0
Tuesday 24 Nov 2009 13:49

امت مسلمہ اور آل سعود کی کارستانیاں

امت مسلمہ اور آل سعود کی کارستانیاں
 مشرق وسطی کو اپنی جغرافیائی حیثیت،تیل کے عظیم ذخائر اور مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔علاقے کی اسی اہمیت بالخصوص جزیرہ نماء عرب میں مسلمانوں کے مقدس ترین شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے یہ علاقہ جہاں مسلمانوں کے لئے تقدس کی علامت ہے۔وہاں سامراجی طاقتوں کے لئے بھی ہمیشہ قابل توجہ رہا ہے۔عالمی سامراج نے وجود میں آنے اور عالمی سطح پر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی اس خطے پر اپنی لالچی نظریں گاڑھ دی تھیں،سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی سامراج نے جس انداز سے مسلمانوں کے مقدس مقامات پر قبضے کے لئے مختلف سازشیں تیار کیں،تاریخ کا ادنٰی سا طالبعلم بھی اس سے اچھی طرح آشنا ہے ۔جزيرہ نما عرب پر ایک مخصوص خاندان کو برسر اقتدار لایا گیا تا کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات پر بالواسطہ تسلط کے ساتھ ساتھ اس تقدس کی آڑ میں مسلمان ممالک کو بھی اپنے اشاروں پر نچایا جائے۔آل سعود خاندان کا حجاز کی زمین پر برسر اقتدار آنا اور ایک مملکت اور معدنی ذخائر سے مالامال علاقے کو ایک خاندان کے نام سے منسوب کرنا استعمار کی آئندہ کی منصوبہ بندی کا ایک اہم حصّہ تھا یعنی اس ملک پر ہمیشہ آل سعود کی بادشاہت قائم رہے گي اور اس مملکت میں نہ جمہوریت،نہ پاپولر ڈیموکریسی اور نہ ہی ایسا کوئی طرز حکومت رواج پائے گا،جس میں عوام کی رائے کو کوئی اہمیت حاصل ہو۔ اکیسویں صدی میں اس طرح کی مملکت کی مثال شاید ڈھونڈنا مشکل ہو،جہاں قیام میں آنے سے لے کر آج تک ایک ہی خاندان برسر اقتدار رہا ہو۔سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جو اپنے وجود میں آنے سے لے کر آج تک ایک ہی خاندان کے تسلط میں رہا،لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت،ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کا سب سے زيادہ ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک جن میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔اس ملک کی مکمل حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔ سعودی عرب جہاں نہ انسانی حقوق کا کوئی تصور ہے،اور نہ ہی کسی قسم کے جمہوری اداروں کی موجودگي۔لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجود یہ ملک دوسرے اسلامی ملکوں میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتا ہے،مشرق وسطی اور مسلمان ملکوں کی سیاست پر نظر رکھنے والے اکثر تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ ماضي میں برطانیہ اور اس وقت امریکہ جو کام بلاواسطہ مسلمان اور عرب ممالک میں انجام نہیں دے پاتا،اسکی ذمہ داری سعودی عرب کو سونپ دیتا ہے۔سرزمین حجاز پر قابض آل سعود خاندان کے مظالم کی ایک لمبی فہرست ہے۔جو اسکے وجود میں آنے سے لے کر آج تک کی تاریخ پر محیط ہے۔سعودی عرب کے حکمران جو اپنے آپ کو خادم الحرمین شریفین بھی کہتے ہیں کسطرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور کسطرح امریکی سامراج کے اہداف کو پورا کر رہے ہیں اس کی ایک مثال خلیج فارس میں امریکہ کو دعوت دینا ہے اور آج خلیج فارس اور اس کے اردگرد ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور اس میں امریکہ کا جو منفی کردار رہا ہے ان سب مسائل کی اصل جڑ علاقے میں امریکی فوجی موجودگي ہے جس کی بنیاد سعودی عرب نے فراہم کی تھی۔سعودی عرب نے نہ صرف امریکی فوج کو اس علاقے میں دعوت دیکر علاقے کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے بلکہ عراق،افغانستان،پاکستان اور حال ہی میں یمن میں اپنی بلاواسطہ مداخلت سے خطے کو ایک نئی مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔افغانستان میں طالبان کا وجود اور القاعدہ کی بالواسطہ امداد سعودی عرب اور عرب امارات کا کیا دہرا ہے آج اسلام کو عالمی سطح پر ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر بدنام کرنے والے طالبان مالی حوالے سے سعودی عرب کے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ کو جب بھی طالبان سے کوئی لین دین کرنا ہوتی ہے تو وہ سعودی عرب کو کہتا ہے۔سعودی عرب کے کہنے پر طالبان کبھی برطانیہ سے اور کبھی نیٹو سے خفیہ سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔پاکستان کے تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کی حالیہ سیاسی ابتری اور سلامتی کی بدترین صورت حال میں سعودی عرب کا بھی کردار ہے سعودی عرب سفارتی طریقے سے نہیں بلکہ اپنے انٹیلی جنس کے افسروں کے ذریعے پاکستان کی اعلی سیاسی قیادت کو اپنی مرضي پر چلانے کی کوشش کرتا ہے۔عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب اردن اور مصر نے مشترکہ طور پر جو سیاسی اور فوجی کاروائیاں انجام دی ہیں اس سے مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار بخوبی آگاہ ہیں۔عراق جہاں صدام کی خونی ڈکٹیٹر شپ کے بعد جمہوریت کا سورج طلوع ہونے لگا تو اس میں سب سے پہلی اور بڑی رکاوٹ سعودی عرب نے ڈالی ۔عراق میں لسانی،علاقائی اور بالخصوص فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینے میں سعودی عرب نے برطانوی استعمار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔مختلف انتہا پسند گروہوں حتی صدام کی بعث پارٹی کے بچے کھچے افراد کو جسطرح دہشت گردی اور بدامنی کے لئے استعمال کیا اس کی ماضي میں مثال نہیں ملتی۔اب جبکہ عراق جمہوریت کی پٹری پر چل پڑا ہے تو اسے اس راستے سے ہٹانے کے لئے طارق ہاشمی جیسے عراقی لیڈروں کو استعمال کیا جا رہا ہے تا کہ عراق کے سیاسی استحکام،پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں کی ہم آہنگی کو سبوتاژ کر کے آنے والے انتخابات کو ملتوی کیا جائے اور بالآخر جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے ۔عراق کے انتخابی قوانین کو اپنے مہرے اور عراق کے نائب صدر طارق ہاشمی کے ذریعے ویٹو کرانا ان سازشوں میں سے ایک ہے جو کھل کر سامنے آگئی ہے۔
عراق کے علاوہ یمن میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بھی سعودی ہاتھ سب سے زيادہ نمایاں ہے۔ سرزمین حجاز پر مسلط آل سعود نے عربوں کے سب سے غریب ملک یمن کو بھی نہیں چھوڑا۔پہلے اس کے علاقے پر قبضہ کیا،بعد میں وہاں اپنے فرقہ پرست ملاؤں کے ذریعے اس علاقے میں بسنے والے مسلمانوں میں سلفی مسلک کی تبلیغ کے ذریعے فرقہ واریت کے بیج بوئے ۔بات یہی پر ختم ہو جاتی تو شاید یہ راز راز ہی رہتا۔لیکن سعودی عرب نے یمنی حکومت کی مدد سے الحوثی گروپ کو بھی ختم کرنے کی ٹھانی جو سعودی عرب کے زیر قبضہ علاقوں میں مجبور و محصور مسلمانوں کے حامی تھے۔آج اپنے آپ کو کعبہ و مدینہ کا خادم کہنے والے اسی کعبے اور مدینے کو اپنا قبلہ و ملجا ماننے والوں پر فاسفورس بم برسا رہے ہیں اور صعدہ کے نہتے اور بے گناہ عورتوں اور بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں۔ایک ایسے وقت جب عالم اسلام کو ہر دور سے زيادہ اتحاد و وحدت کی ضرورت ہے سعودی عرب اور اسکے حواری امت مسلمہ میں تفرقے کی آگ بڑھکا رہے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر عراق میں جمہوریت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور یمن،افغانستان،پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک میں آل سعود کی حقیقی ماہیت سامنے آجاتی ہے تو کیا امت مسلمہ ان بدعنوان اور عیاش بادشاہوں کو یہ تقدس دینے پر تیار ہو گي جس کی آڑ لے کر یہ سعودی شہزادے عالم اسلام اور مسلمانوں کا استحصال کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 15691
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش