0
Monday 25 Feb 2013 21:21

برطانوی استعمار کی کوہ نور ہیرے کی چوری

برطانوی استعمار کی کوہ نور ہیرے کی چوری
استعمار یعنی ترقی کے بہانے مقبوضہ ملک و علاقے کو لوٹ کر لے جانا۔ برصغیر پاک و ہند پر برطانوی استعمار کے قبضے کے بعد بوڑھا استعمار اپنے ساتھ قیمتی کوہ نور ہیرا بھی چوری کرکے لے گیا۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون حالیہ دنوں بھارت آئے تو ان سے انیسویں صدی میں قبضے میں لیا گیا کوہ نور ہیرا واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر انہوں نے صاف انکار کر دیا ہے۔ تاریخی اہمیت کا حامل یہ ہیرا اس وقت ٹاور آف لندن میں رکھا ہے۔ شاہی تاج میں جڑا یہ ہے حد خوبصورت کوہ نور، دنیا کا سب سے بڑا ہیرا ہے۔ جس کا وزن 105 قیراط۔ ہے اور 1850ء میں جب برطانیہ کا برصیغر پاک و ہند پر راج تھا، اپنے ساتھ چرا کر لے گئے تھے۔

کوہِ نور کو بھارت پر قابض برطانوی گورنر جنرل نے ملکہ وکٹوریہ کو تحفے میں دے دیا تھا۔ یعنی حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ، اب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمروں ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں۔ بھارتی عوام نے موقع غنیمت جانا، اور اپنا ہیرا واپس مانگ لیا۔ مگر کیمرون تو صاف مکر گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ ہڑپ کی ہوئی چیزیں واپس کرنے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ کوہ نور آخر آیا کہاں سے؟ کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرا آندھرا پردیش کی کان سے نکالا گیا۔ کوہ نور کے بارے میں پہلا تحریری حوالہ 1526ء میں مغل بادشاہ بابر کی خود نوشت "بابر نما" میں ملتا ہے۔ جس کے مطابق 1294ء میں یہ گوالیار کے ایک راجہ کے پاس تھا جو علاوٴالدین خلجی نے قبضے میں لے لیا۔
 
اس کے بعد یہ ہیرا تُغلق، لودھی، مغل بادشاہوں ایرانیوں اور افغان بادشاہوں سے ہوتا ہوا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ہاتھ لگا۔ مارچ 1849ء میں پنجاب برطانوی راج کے تحت آیا تو معاہدے میں کوہ نور کا معاملہ بھی درج کیا گیا۔ معاہدے میں فریق گورنر جنرل لورڈ دلہوزی نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دلپ سنگھ کے ہاتھوں یہ ہیرا ملکہ وکٹوریا کی خدمت میں پہنچایا۔ دلپ جس کی عمر تیرہ سال تھی برطانیہ گیا اور خود ملکہ کو یہ ہیرا پیش کیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے دورہ بھارت کے دوران ان سے کوہ نور ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس پر انہوں نے صاف انکار کر دیا ہے۔ تاہم یونیسکو کے ایک کنونشن کے مطابق ثقافتی اہمیت کی حامل اشیاء کی واپسی ممکن ہے۔
 
1954ء کے ہیگ کنونشن کے مطابق کسی مسلح تنازعے کے نتیجے میں لوٹے جانے والے ثقافتی ورثے کے تحفظ کا قانون موجود ہے، لیکن اقوام متحدہ بھی تو استعمار ہی کی پشتی بان ہے۔ یہ قانون دوسری جنگ عظیم میں ثقافتی اہمیت کی اشیاء کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے باعث بنایا گیا تھا۔ 1970ء میں یونیسکو نے اس قانون کو مزید بہتر بناتے ہوئے بین الحکومتی کمیٹی تشکیل دی۔ جس کا مقصد ثقافتی اہمیت کی اشیاء کی ان کے اصل ملک واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ کمیٹی 22 ملکوں پر مشتمل ہے۔ جس کا انتخاب یونیسکو کی جنرل کانفرنس نے کیا تھا۔ اس قانون کا اطلاق زیادہ تر مغربی ملکوں پر ہوتا ہے۔ جن پر دوسرے ملکوں کی ثقافتی اشیاء چرانے کا الزام ہے۔

ان ممالک میں انگلینڈ، جرمنی، فرانس اور امریکا شامل ہیں۔ جنوری 2008ء میں نیویارک کے میوزیم سے اڑھائی ہزار سال پرانا گلدان اٹلی کو واپس کیا گیا۔ نومبر 2010ء میں جاپان کی حکومت جنوبی کوریا کے ایک ہزار فن پارے واپس کرنے پر رضامند ہو گئی۔ یہ فن پارے 1910ء سے 1945ء تک جاپان کے قبضے کے دوران حاصل کیے گئے تھے، مصر میں محکمہ آثار قدیمہ کے سابق سربراہ زاہی حواص نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ اشیا واپس حاصل کی ہیں اور اب وہ برطانیہ سے اپنے تاریخی پتھر روزیٹا اسٹون اور فرانس سے ذوڈیک آف ڈینڈرا کی واپسی کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 242321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش