0
Wednesday 25 Sep 2013 08:30
شام کے مسئلے کا حل جنگ نہیں

ایٹمی مسئلے کا سادہ ترین حل ایران کے مسلمہ، فطری اور قانونی حق کو قبول کیا جانا ہے، ڈاکٹر حسن روحانی

ایٹمی مسئلے کا سادہ ترین حل ایران کے مسلمہ، فطری اور قانونی حق کو قبول کیا جانا ہے، ڈاکٹر حسن روحانی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اقوام عالم کو پائیدار امن کے قیام کے لئے باہمی اتحاد و اتفاق کی دعوت دی۔ وہ گذشتہ رات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ کے آپشن کی بجائے پوری دنیا میں پائیدار صلح کے قیام کی خاطر متحد ہونے کے آپشن پر غور و فکر کریں۔ انہوں نے کہا کہ پابندیاں انسانیت کے مسلمہ حقوق منجملہ صلح و امن، ترقی اور پیشرفت، صحت تک رسائی، تعلیم اور ان سب سے بڑھ کر زندہ رہنے جیسے حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ہر طرح کی پابندیوں کا نتیجہ اور ہر طرح کی لفظی جنگ اور مختلف الفاظ سے کھیلنے کا نتیجہ صرف اور صرف آگ کو بھڑکانا، جنگ طلبی اور انسانوں کی نابودی ہے۔ یہ آگ صرف پابندیوں کی زد میں آئے ہوئے افراد کے دامن میں نہیں لگتی بلکہ پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کی عوام کی زندگیوں اور اقتصاد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان کے مطابق اس مسئلہ کا سادہ ترین حل ایران کے اس مسلمہ، فطری اور قانونی حق کو قبول کیا جانا ہے۔ یہ ایک سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایران میں ٹیکنالوجی کی موجودہ صورتحال کی شناخت، بین الاقوامی صورتحال، حاصل جمع صفر کے کھیل کے خاتمے اور باہمی اتفاق اور امن و امان تک پہنچنے کے لئے مشترکہ اہداف اور منفعت کے حصول پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی اسلحہ اور قتل عام کے لئے ایران کی دفاعی ڈاکٹرائن میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ بات ہمارے مذہبی اور اخلاقی اعتقادات کے منافی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان تناو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ ایران باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعمیری بات چیت کا خواہاں ہے اور اس فریم ورک کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ 

ایرانی صدر نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ انہوں نے باراک اوبامہ کی تقریر کو بہت دقت سے سنا ہے کہا کہ امریکی رہنماوں کی جانب سے سیاسی عزم کے اظہار اور عسکریت پسند گروہوں کے مفادات کے حصول سے خودداری برتنے کی صورت میں اختلافات کا راہ حل ڈھونڈنے کے لئے فریم ورک بنایا جاسکتا ہے اور اس فریم ورک میں ضروری ہے کہ باہمی احترام، برابری کے موقف اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کو بنیاد بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان چند سالوں میں مسلسل ایک آواز سنائی دیتی رہی کہ جنگ کا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن آج مجھے اس غیر قانونی اور فضول بات کی بجائے کہنے دیں کہ صلح ہماری دسترس میں ہے۔

اسلامی جمہوری ایران کے صدر نے افغانستان میں فوجی مداخلت، صدام کی جانب سے ایران پر جنگ مسلط کئے جانے، کویت پر قبضے، عراق میں فوجی مداخلت، فلسطینی عوام پر ظلم و تشدد، ایران میں سیاسی اور عام افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور خطے کے ممالک یعنی عراق، افغانستان اور لبنان میں بم دھماکوں کو شدت پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ فلسطین کی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ شدت پسندی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، فلسطین کی سرزمین پر قبضہ ہے اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق شدت سے پامال کئے جا رہے ہیں اور وہ اپنے گھر، جائے پیدائش اور مادر وطن سے بھی محروم ہیں۔

انہوں نے شام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کی ابتدا سے اور اس وقت جب خطے کے اور چند بین الاقوامی بازیگروں نے شدت پسند گروہوں کو مسلح کرنے، انہیں جنگی ساز و سامان اور اطلاعات فراہم کرنے اور اس مسئلے کے فوجی حل کی کوششیں شروع کیں، تو ہم نے اس بات کی تاکید کی تھی کہ شام کے مسئلے کا راہ حل جنگ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر طرح کے کیمیاوئی ہتھیاروں کے استعمال کی پر زور مذمت کرتے ہوئے، شام کی جانب سے اینٹی کیمیاوئی ہتھیار کنونشن کے قبول کئے جانے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں اور ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ شدت پسند گروہ اور دہشتگردوں کی ان ہتھیاروں تک رسائی سے اس پورے خطے کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 305184
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش