0
Saturday 2 Mar 2013 20:11

شام کی خانہ جنگی سے شام کی تقسیم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بان کی مون

شام کی خانہ جنگی سے شام کی تقسیم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بان کی مون
اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کے مون نے خبردار کیا ہے کہ شام میں جاری خونریز تشدد کے نتیجے میں ملک کی تقسیم کے خطرات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ باغی فوج کے سربراہ نے عالمی برادری سے شامی فوج کے ساتھ لڑائی کے لیے ہتھیار مہیا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بان کے مون نے جمعہ کو جنیوا میں ایک بیان میں کہا۔ ''شام میں بحران کا فوجی حل شام کی تقسیم کی جانب بڑھ رہا ہے۔'' انھوں نے شامی فوج اور باغی جنگجوؤں کے درمیان گذشتہ دو سال سے جاری تنازعے کے خاتمے کے لیے نئے سرے سے امن کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے کہا کہ دوسال ہونے کو ہیں۔ ہم نے تبدیلی کے خواہاں لوگوں کی امنگوں کو جبر و تشدد کا شکار ہوتے دیکھا ہے، لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہوگئی ہے، ہلاکتوں، جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور اس کے حلیف جنگ سے متاثرہ افراد کو امداد کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔ انھوں نے شام کے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انھوں نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ شامی تنازعے سے اپنی توجہ کو نہ ہٹائیں۔
درایں اثناء روس کے صدر ولادی میر پوتین نے اپنے امریکی ہم منصب باراک اوباما سے ٹیلی فون پر شام کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ کریملن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ٹیلی فون کال واشنگٹن کی جانب سے کی گئی تھی۔ اس اطلاع کے منظر عام پر آنے سے ایک روز قبل امریکہ نے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار باغی جنگجوؤں کو پہلی مرتبہ 6 کروڑ ڈالر مالیت کی خوراک، ادویہ سمیت غیر مہلک امداد مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گذشتہ روز روم میں شامی اپوزیشن اتحاد کے سربراہ معاذ الخطیب کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ باغیوں کی سپریم فوجی کونسل کو ادویہ اور خوراک مہیا کی جائے گی اور یہ براہ راست امداد ہوگی۔ 

لیکن شامی حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ انھیں کھانے پینے کی اشیاء کے بجائے صدر بشار الاسد کی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ جیش الحر کی سپریم ملٹری کونسل کے چیف آف اسٹاف جنرل سلیم ادریس نے کہا کہ باغیوں کے لیے خوراک کے امدادی پیکج سے انھیں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑائی جیتنے میں مدد نہیں ملے گی۔ انھوں نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے ساتھ ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا۔ ''ہمیں کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ہم زخمی ہو جاتے ہیں تو پھر ہم مرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں صرف اور صرف ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔'' جنرل ادریس نے کہا کہ ہمیں ٹینک شکن اور طیارہ شکن میزائل درکار ہیں، تاکہ ہم بشار الاسد کی حکومت کو شکست دے سکیں۔ پوری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے اور ہم کیا مانگ رہے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ شامی عوام کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔''

عالمی برادری ماضی میں باغی جنگجوؤں کو مہلک ہتھیار مہیا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی ہے، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ یہ ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، جو اس وقت شام کے مختلف علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وقت اگر ایک طرف امریکہ اور یورپی ممالک باغیوں کو شامی حکومت کے خلاف ہر قسم کا تعاون فراہم کر رہے ہیں دوسری طرف انہیں یہ خدشہ بھی لاحق رہا ہے کہ اس لڑائی سے شام میں جاری خانہ جنگی پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 243680
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش