0
Monday 29 Apr 2013 22:59
اسلامی اور اصلاحی تحریکوں کی ہدایت میں علماء اور دانشوروں کا اہم کردار ہے

شام میں شیعہ سنی کے درمیان نہیں اسرائيل کے حامیوں اور اسلامی مقاومت کے حامیوں کے درمیان جنگ ہے، سید علی خامنہ ای

شام میں شیعہ سنی کے درمیان نہیں اسرائيل کے حامیوں اور اسلامی مقاومت کے حامیوں کے درمیان جنگ ہے، سید علی خامنہ ای
اسلام ٹائمز۔ آج صبح سینکڑوں اسلامی دانشوروں، علماء اسلام اور ممتاز اسلامی شخصیات کی موجودگی میں علماء اور اسلامی بیداری کے اجلاس کا رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے اہم خطاب سے آغاز ہوا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اجلاس میں اپنے اہم خطاب میں شمال افریقہ اور علاقہ میں جاری اسلامی بیداری کی تحریکوں کو لاحق خطرات کی طرف اشارہ کیا اور دینی مراکز کی مرجعیت کی حفاظت کرنے، طویل المدت ہدف کی ترسیم کرنے، تلخ تجربات کے پیش نظر مغربی ممالک کے جھوٹے وعدوں سے پرہیز کرنے، قومی، مذہبی اور لسانی اختلافات پر مبنی مغربی سازشوں کے بارے میں ہوشیار رہنے، مسئلہ فلسطین کو اسلامی بیداری تحریکوں کا اصلی معیار قرار دینے اور اسے فراموش نہ کرنے کے پانچ اہم موضوعات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی اصول پر استقامت و پائیداری اور عوام کی میدان میں موجودگی دشمن کی سازشوں اور اس کے مکر و فریب کے ناکام بنانے کے دو اہم اور کلیدی عوامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں اسلامی بیداری کو ایسا حیرت انگیز واقعہ قرار دیا کہ اگر یہ سلسلہ سالم اور قائم و دائم رہے تو بہت جلد اسلامی تمدن کی تشکیل کا سبب بن جائے گا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کا نام زبان پر جاری کرنے سے رجعت پسند اور سامراجی طاقتوں کے خوف و ہراس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی بیداری اب ایک حقیقت بن گئی ہے، جس کے علائم پورے عالم اسلام میں قابل مشاہدہ ہیں اور اس کی واضح اور آشکار نشانی رائے عامہ بالخصوص جوانوں کے مختلف طبقات کا شوق و اشتیاق ہے جو اسلام کی عظمت و مجد کے خواہاں ہیں، جبکہ اس سلسلے میں سامراجی طاقتوں کا مکروہ اور ستمگر چہرہ بھی نمایاں اور آشکار ہوگیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیدار کو بہت وسیع و عریض قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالٰی کے وعدے ہمیشہ معجزانہ طور پر محقق ہوتے ہیں، جو امید بخش اور بڑے وعدوں کے محقق ہونے کی نوید اور خوشخبری دیتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید خامنہ ای نے الہی وعدوں کے محقق ہونے کے قرآنی نمونوں، اور انھیں بڑے وعدوں کے محقق اور پورا ہونے کی اللہ تعالٰی کی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی، اللہ تعالٰی کی اس حکمت عملی کا واضح اور آشکار نمونہ ہے اور جس دن اسلام کو ایران میں کامیابی نصیب ہوئی اور اسلامی انقلاب نے علاقہ میں امریکہ اور اسرائيل کے حساس، مضبوط اور مستحکم قلعہ کو فتح کیا تو اہل حکمت اور اہل بصیرت بخوبی سمجھ گئے کہ اگر صبر و تحمل اور بصیرت سے کام لیں تو دوسری فتوحات بھی مسلسل و پیہم نصیب ہوں گی اور یقینی طور پر ایسا ہی ہوا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صبر و استقامت اور اللہ تعالٰی کی وعدوں پر اعتماد اور توکل کے سائے میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اس کے درخشاں حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ گرانقدر تجربہ دیگر قوموں کے ہاتھ میں ہے، جو سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائیداری کے ساتھ قیام کئے ہوئے ہیں اور انھوں نے سامراجی طاقتوں کے ساتھ وابستہ فاسد حکومتوں کو نابود کر دیا ہے یا ان کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کے بعد اسلامی بیداری اور علاقائي تحریکوں کو لاحق خطرات و چیلینجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک اور علاقہ میں جاری اسلامی اور اصلاحی تحریکوں کی ہدایت کرنے میں اسلامی علماء اور دانشوروں کا ممتاز اور اہم کردار ہے اور انھیں اپنے اس اہم کردار پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں دینی علماء کی سنگین ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دینی علماء، اسلام پسند افراد اور اسلامی شخصیات کو اس کا دقیق طور پر محافظ بننا چاہیے اور اس کی حفاظت اور مراقبت کرنی چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غیر مطمئن افکار کی طرف رجوع کرنے اور اسی طرح دینی و مذہبی افراد کو آلودہ کرنے کے سلسلے میں امریکہ اور صہیونیوں سے وابستہ ان کے علاقائی نوکروں کی تلاش و کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیاوی زرق و برق سے مملو دسترخوان پر بیٹھنا، اہل زر و زور کے ساتھ رابطہ قائم کرنا اور ان کا نمک خوار بننا، احسان اٹھانا اور طاقت و شہوت میں ڈوبی ہوئی طاغوتی طاقتوں کے ساتھ رابطہ برقرار کرنا خطرناک عوامل ہیں، جن کی وجہ سے عوام کا اعتماد ختم ہوجائے گا اور عوام و خواص کے درمیان جدائی پیدا ہو جائے گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کو لاحق خطرات کو پہچاننے کے سلسلے میں دوسرے نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی بیداری کے لئے بلند مدت ، طویل المدت اور نہائی ہدف کی ترسیم بہت ہی اہم اورضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ نہائی ہدف در حقیقت اسلام کے درخشاں تمدن کی تشکیل پر استوار ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس آخری اور بلند مدت منصوبہ پر جلد بازی اور بدگمانی کی نگاہ ڈالنے سے پرہیز اور اسلامی تمدن کی شرائط کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ قرآنی قوانین کی بنیاد پر عوامی حکومت کی تشکیل، اجتہاد اور انسان کی روزمرہ کی ضروریات کا جواب، رجعت پسندی، تحجر اور بدعت سے پرہیز، عمومی ثروت و رفاہ کا قیام، عدل و انصاف کا نفاذ، ربوی اور سودی اقتصاد سے نجات، انسانی اخلاقیات کے فروغ، دنیا کے مظلوموں کا دفاع،، کام و تلاش و خلاقیت، تسلط پسند طاقتوں کے اقتصادی، سیاسی اور علمی محاصرے کا خاتمہ، اسلامی تمدن کے معیاروں میں شامل ہیں۔ سیاست، اخلاق اور طرز زندگی میں مغربی ممالک کی پیروی کے وحشتناک اور تلخ تجربہ پر توجہ تیسرا نکتہ تھا جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے اہم خطاب میں اسلامی بیداری کو درپیش خطرات میں شمار کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تسلط پسند طاقتوں کی سیاست اور ثقافت میں اسلامی ممالک کی ایک صدی سے زائد عرصہ سے پیروی اور اتباع کو اسلامی ممالک کی سیاسی ذلت و تحقیر، اقتصادی تباہی و بربادی، اخلاقی سقوط و انحطاط اور شرم آور علمی پسماندگی کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی عظيم تحریکوں اور اسلامی شخصیات کے اقدامات میں امریکہ اور مغربی ممالک کے کھوکھلے وعدوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ حکومتیں جو عرصہ دراز تک امریکہ اور تسلط پسند طاقتوں کے وعدوں پر دل خوش کئے ہوئے تھیں، وہ اپنے عوام کی ذرہ برابر مشکلات حل نہیں کرسکیں اور نہ ہی وہ دوسروں پر ہونے والے ظلم و ستم کا مقابلہ کرسکیں اور نہ ہی انھوں نے فلسطینیوں کے حتی ایک گھر کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چوتھے نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی، مذہبی اور لسانی اختلافات سے اسلامی بیداری کو زبردست خطرہ لاحق ہے اور دشمن ان اختلافات کو شعلہ ور کرنے کی تلاش و کوشش کر رہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید خامنہ ای نے کہا کہ مغربی اور صہیونی جاسوس اداروں کی جانب سے اور علاقائی تیل کے ڈالروں کے تعاون سے، اس وقت مشرقی ایشیا، شمال افریقہ بالخصوص عرب علاقہ میں سنجیدگی کے ساتھ یہ سازش جاری ہے اور وہ سرمایہ جو خلق خدا کی خدمت میں صرف کیا جاسکتا تھا وہ آج ستمگر طاقتوں کی جانب سے بم دھماکے کرانے، دہشت گردی پھیلانے اور مسلمانوں کا خون بہانے اور اختلافات کو شعلہ ور کرنے کے سلسلے میں خرچ کیا جا رہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بغور جائزہ لینے کے بعد اندرونی اختلافات اور واقعات کے پس پردہ دشمن کے ہاتھ کے نمایاں ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں دینی علماء، اسلامی دانشوروں اور سیاسی شخصیات کی ذمہ داری بہت ہی سنگين ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے لیبیا، مصر، تیونس، شام، پاکستان، عراق اور لبنان کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی میڈيا اور علاقہ میں مغرب سے وابستہ نوکر میڈيا شام کی خون ریز جنگ کو شیعہ و سنی جنگ قراردے رہے ہیں اور شام و لبنان میں اسلامی مقاومت کے دشمنوں اور صہیونیوں کے لئے امن کے اسباب فراہم کر رہے ہیں جبکہ شام میں ایسا نہیں ہے، شیعہ و سنیوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ یہ جنگ، اسرائيل کے حامیوں اور اسلامی مقاومت کے حامیوں کے درمیان جنگ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بحرین کے دردناک حوادث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرین کے عوام کئی برسوں سے حق رائے دہی اور اپنے بنیادی و اساسی حقوق سے محروم ہیں، وہ اپنے برحق مطالبات کو لیکر کھڑے ہوئے ہیں لیکن چونکہ بحرین کی یہ اکثریت شیعہ مظلوم مسلمانوں کی ہے اور وہاں کی جابر و ظالم اور بادشاہی حکومت بظاہر سنی ہے تو امریکی اور یورپی ذرائع‏ ابلاغ اور عرب ممالک میں ان کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ذرائع ابلاغ اس اختلاف کو شیعہ و سنی اختلاف قرار دے رہے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سوال کرتے ہوئے پوچھا، کیا مغربی میڈيا کی یہ تصویر حقیقت پر مبنی ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ یہ ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں دینی علماء اور انصاف پسند اور نصف مزاج دانشوروں کو غور و فکر کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور مذہبی، قومی اور سیاسی اختلافات کے سلسلے میں دشمن کے اہداف کو پہچاننا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو پانچواں اور آخری نکتہ بیان کرتے ہوئے اسے تمام اسلامی تحریکوں کے صحیح اور غلط ہونے کا اصلی معیار قرار دیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ جو شخص بیت المقدس کی آزادی، فلسطینی قوم اور مقبوضہ سرزمین کی آزادی کے نعرے کو قبول نہ کرے یا اسے پس پشت ڈالنے اور اسلامی مزاحمتی محاذ کی طرف پشت کرنے کی کوشش کرے وہ مجرم اور متہم ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ امت مسلمہ کو ہمیشہ اور ہر وقت ان تمام معیاروں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علماء اور اسلامی بیداری کے اجلاس میں اپنے خطاب کے آخری حصہ میں اسلامی اصولوں پر استقامت اور عوام کی میدان میں موجودگی کو دشمنوں کی سازشوں کے ناکام ہونے کے دو اہم عوامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں عوامل ہر میدان میں فتح اور کامیابی کی اصلی کلید ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان دونوں عوامل کے محقق ہونے کے لئے اللہ تعالٰی کے سچے وعدوں پر سچا ایمان، مخلصانہ تلاش و کوشش اور صداقت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو قوم اپنے رہنماؤں کی سچائی اور صداقت پر یقین رکھتی ہے وہ اپنی موجودگی اور حضور سے میدان کو رونق عطا کرتی ہے اور جہاں قوم پختہ عزم و ارادہ کے ساتھ موجود ہوگی، وہاں دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے بعد علماء اور اسلامی بیداری کے اجلاس میں شریک دینی علماء، دانشوروں اور اسلامی مفکرین کے ساتھ قریب سے گفتگو اور ملاقات کی۔
خبر کا کوڈ : 259181
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش