0
Wednesday 22 Feb 2012 13:02

دارالعلوم حقانیہ کا بےنظیر قتل سے کوئی تعلق نہیں، بدنام کرنیکی کوشش کی جارہی ہے، مولانا یوسف

دارالعلوم حقانیہ کا بےنظیر قتل سے کوئی تعلق نہیں، بدنام کرنیکی کوشش کی جارہی ہے، مولانا یوسف
اسلام ٹائمز۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ترجمان نے وزیر داخلہ رحمان ملک کے الزامات کی تردید کر دی، مولانا یوسف شاہ کہتے ہیں طلباء کا تمام ریکارڈ فراہم کر چکے ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ مدرسہ حقانیہ سے کئی افراد نے پڑھا ہے، فارغ التحصیل ہو کر جانے والوں کا دارالعلوم حقانیہ سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ انہوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں جن پانچ افراد کے نام لیے جا رہے تھے ان میں دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے مدرسہ حقانیہ سے پڑھا، ان طالبعلموں کا ریکارڈ حکومت کو فراہم کر چکے ہیں۔ ترجمان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک گرفتار افراد کو مدارس کے ساتھ نتھی کر کے مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کو بچانے کے لیے نیا ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ رحمان ملک کو الزام لگانے سے پہلے حقائق کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ 
 
دیگر ذرائع کے مطابق دارالعلوم حقانیہ کے ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں رحمن ملک کی بریفنگ میں دارالعلوم پر عائد الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی ایک مقتدر بڑی سیاسی لیڈر اور عالمی سطح کی دانشور رہنما تھیں، ان کے قتل میں دارالعلوم حقانیہ کو ملوث کرنا اصل قاتلوں کو چھپانے کی ایک بھونڈی سازش ہے، بینظیر بھٹو سے دینی مدارس کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اصل خطرہ سیاسی اور دیگر مقتدر قوتوں کو تھا۔ منگل کے روز جاری بیان میں ترجمان مولانا سید یوسف شاہ نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے دینی مدارس اور علماء کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اصل خطرہ سیاسی اور دیگر مقتدر قوتوں کو تھا۔ جن کا اقتدار بی بی کے آنے سے خطرے میں پڑ سکتا تھا یا جن کے سیاسی اور دیگر مفادات پر زد آسکتی تھی۔ 

وزیر داخلہ کی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔ ایک ہی سانس میں رحمان ملک نے واضح کہہ دیا ہے کہ فاٹا میں تیار ہوئی اور فنڈنگ بھی وہیں ہوئی۔ ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ بے نظیر بھٹو نے جن لوگوں کو زندگی میں اپنے قتل کے منصوبے میں نامزد کیا تھا انہیں کیوں اب تک شامل تفتیش نہیں کیا گیا؟ پھر ایف آئی آر بھی دو مرتبہ درج کی گئی۔ خود پیپلز پارٹی کی ایک بہت بڑی اکثریت اُن لوگوں کو شامل تفتیش کرنا چاہتی ہے، جو محترمہ کے ساتھ اُس وقت موجود تھے جن کے پُراسرار کردار اور بزدلانہ حرکات سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں اب تک کی جا رہی ہیں۔ 

 جے یو آئی (س) نے کہا ہے کہ بے نظیر قتل سے دارالعلوم حقانیہ کا کوئی تعلق نہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک اصل مجرموں سے توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں پارٹی ترجمان نے کہا کہ مولانا سمیع الحق سابق صدر مشرف، بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کو چیلنج کر چکے ہیں کہ وہ دارالعلوم حقانیہ آئیں اور ایک چاقو بھی برآمد ہو جائے تو وہ سزا کے لئے تیار ہیں۔ ترجمان نے کہا وزیر داخلہ نے جن کے نام لئے وہ بہت پہلے وہاں سے جا چکے تھے۔ ایسے طلباء کی کارروائیوں سے اداروں کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ تفصیلات ایف آئی اے کو فراہم کی جا چکی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 139906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش