0
Friday 8 Mar 2013 00:23

شہید روح بن کر ملت کے پیکر میں دوڑ جاتا ہے، علامہ سید جواد نقوی

شہید روح بن کر ملت کے پیکر میں دوڑ جاتا ہے، علامہ سید جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ ادارہ معارف اسلامی کے زیراہتمام شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کی مناسبت سے قومی مرکز شادمان لاہور میں ’’فلسفہ شہادت‘‘ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز عالم دین اور جامعہ عروۃ الوثقٰی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ ہر رتبہ کے اوپر ایک رتبہ ہے، یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں قتل ہو جائے، اور اس راہ خدا میں قتل ہونے کے اوپر کوئی رتبہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہادت دین کا تجسم ہے۔ اگر ہم دین کو مجسم حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو شہید کو دیکھ لیں۔ دین انسان کو مقام عظیم کی راہ دکھاتا ہے، جبکہ شہادت اس منزل عظیم کو پا لینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہادت دینی تربیت کا حصہ ہے جو مکتب اپنے پیروکاروں میں پیدا کرتا ہے، موت سے کچھ لوگ ڈرتے ہیں، موت سے ایسے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں جو دنیا سے دل لگا چکے ہوتے ہیں، جن کا تعلق دنیا سے گہرا ہوچکا ہوتا ہے وہ مرنا نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں خودکش بمبار ہیں، جو خود بھی مرتے ہیں اور اپنے ساتھ درجنوں لوگوں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ لوگ بھی موت سے کم ڈرتے ہیں، اسی طرح مہم جُو لوگ جو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرتے ہیں یا بلندیوں سے چھلانگیں لگاتے ہیں، وہ بھی موت سے خوفزدہ نہیں ہوتے، لیکن شہادت ایسی موت نہیں۔ شہادت مقصد کے لئے مرنا ہے، یعنی اپنی منزل کو پہچان لینا اور پھر اپنی جان اس کے لئے قربان کر دینا شہادت کہلاتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے پہلے معرفت حاصل کی، پھر اس کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ کچھ ہمارے معاشرے میں بے گناہ مر جاتے ہیں، اسلام نے انہیں بھی اعزازی شہید کا درجہ دیا ہے، اسلام میں سب سے بڑا اعزاز شہادت ہی ہے، اس لئے جب کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو اسے اعزاز دیا جاتا ہے، اسی طرح اسلام اپنے پیروکاروں کو انعام دیتا ہے اور وہ انعام شہادت کا درجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے اپنے شہداء کی قدر نہیں کی، یہاں ہمیں شہید کیا گیا پھر ہمیں تقسیم کر دیا گیا، یوں ہمارے شہداء کی شہادتوں کو رائیگاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے شہداء بھی بانٹ لئے ہیں، کہ شہید ڈاکٹر نقوی آئی ایس او والوں کے شہید ہیں اور شہید عارف حسینی دوسروں کے شہید ہیں، نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے، شہادت کے فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور شہداء نے اپنی قربانی تنظیموں کے لئے نہیں قوم کے لئے دی ہے، جو قوم ان کا ادراک نہیں کرے گی، وہ فلاح اور کامرانی سے سرفراز نہیں ہوسکتی۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ایران میں شہید بہشتی عظیم شہید اور مظلوم شہید ہیں، انہوں نے انقلاب کے بعد نظام ولایت فقیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید بہشتی کے خلاف مظاہرے ہوئے انہیں برا بھلا کہا گیا لیکن انہوں نے انقلاب کو جمہوریت سے بچا لیا۔ اس کی شہادت کے بعد لوگوں کو ان کی اہمیت کا پتہ چلا، اسی طرح پاکستان میں شہید عارف حسینی کی شہادت کے بعد لوگوں نے شہید عارف کو پہچانا، تو عزیزان شہداء کے ساتھ ساتھ ان کے مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں ملت تشیع کیوں مظلوم ہے؟ صرف اس لئے کہ ملت تشیع نے اپنے آپ کو پہچانا نہ اپنے شہداء کی قدر و قیمت کو سمجھ سکے اور آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ملت تشیع کی قتل و غارت مقامی نہیں عالمی ایجنڈا ہے، اور اسی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں ملت تشیع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملت تشیع کو برادریوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، کوئٹہ میں جو کچھ ہوا کہا گیا ہزارہ برادری کے افراد کو قتل کر دیا گیا، قوم میں یہ شعور بیدار کیا گیا کہ ہزارہ الگ ہیں اور باقی شیعہ الگ ہیں، لیکن قوم آگاہ رہے کہ یہی استعمار کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ استعمار نے ملت سے روح محمدی نکال دی تھی، لیکن امام خمینی (رہ) کے انقلاب اسلامی کے بعد یہ روح ایک بار پھر بیدار ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ استعمار نے دوبارہ منصوبہ بندی کی اور اس منصوبہ بندی کے تحت اسلام کے حقیقی اور موثر ترین ستون ملت تشیع کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ملت تشیع پاکستان کے خلاف مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ملت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے، پھر ساتھ جیسے پہلے دشمن مسلمانوں کو شیعہ سنی میں تقسیم کیا، اس کے بعد سنیوں میں گروہ بندی کی اور شیعوں کو بھی تقسیم کر دیا، اب کوئٹہ میں کوئی واقعہ ہو تو میڈیا کے ذریعے یہ بات پھیلا دی جاتی ہے کہ یہ ہزارہ برادری کے لوگ نشانہ بنے ہیں اور دوسروں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو ہزارہ والوں سے کیا، لیکن کراچی میں ہونے والے واقعہ نے دشمن کی سازش بے نقاب کر دی کہ نہیں، ان کا نشانہ ہزارہ نہیں بلکہ شیعیان پاکستان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دشمن کے منصوبے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس وقت دشمن کا ایجنڈا یہ ہے کہ برادریوں میں شیعوں کو بانٹ کر ان کا قتل عام کیا جائے، نسل کشی کی جائے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کی دوسری چال یہ ہے کہ لوگوں میں احساس لاتعلقی پیدا کرکے تفرقہ پھیلا دیا جائے، تفرقہ کے بارے میں قرآن نے اسے قتل سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اس کے بعد دشمن ہمارے اندر فکری انحرافات پھیلا رہا ہے، تاکہ ہم نظریاتی بنیادوں پر بھی تقسیم ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے اگلا قدم دشمن کا یہ ہے کہ ہماری حوصلہ شکنی کرے اور پھر خوف و ہراس پھیلایا جائے، ہمارے اوپر حملے کروا کر ہمیں ملک چھوڑنے کے لئے کہا جا رہا ہے، ہمیں کچھ ممالک آفرز کر رہے ہیں کہ ہم ہزارہ کو یا ہم شیعہ حضرات کو پناہ دینے کے لئے تیار ہیں، دشمن یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیں بزدل بنا دے اور ہم اس ملک سے نکل جائیں، اس کا راستہ صاف ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جو قتل و غارت کروا رہا ہے، وہی ہمیں پناہ دے رہا ہے، آخر کیوں؟ تو پتہ چلا کہ اس کے پیچھے اسی کی سازش کار فرما ہے، تاکہ ہم ملک چھوڑ کر چلے جائیں اور وہ اس ملک کو تباہ و برباد کر دے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کا واقعہ بوکھلاہٹ پھیلانے کے لئے رونما ہوا، اس کے پیچھے دشمن کی یہ سازش تھی کہ شیعہ بوکھلا جائیں گے اور بوکھلاہٹ میں دشمن سے ہی پناہ مانگیں گے لیکن یہ دشمن کی بھول ہے، کہ وہ ملت تشیع کو گمراہ کر لے گا، ملت کے لئے شہداء نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، ان کا مقدس لہو بہا ہے اور لہو بے مول نہیں ہوا کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں شہداء کو یاد رکھنا ہوگا اور انہیں کے افکار سے روشنی لے کر دشمن کی سازشوں کا ادراک کرکے انہیں ناکام بنانا ہوگا، اسی میں ہماری اور ہمارے ملک کی بقا ہے۔
خبر کا کوڈ : 245089
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش