0
Thursday 25 Oct 2012 20:51

کلیدی اداروں اور وزارتوں میں اربوں روپے کا غبن، ایک چشم کشا رپورٹ

کلیدی اداروں اور وزارتوں میں اربوں روپے کا غبن، ایک چشم کشا رپورٹ
اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ 2010-11ء کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران ملک کے کلیدی اداروں میں سینکڑوں ارب روپے کی خرد برد کی گئی۔ آڈیٹر جنرل کی اس رپورٹ میں تمام وفاقی اداروں کا آڈٹ کیا گیا ہے، یہ رپورٹ گذشتہ ماہ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جہاں سے یہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کو بھیج دی گئی ہے۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی میں اس رپورٹ میں شامل ہر ایک ادارے کے آڈٹ اور اس میں ظاہر ہونے والی مالی بے ضابطگیوں پر بحث کی جائے گی اور متعلقہ ادارے کے ذمہ داران کو طلب کرکے جرح کی جائے گی اور خرد برد کی گئی رقوم کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے گا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں یہ کارروائی رواں ماہ کے دوران شروع ہونا تھی تاہم ابھی تک یہ کارروائی تعطل کا شکار ہے۔

چند اداروں کی آڈٹ رپورٹ او ر مالی بے ضابطگی کی تفصیل:

محکمہ دفاع: آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 2010-11ء میں محکمہ دفاع کے مالی حساب میں ساڑھے 56 ارب روپے کی خرد برد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں محکمہ دفاع کے اندر غیر موثر مالیاتی کنٹرول، غفلت، خرد برد اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو اس مالی بے ضابطگی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2008-10ء کے دوران 330 ٹھیکوں میں ” پبلک پروکیورمنٹ رُول 2004ء “ کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ جب اس بارے محکمہ دفاع کے حکام سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ انہیں اس طرح کی ہدایات محکمے کی طرف سے جون 2010ء میں موصول ہوئیں۔ آڈیٹر کے نزدیک یہ تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق فوج نے 1385 گاڑیوں کی خریداری پر 3 ارب روپے خرچ کیے، یہ سودا بالکل غیر ضروری تھا کیونکہ ان میں سے کسی گاڑی کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔ تین برس سے یہ سنٹرل آرڈیننس ڈپو کراچی میں کھڑی ہیں۔ کھاریاں، سیالکوٹ اور لاہور میں رہائش گاہوں کی آرائش اور مرمت پر 5 کروڑ 27 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں، تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مرمت کا یہ کام کیا گیا یا نہیں۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے مشن کے لیے 92 ملین روپے کے تیار شدہ گھر خریدے گئے، اس سودے میں 14.6 ملین روپے جنرل سیلز ٹیکس ادا کیا گیا جو کہ سپلائر سے وصول کیے جانے تھے۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں 6 ارب کی مالی بے قاعدگی کا انکشاف ہوا۔ پی اے ایف کالج رسالپور کی طرف سے سرکاری خزانے میں کرایہ جمع نہ کروانے کی وجہ سے قومی خزانے کو 14.6 ملین کا نقصان ہوا۔ نیوی نے زیر تربیت غیر ملکی افراد کے رہائشی واجبات میں سے 50 فیصد رقم قومی خزانے میں جمع نہیں کروائی جس سے قومی خزانے کو 65516 ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس طرح مختلف چھاؤنیوں میں ملٹری لینڈ پٹے پر دینے میں مالی بے قاعدگی کا انکشاف ہوا ہے جس سے کنٹونمنٹ فنڈ کو 181 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ لاہور کینٹ میں غیر منقولہ جائیداد کے ٹیکس پر نظرثانی نہ کرنے کی وجہ سے کنٹونمنٹ کو 30 ملین کا نقصان ہوا۔ 2008ء میں راولپنڈی کینٹ میں مالی بے ضابطگیوں اور خرد برد سے 68 ملین روپے کا گھپلا ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دفاعی بجٹ کے حساب میں قواعد کا خیال نہیں رکھا گیا۔ گذشتہ دس برس کے دوران اس ضمن میں 529 ہدایات دی گئی تھیں تاہم ان میں سے 65 فیصد پر عمل نہیں کیا گیا۔ بلٹ پروف جیکٹیں خریدنے کا ایک ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو دیا گیا تھا۔ 424 ملین روپے کے اس ٹھیکے میں ایف ڈبلیو او نے 1000 جیکٹیں فراہم نہیں کیں تاہم ایف ڈبلیو او سے 385 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی۔

واپڈا: آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق واپڈا کے حساب میں 32 ملین روپے کا غبن ہوا ہے جبکہ پانچ کیسز ایسے ہیں جن میں 222 ملین روپے کے حساب میں بے قاعدگی کا انکشاف ہوا ہے۔ 5.176 ارب روپے کے دو کیسز کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ 32 ارب روپے کے 67 کیسز میں قواعد و ضوابط کی بے قاعدگی پائی گئی ہے جبکہ چھ کیسز میں 604 ملین روپے کی مالی بے قاعدگی ظاہر ہوئی ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 33 فیصد تک کم ہو چکی ہے، 2015ء تک یہ 36 فیصد اور 2020ء تک 46 فیصد کم ہو جائے گی۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے 19 کروڑ روپے کی گاڑیاں خریدی گئیں، اس سودے میں مارکیٹ کی قیمت سے 8 کروڑ 17 لاکھ روپے زائد ادائیگی کی گئی۔ رینٹل بجلی گھروں کے 9 معاہدوں میں حکومت نے 16 ارب روپے کے قریب رقم ادا کی، کئی بجلی گھروں کو زائد ادائیگیاں کی گئیں اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے رقم وصول کی مگر معاہدے کے مطابق بجلی گھر نہیں لگائے، مثلاً نوڈیرو رینٹل پاور ہاﺅس کو زیادہ ریٹ دیے گئے جس سے قومی خزانے کو 1.5 ارب کا نقصان ہوا، اسی طرح فیصل آباد میں کرائے کے ایک بجلی گھر کو زائد ادائیگی کی گئی جس سے 80 کروڑ کا نقصان ہوا۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق بجلی فراہم کرنے والے صرف چار ادارے گیپکو، فیسکو، آئسکو، لیسکو نفعے میں ہیں جبکہ بقیہ دس کمپنیاں جن میں پیپکو، گینکو ۔ I، گینکو ۔ II، گینکو ۔ III، گینکو IV، ہیسکو، میپکو، پیسکو، کویسکو اور ٹیسکو گھاٹے میں جا رہی ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پیپکو کا ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کا خسارہ 20.9 فیصد تک ہے اور اس کمپنی نے 201 ارب روپے وصول کرنا ہیں۔ 30 جون 2010ء تک جامشورو پاور جنریشن کمپنی (گینکو ۔ I) کا خسارہ 855 ملین روپے، سنٹرل پاور جنریشن کمپنی (گینکو ۔ II) کا خسارہ 1.963 ارب روپے، ناردرن پاور جنریشن کمپنی (گینکو ۔ III) کا خسارہ 2.938 ارب روپے، لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی (گینکو ۔ IV) کا خسارہ 3.587 ارب روپے، ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کا خسارہ 23.572 ارب روپے، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کا خسارہ 60.683 ارب روپے، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کوئیسکو) کا خسارہ 35.37 ارب روپے اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو) کا خسارہ 10.28 ارب روپے تھا۔ ملک میں نفع کمانے والی پاور کمپنیوں میں فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) کا نفع 1.904 ارب روپے، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) کا نفع 4.146 ارب روپے، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئسکو) کا نفع 5.093 ارب روپے جبکہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا نفع 6.489 ارب روپے رہا۔

پاکستان ریلوے: پاکستان ریلوے کی آڈٹ رپورٹ 2010-11ء میں بھی شدید نوعیت کی مالی ہیرا پھیری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریلوے کے سکریپ کی فروخت میں 830 ملین روپے کا فراڈ کیا گیا۔ 59 ملین روپے مالیت کے سامان کی چوری کے پانچ واقعات ہوچکے ہیں۔ مختلف نوعیت کے ٹینڈرز میں ریلوے حکام کے غلط تخمینے کی وجہ سے ادارے کو 558 ملین کا نقصان ہوا۔ 15989 ایکڑ زمین کے مناسب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ریلوے 479 ملین روپے کمانے سے محروم رہا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلوے انجنوں میں استعمال شدہ یا ناقص موبائل آئل استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے انجنوں کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔ لاہور کے ڈیزل ڈپو میں 15 کروڑ 46 لاکھ کا گھپلا کیا گیا ہے۔ دیگر اداروں کے ذمہ واجب الادا رقم جو کہ 22 کروڑ 40 روپے تک ہے وصول نہیں کی گئی۔ ریلوے کے محکمہ دفاع کے ذمہ 101.841 ملین، محکمہ ڈاک کے ذمہ 39 لاکھ روپے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذمہ واجب الادا کرائے کی رقوم جو کہ 1324 ملین روپے تک ہیں، وصول نہیں کی گئیں۔

لاہور میں ریلوے کی اراضی پر قائم رائل پام کنٹری کلب سے 49.882 ملین روپے بھی وصول نہیں کیے گئے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا نظر نہیں آتا کہ ان واجب الادا رقوم کی وصولی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ ریلوے کی 5694 ملین روپے مالیت کی اراضی پر ناجائز قبضہ کرلیا گیا ہے۔ 2009ء کے دوران کم ریلوے انجنوں کی وجہ سے ادارے کو ایک ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔ ریلوے کا خسارہ 20 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے تاہم مخصوص بنگلوں کی مرمت اور آرائش پر 7.828 ملین روپے خرچ کردیے گئے۔ اس طرح ریلوے کے نظام میں بہتری کے نام پر کنسلٹنسی کی مد میں 10 ملین خرچ کردیے گئے جس کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ 2004ء سے 2008ء کے دوران چھ منصوبوں کی فزیبلٹی سٹڈیز پر 75.133 ملین روپے بطور کنسلٹنسی ادا کئے گئے تاہم ابھی ان میں سے کسی منصوبے کا PC-I بھی تیار نہیں ہوسکا۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ سالانہ آڈٹ کے نظام میں بہتری اور داخلی انتظامی کنٹرول کو بہتر کرکے ریلوے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

وزارتِ خارجہ: وزارتِ خزانہ کے حساب میں بھی خاصی بڑی بے ضابطگیاں ظاہر ہوئی ہیں۔ آڈٹ رپورٹ 2010-11ء کے مطابق وزارتِ خارجہ کے حساب میں 4 ارب 67 کروڑ روپے کی بے ضابطگی پائی گئی ہے۔ ملازمین کی بھرتی اور الاﺅنس کی مد میں کروڑوں روپے خرد برد ہوئے ہیں۔ اس طرح عمارتیں کرائے پر لینے، گاڑیاں خریدنے اور سفری اخراجات کی مد میں بھی بڑی رقوم بے جا استعمال ہوئی ہیں۔ فرینکفرٹ، جرمنی میں ایک عمارت 13 لاکھ 80 ہزار یورو میں خریدی گئی۔ انڈونیشا میں سفارت خانے کے سکول کی عمارت اور منیلا میں سفارت خانے کی عمارت فروخت کرکے بالترتیب 2,18000 ڈالر اور 18 کروڑ روپے حکومت کو ادا نہیں کیے گیے۔ بنکاک اور منیلا میں عمارتیں کرائے پر لینے کے لیے تقریباً 12 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔ وزارتِ خارجہ نے مختلف ٹھیکوں سے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی رقم وصول نہ کرکے خزانے کو 57 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔ اس طرح مختلف عمارتوں کے لیے دی گئی سکیورٹی کی رقم بھی وصول نہیں کی گئی۔

وزارتِ پٹرولیم: آڈٹ رپورٹ 2010-11ء میں 2009-10ء کے دوران وزارتِ پٹرولیم و قدرتی وسائل میں 57.16 ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف کروڈ آئل کی رائلٹی کی مد میں 5.89 ارب کا نقصان ہوا۔ ڈی جی آئل نے پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل سے رائلٹی کی رقم وصول نہیں کی جو بالترتیب 2.69 ارب اور 5.63 ارب تک تھا۔ جبکہ پاک عرب ریفائنری نے بھی 3.318 ارب روپے وزارتِ پٹرولیم کو ادا نہ کیے جو کہ لیوی کی مد میں جون 2010ء میں ادا کیے جانے تھے۔ ڈی جی آئل نے اٹک آئل ریفائنری سے سستے داموں مقامی تیل نہ خرید کر قومی خزانے کو 2.96 ارب کا نقصان پہنچایا۔ ڈی جی کی غفلت کی وجہ سے گیس کے سرچارج کی رقم بھی وصول نہ کی گئی اس سے قومی خزانے کو 2.76 ارب کا نقصان ہوا۔ اس طرح ڈی جی گیس کی غفلت سے بھی کئی رقوم وصول نہ کی جاسکیں۔ مثلاً پی پی ایل، ایم جی سی ایل اور طلوع پاکستان کمپنی سے 6.23 ارب روپے نومبر 2009ء سے جون 2010ء تک وصول کیے جانے تھے مگر نہیں کیے گئے۔ وزارتِ پٹرولیم نے گیس سرچارج کی مد میں جمع کی گئی رقم میں سے 418 ملین روپے کو ناجائز طریقے سے خرچ کیا۔

کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی: آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری میں بھی بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کے ای ایس سی کی نجکاری سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ نجکاری جن شرائط پر ہوئی تھی، بعد ازاں ان شرائط کو مدنظر نہیں رکھا گیا، مثلاً کے ای ایس سی کی انتظامیہ 1000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لیے تھرمل پاور ہاوس لگانے میں ناکام رہی حالانکہ اس نجکاری کے معاہدے کی شق XI میں اس پر عمل کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کے بعد اس ادارے کے انتظامات میں بھی قابل ذکر بہتری نہیں آئی کیونکہ خریدنے والی کمپنی کو اس طرح کے ادارے چلانے کا تجربہ نہیں تھا۔
خبر کا کوڈ : 206612
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش