0
Thursday 17 Sep 2020 23:51

شیعہ علماء کونسل کے صوبائی صدر علامہ حمید حسین امامی کا خصوصی انٹرویو

شیعہ علماء کونسل کے صوبائی صدر علامہ حمید حسین امامی کا خصوصی انٹرویو
علامہ حمید حسین امامی کا تعلق کوہاٹ سے ہے۔ وہ شیعہ علماء کونسل اور اسلامی تحریک خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں، میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے گئے اور 6 سال تک علامہ عارف حسین الحسینی اور علامہ سید عابد الحسینی کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایران کے شہر قم المقدسہ کا رخ کیا اور 14 سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انہیں آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ جوادی آملی کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا۔، علامہ حمید امامی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری قم سے حاصل کی، 1996ء کے اواخر میں وطن واپس آئے اور اسلامی تحریک کیساتھ وابستہ ہوگئے۔ اسوقت ایس یو سی خیبر پختونوا کے صوبائی صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ حمید امامی کیساتھ ملک میں جاری حالیہ فرقہ وارانہ اور دہشتگردی کی لہر کے تناظر میں ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عشرہ محرم کے بعد یکدم ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بن گیا، اسکے پیچھے کن عوامل کو کارفرما دیکھتے ہیں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
 محرم الحرام 1442 پرامن رہا، حکومت پاکستان کی جانب سے کئے گئے انتظامات برائے تحفظ عزاداران و مجالس قابل تحسین ہیں لیکن جب ایک غالی و نصیری آصف رضا علوی اسلام آباد آیا یا حکومت اسے جان بوجھ کر لائی تو اس کے بعد حالات خراب ہوئے، اس کی وجہ سے شیعہ اور سنی کے درمیان کچھ دوریاں پیدا ہوگئیں اور یہ سب غلط فہمیں پیدا کرنے میں تیسری طاقت ملوث تھی۔ اس سلسلے میں علماء حقہ، قائدین، عمائدین اور دانشوروں نے بہت اچھا کردار ادا کیا، جو کہ فی الفور جلتی آگ کو بجھانے کا سبب بنا۔

اسلام ٹائمز: اس ماحول میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، بالخصوص کوہاٹ میں تین اہل تشیع کا قتل کر دیا گیا، اس علاقہ کو خاص طور پر کیوں ٹارگٹ کیا گیا۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
مملکت خدا داد پاکستان میں کچھ عناصر اور دشمنان اسلام، دشمنان اہلبیت اطھار علیہم السلام نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے ٹارگٹ کلنگ شروع کی۔ 7 ستمبر 2020ء کوہاٹ میں قیصر عباس ولد ضامن علی کو کوہاٹ کے ڈی اے میں اپنی دکان میں شہید کیا گیا، رات 11 بجے ہم کوہاٹ کے ڈی اے پہنچے، مومنین کے جذبات کو ٹھنڈا کرکے شہید کا جنازہ اس کے آبائی گاؤں ابراہیم زئی لایا گیا، جس کے بعد 11 ستمبر کو ہنگو میں سپاہ یزید کی جانب سے ریلی نکالی گئی۔ ہنگو انتظامیہ کی نگرانی میں ہمشیہ کی طرح کافر کافر کے نعرے لگائے گئے، گالم گلوچ کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

12 ستمبر کو ہم علماء، مشران قوم، عمائدین ہنگو مدرسہ العسکریہ میں جمع ہوئے، سپاہ یزید اور مقامی انتظامیہ کو کہا کہ اگر ریلی میں شریک دہشت گردوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو پھر ہم بھی 19 ستمبر پرامن احتجاج کریںگے۔ 15 ستمبر کو کوہاٹ شہر میں سپاہ یزید کے دہشت گردوں نے دن دیہاڑے دو مزید اہل تشیع سید ارتضیٰ حسن اور سید میر حسن جان کو شہید کر دیا، ہم علماء، مشران قوم ،عمائدین موقع پر کے ڈی اے کوہاٹ ہسپتال پہنچ گئے، شہیدوں کے جنازے اٹھائے اور کوہاٹ میں پشاور چوک پر پرامن احتجاج کیا گیا، اس موقع پر بھی پرامن طریقہ سے کوہاٹ کی انتظامیہ سے فوراً قاتلین کی گرفتاری اور کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

اسلام ٹائمز: معلوم ہوا کہ اس دھرنے کے دوران ایک اہلسنت مسجد پر کسی نے فائرنگ اور پتھراو بھی کیا، یہ حرکت کس کیجانب سے کی گئی۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
جی بالکل، کوہاٹ میں احتجاج کے دوران نامعلوم شرپسندوں نے دھرنا کے قریب ایک مسجد پر فائرنگ کی اور پھتراؤ بھی کیا گیا، اس موقع پر انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی، پتہ نہیں چلا کہ کس نے یہ گھٹیا کام کیا ہے، تاکہ سپاہ یزید کو دوبارہ موقع ملے کہ وہ سڑکوں پر نکلے اور کافر کافر کے نعرے لگائے۔ مسجد پر فائرنگ یا پھتراؤ کرنے کا ہم اہل تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہم اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، چونکہ ہمارا عقیدہ بھی یہ ہے کہ مساجد نہ سنی کی ہے، نہ شیعہ کی بلکہ مساجد صرف اللہ کی ہیں۔ گذشتہ روز سابق جج سید ابن علی کی رہائش گاہ پر تمام اہل تشیع علماء، مشران، کونسلر صاحبان، عمائدین قوم کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر مشترکہ قرارداد پاس کی گی کہ ہم دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ کوہاٹ اور ہنگو میں امن برقرار رکھنا اور دہشت گردوں کو لگام دینا، ریاست کی ذمہ داری ہے۔
 
 اسلام ٹائمز: وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کہا کہ کوہاٹ میں پیش آنیوالا واقعہ دہشتگردی نہیں بلکہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے، انکے اس دعوے پر آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
جی بالکل، کل وفاقی وزیر جناب شہریار آفریدی نے پارلیمینٹ میں تقریر کے دوران جھوٹ بولا اور کہا کہ کوہاٹ میں دہشت گردی نہیں ہے بلکہ ذاتی دشمنی میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ جب تک شہریار آفریدی اپنے اس بیان پر معافی نہیں مانگتے اور اپنا یہ بیان واپس نہیں لیتے، اس وقت تک وہ اہل تشیع سے کسی قسم کی توقعات نہ رکھیں۔ تمام مومنین اور قوم کا فیصلہ ہے کہ شہریار آفریدی اگر شہداء کے خاندان سے تعاون نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کی دل آزاری تو نہ کریں۔
 
اسلام ٹائمز: آپ اور آپکے علاقہ کے مشران و عوام کا اس صورتحال میں حکومت سے کیا مطالبہ ہے اور کیا 19 ستمبر کو ہنگو میں احتجاج کیا جائے گا۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
 تمام مومنین، علماء و مشران قوم کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فوراً قاتلین اور شرپسندوں کو گرفتار کیا جائے۔ ہنگو میں احتجاج کرنے کیلئے انتظامیہ کے سامنے کچھ شرط رکھی تھیں، پہلی شرط کہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے، دوسری شرط کہ ایس ایچ او شاہ دوران کا ٹرانسفر کیا جائے، تیسری شرط کہ ہمارے چار افراد پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی، اسے واپس لیا جائے، چوتھی شرط کہ شرپسندوں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت پرچہ کاٹا جائے۔ ہنگو انتظامیہ نے عملاً چاروں مطالبات منظور کر لئے ہیں۔ اس لئے ہم نے 19 ستمبر والا احتجاج ملتوی کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 886839
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش