0
Wednesday 14 Sep 2011 21:41

اسرائیل کا وجود خطرہ میں ہے، مصر تیزی سے آزاد اور خودمختار ریاست بننے جا رہا ہے، آمر کے دور میں بنائی گئی پالیسیاں تبدیل ہونگی، حاجی حنیف طیب

اسرائیل کا وجود خطرہ میں ہے، مصر تیزی سے آزاد اور خودمختار ریاست بننے جا رہا ہے، آمر کے دور میں بنائی گئی پالیسیاں تبدیل ہونگی، حاجی حنیف طیب
سنی اتحاد کونسل کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب سے اسلام ٹائمز نے ملک کی موجودہ صورتحال اور خاص کر کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ مافیا، لینڈ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور حالیہ دنوں میں سابق صوبائی وزیر ذوالفقار مرزا کی سنسنی خیز پریس کانفرنس اور الطاف حسین کی جوابی پریس کانفرنس اور مستقبل میں اس کے ملک پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ایک جامع انٹرویو کیا ہے جو قارین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز:حاجی صاحب ذولفقار مرزا صاحب کی تہلکہ مچا دینے والی پریس کانفرنس اور اس میں کیے گئے انکشافات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
حاجی حنیف طیب: مجھے تو ذوالفقار مرزا صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد خدشہ یہی لگ رہا ہے کہ کراچی کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے 3 لاکھ 80 ہزار لائسنس جاری کیے ہیں جو شادی بیاہ میں چلانے کے لیے نہیں ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ دہشت گردی میں استعمال ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید کو اس طرح سیاست میں استعمال کرنا قرآن کے تقدس کے خلاف ہے۔ ہمارا کام ہے کہ قرآن پاک کو ادب کے ساتھ پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا۔ قرآن پاک کو قسم اٹھانے کے لیے استعمال کرنا یہ ہرگز درست نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ انہوں نے یہ پریس کانفرنس عید سے فقط دو دن پہلے کی، یعنی ستائیس رمضان کے روز، جس کے بعد پورے کراچی میں رات گئے سناٹا چھایا رہا، اُس وقت کراچی ایک ہیجان سے گزررہا تھاکہ اللہ خیر کرے کہ یہ رات امن و سکون سے گزر جائے، اگر مرزا صاحب کے پاس ثبوت تھے تو وہ براہ راست صدر، آرمی چیف، وزیر اعظم اور جنرل شجاع پاشا کو فراہم کرتے، مگر اس طرح پریس کانفرنس کرنا کسی طرح درست نہیں تھا، عوام کے سامنے ان ڈاکومنٹس کو لانے سے خطرات میں اضافہ ہوا ہے، میرا خود تعلق تو بزنس کمیونٹی سے ہے۔ پریس کانفرنس کے بعد بزنس کمیٹی سمجھتی ہے کہ امن تو قائم ہوا ہے لیکن یہ دیر پا نہیں ہوگا۔ حالات بظاہر چند دنوں کے کیلئے ٹھیک ہیں لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ذوالفقار مرزا نے یہ بھی کہا کہ الطاف نے کہا ہے کہ میں پٹھانوں کو ضرور قتل کروں گا۔ بھائی اگر انہوں نے یہ کہا ہے تو پاکستان کی سلامتی سے متعلق اداروں میں جاکر بات کریں، اُسے عوام میں کیوں پیش کررہے ہیں اس سے نفرتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے حالات انتہائی نازک موڑ پر ہیں، یہ وہ شہر ہے جہاں سندھی، پٹھان، پنجاب، اردو بولنے والے اور بلوچ سمیت ہر زبان بولنے والا رہتے ہیں لہٰذا ایسی بات کرنا کہ ایک گروہ کسی خاص زبان بولنے والے کو قتل کرا رہا ہے تو یہ شہر میں حالات کشیدہ کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، اگر یہاں کے حالات خراب ہوتے ہیں تو پورا ملک اس سے اثر انداز ہوتا ہے۔ باقی الزامات ہیں، اب سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا ہے، تمام مواد سپریم کورٹ میں ہے لہٰذا جتنا موثر اور مضبوط مواد ہوگا اس کی بنیاد پر کورٹ فیصلہ کرے گی۔
اسلام ٹائمز:حاجی صاحب، الطاف حسین کی جوابی پریس کانفرنس کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں کہ ذوالفقارمرزا نے جو الزامات عائد کیے تھے قوم کو اُن کے جوابات ملے ہیں یاجوابی پریس کانفرنس فقط وقت کا ضیاں تھی؟
حاجی حنیف طیب صاحب، الطاف حسین کی پریس کانفرنس سے متعلق ایک بات عرض کروں کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کو اُمی کہا جاتا ہے، اس کا یہ مطلب نکالنا کہ وہ اَن پڑھ تھے یہ بہت بڑی زیادتی ہے اور توبہ کرنے کا مقام ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے کہ اے نبی(ص) جو کچھ آپ نہیں جانتے تھے وہ سب کچھ ہم نے آپ کو پڑھا دیا۔ الرحمن علم القرآن، رحمن وہ جس نے آپ کو قرآن پڑھایا تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ سرکار دو عالم اَن پڑھ تھے، میں یہی درخواست کروں گا کہ جو سیاسی لیڈر دینی تعلیم حاصل کیے ہوئے نہ ہوں اور انہیں انہی ایشوز پر بات کرنی ہو تو پہلے وہ علماء سے راہنمائی حاصل کرلیں تو اس میں اُن کی عافیت ہوگی۔ ایک صاحب جس نے 1946ء میں نظم لکھی تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الا الہ اللہ اور وہ تحریک پاکستان میں بڑی مشہور ہوئی تھی اور یہ نعرہ اس زمانے کا مقبول ترین نعرہ تھا جو اپنا گیا، قیام پاکستان میں علماء و مشائخ نے ساتھ دیا، قائد اعظم نے علما و مشایخ کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پاکستان میں کتاب و سنت کی حکمرانی نافذ کریں گے۔ قائد اعظم کی وہ تحریر آج بھی نوشہرہ میں موجود ہے جس نے دیکھنی ہو دیکھ سکتا ہے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے بننے کے فوراً بعد اس بات کا وہاں بھی اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہوگا، تو پھر پاکستان کو سیکولر کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، ہاں جہاں تک پاکستان کو لبیرل کہنے کا مطلب ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگ اپنی عبادت آزادانہ طریقے سے کریں، انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔
اسلام ٹائمز:حاجی صاحب، مرزا صاحب نے ملک توڑنے سے متعلق جو انکشافات کیے ہیں اور وہ خط جو ٹونی بلئیر کو لکھا گیا اُسے پیش کیا ہے اور اب تو وہ خط بی بی سی اردو نے اپنے ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ بی بی سی وہ ادارہ ہے جو غلط چیزوں کو اپنی سائٹ پر نہیں ڈالتا ،خاص کر وہ چیزیں جو بعد میں چلینج ہوجائیں تو آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سازش ہورہی ہے؟
حاجی حنیف طیب:بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ڈی اسٹیبلائزڈ کرنے سے لے کر توڑنے تک کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کے ایماں پر ایسے نقشے دنیا پر بنائے ہیں کہ 2015 یا 2020ء کے بعد پاکستان نقشے پر نہیں ہوگا لیکن اگر ہم متحد ہو جائیں، متفق ہو جائیں، الزام تراشی سے باز آجائیں تو یکجا ہو کر امریکہ کو پھر وہی صورت دیکھا سکتے ہیں کہ جو کمبوڈیا کے لوگوں نے دیکھائی تھی، اس کے لیے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ خط کا جہاں تک صحیح یا غلط ہونے کا تعلق ہے، اب وہ خط تو ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم والے تو اس کو جعلی قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ الطاف حسین کے دستخط بھی جعلی ہیں، اسی طرح خط پر جو ایڈریس ہے اس کے بارے میں پہلے یہ کہا گیا کہ ہمارے موجودہ سیکرٹریٹ سے بہت دور کوئی زمین ہے لیکن بعد میں پتا چلا کہ دس سال پہلے یہاں ان کا سیکرٹریٹ رہا تھا، اس لیے یہ فیصلہ تو سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے کہ وہ ڈاکومینٹ کس حد تک صحیح ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ جس صوبے کے ترتالیس اضلاع پانی میں ڈوبے ہوئے ہوں، لاکھوں لوگ گھروں سے باہر سڑکوں پر پڑے سو رہے ہوں، لاکھوں جانور مر گئے ہوں، کھانے پینے کو نہ ہو، وہاں کے سیاستدان، وہاں کے مینڈینٹ رکھنے والے لوگ عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کی بجائے وہ اس طرح کی الزام تراشی کی سیاست میں آگئے ہیں اور اس میں ذوالفقار مرزا اس حد تک چلے گئے ہوں کہ مجھے خاموش کرنا ہے تو مجھے گولی مار دو اور گولی مارو گے تو ایک ساتھ پچاس جنازے اور بھی دفن ہوں گے۔ اس قسم کی شدت پسندی کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: الطاف حسین صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان میں پڑھائی جانے والی ساری تاریخ جھوٹ پر مبنی ہے، آج تک جو کچھ پڑھایا گیا وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں، آپ کس حد تک اتفاق کریں گے؟
حاجی حنیف طیب: الطاف حسین نے چونسٹھ برسوں سے پاکستان کی خدمت کرنے والے بڑے بڑے پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز اور ماہر تعلیم سب کو ایک ہی ڈنڈی سے ہانکنے کی کوشش کی ہے، جبکہ پاکستان کی تاریخ اور جد وجہد پاکستان بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ بھی وہ ایشو تھا کہ جس کو انہوں نے اگر سمجھنا تھا تو وہ پاکستان میں بڑے بڑے تاریخ دانوں اور ماہرین پاکستان سٹڈیز سے بات کرتے جہاں کوئی شک تھا تو دور کرلیتے، اس طرح سے کہنا کہ سب کچھ جھوٹ پر مبنی ہے، میں ہرگز اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
اسلام ٹائمز:حاجی صاحب کافی دنوں سے محسوس کیا جارہے اور شائد آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ میڈیا میں ایک ڈیبیٹ چل رہی ہے کہ قائد کا ویژن کیا تھا اور اس بارے میں لوگوں کو کنفیوز کیا جا رہا ہے کہ کیا قائداعظم سیکولر ریاست کا قیام چاہتے تھے، کیا کہیں گے؟
حاجی حنیف طیب: یقیناً آپ کی بات درست ہے کہ ایسی فضاء پیدا کی جا رہی ہے اور میں یہ بات عرض کروں کہ یہ جو پاکستان کا دو نظریہ ہے اس کا پہلے آئین کے دیباچے میں ذکر ہے ،لیکن اب تو یہ پاکستان کے آئین کا حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنی مرتبہ جن جن لوگوں نے ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر، منسٹر، گورنر، چیف منسٹر ، صدر، وزیراعظم ، اور آرمی چیف سمیت جتنے لوگوں نے حلف اُٹھایا الطاف حسین سب کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ سب نے اسی آئین پر حلف لیا ہے، اگر الطاف حسین صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے تو ان کے پاس قومی اسمبلی میں بڑی تعداد تھی، اس وقت انہوں نے یہ بات کیوں نہ کی اور قومی اسمبلی میں کوئی بل کیوں نہ لائے، اگر میڈیکل سائنس کے بارے میں مجھ سے کوئی پوچھے تو میں معذرت کر لوں گا۔ مجھ سے اگر آپ بلڈنگ کے نقشے کے بارے میں پوچھیں گے تو میں معذرت کر لوں گا اور کہوں گا کہ آپ براہ راست اُن افراد سے رابطہ کریں جو اس فیلڈ کے ایکسپرٹ ہیں، تو الطاف حسین کو چاہیے کہ وہ جو نہیں جانتے اس کے بارے میں اس فلیڈ کے ماہرین سے رابطہ کریں نہ کہ خود اسے اجتہاد کرنا شروع کر دیں، اُن کو فتوؤں کے بارے میں بھی محتاط زبان استعمال کرنی چاہیے تھی کیونکہ جو بھی فتویٰ دیا جاتا ہے، اس میں قرآن پاک کی آیات مبارکہ کاحوالا دیا جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی زبان اور الفاظ استعمال کرنا کسی طرح بھی ددرست نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز:حاجی صاحب، آپ تو کراچی میں موجود ہیں، ساری صورتحال دیکھ بھی رہے اور بغور مشاہدہ بھی کر رہے ہیں ،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ رینجرز اور پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کیخلاف جاری آپریشن حقیقی ہورہا ہے؟
حاجی حنیف طیب:سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آپریشن شروع ہونے سے تقریباً 48 گھنٹے پہلے حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ جتنے بھتا خور ہیں، جتنے دہشت گرد ہیں وہ کراچی سے نکل جائیں آپریشن شروع ہونے والا ہے، جو کہ بہت بڑی زیادتی کی گئی، اس کا بھی سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے، جن افراد کو آپریشن کے ذریعے سامنے لایا جا رہے اُن کی نشاندہی نہیں ہو پا رہی کہ ان لوگوں کا کن جماعتوں سے تعلق ہے، اتنا ضرور ہوا ہے کہ قتل و غارت گری کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے، ہم سمجھتے ہیں اس آپریش کو بلاتفریق جاری رہنا چاہیے تاکہ شہر غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہو جائے اور لوگ امن سے رہیں اور دنیا بھر سے لوگ امن کو دیکھتے ہوئے بزنس کریں اور انوسٹمنٹ کریں تاکہ کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن جائے۔
اسلام ٹائمز: مصر میں اسرائیلی سفارتخانے پر نوجوانوں نے قبضہ کیا، پرچم جلائے گئے اور وہاں سے اسرائیلی سفیر کو مار بھگایا ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ مڈل ایسٹ میں کوئی اہم تبدیلی ہونے والی ہے؟
حاجی حنیف طیب: اسرائیل اصل میں سراسر زیادتی کر رہا ہے اور 1966ء سے لے کر اب تک بے تحاشا اس نے قتل و غارت کی ہے۔ ظلم کی بات تو ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں پیش کی جانے والی اکثر قراردادوں کو رد کیا گیا، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی جانب سے ویٹو کیا جاتا رہا۔ امریکہ مسلسل اسرائیل کو اسلحہ سے لیس کررہا ہے جبکہ فلسطینی کے پاس سوائے پتھروں کے کچھ نہیں، جبکہ دوسری جانب اگر فریڈم فلوٹیلا بھیجا جاتا ہے تو اس پر بھی حملہ کیا جاتا ہے اور پوری دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے کہ پرامن کاروان کو گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔ مصر کی گزشتہ کئی عرصے سے تبدیلی کی جانب راوں دواں تھا تاہم میڈیا پر اُن کی آواز کو دبایا گیا، آج دنیا نے دیکھا ہے کہ مصر ایک آزاد اور خودمختار ریاست بننے جارہا ہے، عوام اس بات پر زور دے رہی ہے کہ سابقہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی تمام پالیسیوں کو تبدیل کیا جائے۔ اسرائیلی سفارتخانے پر حملے نے ثابت کردیا کہ اب اسرائیل کے وجود کو خطرہ پڑ گیا ہے اب یہ ناجائز ریاست زیازہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکے گی۔ اب امریکہ اور دیگر اس کے حواریوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔
اسلام ٹائمز:حاجی صاحب گیارہ ستمبر کو سنی اتحاد کونسل نے لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا اور آج گیارہ ستمبر ہے لیکن اس حوالے سے کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا، اس کی کیا وجہ ہے؟
حاجی حنیف طیب: گزشتہ دو مہینے سے کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو اس دوران اگر ریلی نکالیں اور ٹرین مارچ کریں تو لوگ کہیں گے کہ یہاں لوگ مر رہے ہیں اور ان کو اپنی سیاست کی سوجھی ہوئی ہے، اس لیے حاجی فضل کریم صاحب اور میں نے ملکر فیصلہ کیا کہ فی الحال اس کو موخر کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 98645
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش