0
Wednesday 24 Oct 2012 16:04

اصغر خان کیس کے فیصلے سے سیاسی ایوانوں میں ہلچل

اصغر خان کیس کے فیصلے سے سیاسی ایوانوں میں ہلچل
اسلام ٹائمز۔ سولہ سال کے طویل عرصہ کے بعد اصغر خان کیس میں سنائے گئے عدالتی فیصلے نے قومی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ عدالتی فیصلہ کے بعد روایتی حریف سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کھلی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اصغر خان کیس کے فیصلہ کے بعد ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور پاکستانی سیاست کے گرد گھومنے والے اپنی نوعیت کے اس اہم اور منفرد عدالتی فیصلے نے قومی سیاست میں درجہ حرارت بدرجہ اتم تک پہنچا دیا ہے، 90ء کے عشرے میں عام انتخابات میں آئی جے آئی کی تشکیل کے لئے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے متعلق اس کیس کے قومی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہونگے، ایئر مارشل (ر) اصغر خان کو عدالت سے سولہ سال کے بعد انصاف ملا ہے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ مقدمہ سننے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان کا شمار بزرگ، دیانتدار اور اچھی ساکھ کے حامل سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے، 92 سالہ بزرگ سیاستدان اصغر خان نے 44 سال قبل سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ کیس کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 90ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس سے حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی اخلاقی اور جمہوری فتح ہوئی ہے، عدالتی فیصلے کے تحت سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کاروائی کا حکم وفاقی حکومت کو دیا گیا ہے۔ بغیر کسی شک شبہ کے یہ عدالتی فیصلہ ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے اور یہ فیصلہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہے۔

بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس فیصلے میں سول ملٹری تعلقات میں توازن آئے گا اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سویلین جمہوری حکومتوں کو مستقبل میں فوج پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس کے تاریخ ساز فیصلہ نے دراصل ان سب کرداروں کو بے نقاب کردیا ہے جو قومی خزانہ کے کروڑوں روپے کی بندر بانٹ کے اس مکروہ دھندے کا مرکزی کردار تھے۔ دو فوجی افسران چونکہ سترہ کروڑ روپے ساستدانوں میں تقسیم کرنے کا اعتراف کرچکے ہیں اس لئے وہ عملی طور پر قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔ سابق عسکری قیادت کی رائے میں یہ دونوں جرنیل قانونی کاروائی سے نہیں بچ سکتے۔

اس عدالتی فیصلے کے آنے کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایوان وزیراعظم میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی۔ وزیر اعظم نے جہاں عدالتی فیصلے کی روح کے مطابق اس پر عملدرآمد کرانے کا اعلان کیا وہاں ان سیاستدانوں سے پائی پائی وصول کرنے کا بھی اعلان کیا جن میں یہ خطیر رقم تقسیم کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے کئی سیاستدان کا نام لئے بغیر کہا کہ پیسے وصول کرنے والے سیاستدان قوم سے معافی مانگیں۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کے آنے کے بعد اپنی تمام توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کی طرف کردیا ہے پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی نے اس عدالتی فیصلے کے تحت شریف برادران کو سیاست سے دس سال کیلئے نااہل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس میں دیئے گئے فیصلے کے تحت پیسے وصول کرنے والے سیاستدانوں سے ایف آئی اے کی تحقیقات میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ایف آئی اے سے انکوائری کرانے کا فیصلہ قبول نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے تحقیقات کے لئے غیر جانبدار اور آزاد کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے مطالبات کو پذیرائی دینے کے حق میں ہرگز نہیں۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس فیصلے کے تحت ایف آئی اے سے تحقیقات کرائی جائے۔ آئی جے آئی میں آٹھ سیاسی جماعتیں تھیں مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ سے پیسے وصول کرنے والے بعض سیاستدان اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائدین کہتے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کا نام تک نہیں لیا جاتا اور نشانہ صرف مسلم لیگ (ن) کو بنایا جا رہا ہے ایف آئی اے سے انکوائری کے فیصلے کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مسترد کرنے کے بعد کشیدگی اور سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) ایک آزاد اور غیر جانبدار عدالتی کمیشن کے قیام کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا سوچ رہی ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے آبائی علاقے گوجر خان میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرکے جارحانہ لب و لہجہ اختیار کیا اور سیاسی حریف میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا اور اصغر خان کیس کے عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر وزیراعظم نے مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہوئے جذباتی انداز میں خطاب کیا۔ پیپلز پارٹی کے قائدین وزیراعظم کے آبائی علاقے گوجر خان میں عوامی اجتماع کو کامیاب قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس سے پہلے اتنے بڑے عوامی اجتماع کی مثال نہیں ملتی، جبکہ حکومت مخالفین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

اصغر خان کیس کے اہم کردار دو اہم سابق پاکستان آرمی کے سینئر افسران کے ٹرائل کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد کوئی حتمی کاروائی کرے گی اور اس سلسلے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک اہم ملاقات وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ ہوئی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں اس عدالتی فیصلہ پر آرمی چیف کے ساتھ مشاورت کی بابت سوال پر کہا تھا کہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی، تاہم حقائق مختلف ہیں عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان اس عدالتی فیصلے کے ممکنہ تمام اثرات پر مشاہدات کا عمل جاری ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں ممکنہ طور پر ایوان صدر سے سیاسی سرگرمیوں کے خاتمے کیلئے عدالتوں سے رجوع کرنے پر غور کرسکتی ہیں، یہ بھی کہا جارہا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایجنسیوں سے پیسے وصول کرنے والے سیاستدانوں کو نااہل قرار دے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے واضح کردیا ہے کہ کمیشن کے پاس ایسے سیاستدانوں کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ عدالتی فیصلہ سے پیپلز پارٹی کو عوام میں ساکھ بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
خبر کا کوڈ : 206288
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش