0
Tuesday 29 May 2012 22:04

مصر کا صدارتی انتخاب، ایک جائزہ

مصر کا صدارتی انتخاب، ایک جائزہ
اسلام ٹائمز۔ آبادی کے حساب سے عرب دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست مصر میں 25 جنوری 2011ء کے عوامی انقلاب کے نتیجے میں حسنی مبارک کی معزولی کے بعد یہ پہلے آزاد صدارتی انتخاب کا پہلا مرحلہ 24 مئی کو اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ 13 امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ پانچ امیدواروں کے مابین ہوگا۔ مصر کے 9 کروڑ شہریوں میں سے مجموعی طور پر 23 اور 24 مئی کو 5 کروڑ سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ صدارتی الیکشن کمیشن کے طے شدہ شیڈول کے مطابق ووٹوں کی گنتی کا عمل 26 مئی کو مکمل ہوا اور پہلے مرحلے کے نتائج کا باضابطہ اعلان 29 مئی آج کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی امیدوار پہلے مرحلے میں 50 فی صد سے زیادہ ووٹ نہ لے سکا تو پھر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان 16 اور 17 جون 2012ء کو دوبارہ مقابلہ ہوگا جبکہ تارکین وطن کے لیے دوسرے مرحلے کی پولنگ 3 اور 9 جون 2012ء کے درمیان ہوگی اور 21 جون 2012ء کو انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

2011ء کے پارلیمانی انتخاب میں اسلام پسندوں کی بھرپور کامیابی کے بعد صدارتی انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نظریں انتخابات پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ مصر میں کئی دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ اسلام پسندوں کو کھل کر انتخابی عمل میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں اخوان المسلمین اور سلفی جماعت النور پارٹی کو بھرپور کامیاب ہوئی۔ موجودہ صدارتی انتخاب میں بھی اصل مقابلہ اسلام پسندوں اور سیکولر عناصر کے درمیان ہے۔ اخوان المسلمین نے ابتدائی طور پر اپنے مرشد عام خیرات الشاطر کو امیدوار نامزد کیا تاہم وہ الیکشن کمیشن کی شرائط پر پورے نہ ہونے پر انتخابی عمل سے باہر ہوگئے۔ جس کے بعد اخوان المسلمون نے اپنے سیاسی شعبے ” آزادی و انصاف پارٹی “ کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی کو امیدوار نامزد کیا۔

صدارتی انتخابات میں امیدواروں کی تعداد 13 ہے لیکن ان میں پانچ امیدواروں میں مصر کی تاریخی اور قدیمی مذہبی تحریک اخوان المسلمون کے سیاسی شعبے ” آزادی و انصاف پارٹی “ کے سربراہ محمد مرسی، اخوان المسلمون کے سابق رہنما اور آزاد امیدوار عبدالمنعم ابوالفتح، عرب لیگ کے سابق سیکرٹری اور مصر کے سابق وزیر خارجہ امر موسیٰ، مصری فضائیہ کے سابق سربراہ اور حسنی مبارک کے آخری وزیر اعظم احمد شفیق اور نصیری کرما پارٹی کے بانی حمدین صباحی کے درمیان اصل مقابلہ متوقع ہے دیگر امیدواروں میں مذہبی اسکالر محمد سلیم اواہ، ممتاز جج ہشام البسطویسی، بائیں بازو کے سرگرم رہنما خالد علی اور دیگر شامل ہیں۔ مصر کے صدارتی الیکشن میں ایک تہائی خاموش ووٹرز ہیں اور وہی آخری وقت میں اہم ہوں گے۔ اخوان المسلمون کے امیدوار کے لیے عبدالمنعم ابوالفتح کی موجودگی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اخوان المسلمون کے ساتھ برسوں وابستہ رہنے کے بعد سن 2011 میں انہوں نے تنظیم سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ انہیں مصر کے سخت گیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد النور کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم اب سلفیوں کی اکثریت بھی عبدالمنعم ابوالفتح کے بجائے ڈاکٹر محمد مرسی کی حمایت کررہی ہے کیونکہ ان خاتون ترجمان نے حال ہی میں شرعی نقاب کو دقیانوسی قرار دیا تھا جس کی وجہ سے مصر کے اسلام پسند شدید ناراض ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ احمد شفیق کو در پردہ فوجی کونسل کی حمایت حاصل ہے جبکہ سیکولر جماعتیں حمدین صباحی کی حمایت کررہی ہیں۔

مصر میں سیکولر عناصر مختلف جائزوں کے ذریعے احمد شفیق اور عمرو موسیٰ کے درمیان اصل مقابلہ قرار دے رہے تھے تاہم یہ تمام جائزے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب مصر کے دنیا کے 33 ممالک میں موجود ووٹرز کی حق رائے دہی کے نتائج کا اعلان ہوا جن کے مطابق اخوان المسلمون کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو 106252، عبدالمنعم ابوالفتوح کو 77499 اور حمدین صباحی کو 44727 ووٹ ملے جبکہ عمرو موسیٰ چوتھے اور احمد شفیق پانچویں نمبر پر رہے۔ بیرون ملک کے نتائج حیران کن بھی ہیں کیونکہ خدشہ کیا جا رہا تھا کہ بیرون ملک اخوان کی زیادہ حمایت نہیں ہوگی۔ مبصرین کے مطابق اخوان المسلمون نے منظم انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی انسانی زنجیر بناکر ریکارڈ بھی قائم کیا۔ 16 مئی 2012ء کو اخوان المسلمون کے کارکنوں اور رہنماﺅں نے 760 کلو میٹر طویل انسانی زنجیر بنائی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ تنظیم متحد، منظم اور مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہے۔

اخوان المسلمون اور اس کے سیاسی شعبے ” آزادی اور انصاف پارٹی “ ( ایف جے پی ) کے کارکنان نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور ڈاکٹر محمد مرسی کے پوسٹر لیے دارالحکومت قاہرہ سے اسوان تک 760 طویل انسانی زنجیر بنائی۔ اس انسانی قطار میں شریک پیر و جوان، مرد و خواتین اور بچوں نے ڈاکٹر محمد مرسی کی تصاویر والی ٹوپیاں اور ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں اور ہاتھوں میں پوسٹر پکڑ رکھے تھے جن پر لکھا تھا: '' محمد مرسی۔۔۔ مصر کے صدر''۔ اخوان کے صدارتی امیدوار کے حق میں انسانی زنجیر بنانے کا اہتمام ان کی مہم کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مصر میں اس جماعت کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔

آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد مرسی اپنی جماعت کے عشروں پرانے مضبوط اور منظم نیٹ ورک کی بدولت کامیاب ہونگے۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح اخوان کی آزادی اور انصاف پارٹی نے گذشتہ سال نومبر میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں رائے عامہ کے جائزوں میں کی گئی پیشین گوئیوں کے برعکس برتری حاصل کی تھی، اسی طرح اب اس کے امیدوار صدارتی انتخاب میں بھی حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

تاہم بعض قوتیں اخوان المسلمون کو صدارتی انتخاب میں باہر رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر زبردستی اخوان المسلمون کو صدارتی انتخاب میں ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ ایک خون ریز جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ 13 میں سے محمد مرصی واحد امیدوار ہیں جنہوں نے اپنے انتخابی منشور میں مصر کو مکمل اسلامی ریاست بنانے کا عزم کیا ہے۔ مصر میں آنے والی یہ تبدیلی پوری دنیا کے مسلمانوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ امید ہے کہ پارلیمانی انتخاب کی طرح مصر کی عوام ایک مرتہ پھر صدارتی انتخاب میں سیکولر اور اسلام مخالف قوتوں کو شکست سے دوچار کریں گے۔ یاد رہے کہ مصر کے آئین کے مطابق تمام اختیارات کا اصل منبع قصر صدارت ہے اس لئے اخوان المسلمون کے لئے اس منزل کا حصول اپنی جدوجہد کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
خبر کا کوڈ : 166679
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش