فیصلے لینے والوں سے اس ملک کو بچانا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چِنگاری شعلہ بن گئی۔؟
دیونیدر سنگھ رانا:
دیکھیئے کسی نے نہیں سوچا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اٹھنے والی احتجاج کی چنگاری شعلہ جوالہ بن جائے گی اور حکومت کی فسطائیت کے خلاف پورے ملک میں لوگ بغاوت کر دیں گے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کیا حکومت نے سوچا تھا کہ وہ جس آگ پر ہاتھ تاپنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ اس کے دامن کو بھی پکڑ لے گی اور پھر اس آگ پر قابو پانا اس کے لئے ناممکن سا ہو جائے گا۔ حکومت نے جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370  کا خاتمہ کیا اور اسے متعدد پابندیوں میں جکڑ دیا تو اس کے خلاف بھارت میں بہت زیادہ شور و ہنگامہ نہیں ہوا۔ حکومت عوام کو یہ بتانے میں کامیاب رہی کہ مذکورہ دفعہ کی وجہ سے جموں و کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مکمل الحاق نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس دفعہ کے ختم ہوتے ہی کشمیر ہندوستان کا واقعی اٹوٹ حصہ بن جائے گا۔

اندرون ملک کچھ لوگوں نے اس کی مزاحمت کی اور بیرون ملک بھی کچھ اختلافی آوازیں اٹھیں۔ لیکن حکومت کو کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اب بھی جموں و کشمیر پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے اور وہاں ایک سو چالیس سے بھی زیادہ دنوں سے انٹرنیٹ بند ہے۔ لیکن کشمیر کے باہر لوگوں کو اس سے کوئی بہت زیادہ پریشانی نہیں ہے۔ کیونکہ ملک کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ حکومت نے جو کچھ کیا تھا، وہ آئین کے دائرے میں کیا تھا۔ حکومت نے سمجھا ہوگا کہ اسی طرح شہریت ترمیمی ایکٹ پر بھی لوگ چند روزہ ہنگامہ کرکے خاموش ہوجائیں گے اور بڑے نوٹوں کی منسوخی کی مانند ایک بار پھر سب این آر سی کے موقع پر لائنوں میں کھڑے ہو جائیں گے، لیکن یہ حکومت کی زبردست بھول تھی۔ اس نے شہریت ترمیمی ایکٹ لا کر ہندوستان کو ایک ہندو اسٹیٹ بنانے کی جو کوشش کی، اس کے خلاف پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی ہے۔ لوگ لیڈروں کے بغیر سڑکوں پر آرہے ہیں اور حکومت کے اس قدم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے سب سے پہلے اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے
13 دسمبر کو تحریک کا آغاز کیا، جو 15 دسمبر کو پولیس ایکشن کے بعد انتہائی طاقتور ہوگئی۔ پولیس نے جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں داخل ہو کر وہاں پڑھ رہے طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا، اس سے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا لرز اٹھی۔ ہندوستان کیا دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی کی لائبریری میں اس سے قبل ایسا پولیس ایکشن نہیں ہوا تھا۔ لوگوں نے پولیس کی زیادتی کی داستانیں سنیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اٹھنے والی یہ آگ رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیل گئی ہے لیکن حکومت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

اس نے ٹھان لیا ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک کو ہندو مملکت بنا کر چھوڑے گی، لیکن عوام نے بھی ٹھان لیا ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ وہ سیکولرزم اور جمہویت کے لئے اپنی جانیں تک دے دیں گے اور دے بھی رہے ہیں۔ اس احتجاج کی دو خاص باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں طلبہ اور نوجوانوں کی بھرپور شمولیت ہے اور دوسری یہ کہ یہ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا احتجاج نہیں ہے۔ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ہندو بھی۔ سکھ بھی شامل ہیں اور عیسائی بھی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ معمر افراد بھی ہیں۔ ناخواندہ لوگ ہیں تو انتہائی تعلیم یافتہ شخصیات بھی ہیں۔ بڑے بڑے منصبوں پر فائز افسروں کے بچے بھی ہیں۔ گویا سماج کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں ہے، جس کی نمائندگی اس تحریک میں نہ ہوتی ہو۔ یہی ایک بات باعث اطمینان ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ یہ تحریک ناکام ہونے والی نہیں ہے۔


اسلام ٹائمز: این آر سی کے نیتجہ میں کیسے بھارت کی سوئی ہوئی عوام بیدار ہوئی اور کیا یہ جذبہ بہت جلدی ٹھںڈا ہونیوالا ہے یا نہیں۔؟
دیونیدر سنگھ رانا:
دراصل حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے نام پر جو کچھ کیا، وہ آئین کے خلاف تھا۔ اس نے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا قانون بنا کر عوام کو برافروختہ کر دیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ سوچا ہوگا کہ وہ جب تاریخ کو یہ کہہ کر مسخ کرنے کی کوشش کریں گے کہ مذہب کے نام پر ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی تو لوگ اس کو تسلیم کر لیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے نام پر پاکستان بنا تھا ہندوستان نہیں۔ ہندوستان کے معماروں نے تقسیم کے بعد اسے ایک سیکولر ملک بنایا، جہاں بلا لحاظ مسلک و مذہب و مشرب سب کو یکساں حقوق و اختیارات و مراعات حاصل ہیں، لیکن حکومت نے شہریت قانون سے مسلمانوں کو الگ کرکے ہندوستان کی صدیوں پرانی روایت کو کچلنے اور سیکولرزم اور آئین کی روح کو پائمال کرنے کی کوشش کی۔

ہندوستان کے عوام وسیع المشرب ہیں۔ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ وہ سیکولرزم میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت یہ کہہ کر کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی میں کوئی تعلق نہیں ہے، عوام کو خود گمراہ کر رہی ہے۔ عوام حکومت کی نیت سمجھ گئے ہیں اور وہ اس کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ خواہ جے پی نڈا عوام کے درمیان جا کر نام نہاد شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش کریں یا امت شاہ بذات خود عوام کے درمیان آئیں اور انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔ حکومتی ٹولے کی منشا لوگ سمجھ گئے ہیں۔ اسی لئے وہ اس احتجاج کی آگ کو سرد نہیں ہونے دینا چاہتے۔ امید یہی ہے کہ یہ آگ اس وقت تک جلتی رہے گی، جب تک حکومت اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹا لیتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 834816
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش