0
Sunday 29 Sep 2013 12:11

مذاکرات کی بازگشت میں مزید 19 قیمتی انسانی جانیں ضائع

مذاکرات کی بازگشت میں مزید 19 قیمتی انسانی جانیں ضائع
رپورٹ: ایس اے زیدی

پاکستانی قوم ابھی آل سنیٹس چرچ پشاور میں ہونے والے خودکش حملوں کے غم سے نہ نکل سکی تھی کہ جمعہ جیسے مبارک روز دہشتگردوں نے سرکاری ملازمین کی ایک بس کو پشاور کے علاقہ گل بیلہ میں بم دھماکہ کے ذریعے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 2 خواتین سمیت 19 بےگناہ افراد شہید ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق سول سیکرٹریٹ کے یہ ملازمین ڈیوٹی کے بعد واپس چارسدہ جا رہے تھے کہ گل بیلہ کے مقام پر بس میں دھماکہ ہو گیا۔ اس دھماکہ کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ذرائع کے مطابق زخمیوں میں پانچ کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق بس کی چھت پر بھی لوگ سوار تھے، جو دھماکے کی شدت کے باعث کھیتوں میں جا گرے۔ دھماکے کے بعد بس میں آگ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے بعض افراد جھلس گئے۔ پولیس کے مطابق دھماکہ خیز مواد گاڑی کے پچھلے حصے میں ایک کارٹن میں رکھا گیا تھا۔ جوکہ زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ جس سے گاڑی کا پچھلا حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
 
دھماکہ سے دو روز قبل ہی چارج سنبھالنے والے آئی جی پی خیبر پختونخوا ناصر درانی نے ایل آر ایچ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔ پولیس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہر بس کی تلاشی لے۔ ٹرانسپورٹرز اپنی بسوں میں مسافروں کے سامان کی خود چیکنگ کریں تاکہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہو سکیں۔ اے آئی جی بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکے میں 12 سے 15 کلو گرام بارودی مواد استعمال ہوا۔ جسے ٹائم ڈیوائس کے ذریعے اڑایا گیا۔ دھماکہ خیز مواد میں بال بیرنگ بھی استعمال کئے گئے۔ ذرائع کی جانب سے ملنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق پشاور پولیس نے بس دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق بس ڈرائیور، کنڈیکٹر اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کینٹ کے علاقے سے سرکاری ملازمین بس میں سوار ہوئے جبکہ چارسدہ روڈ پر بس میں عام افراد بھی سوار ہوئے۔ جن میں سے بیشتر کے پاس کچھ نہ کچھ سامان تھا۔

پولیس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چارسدہ روڈ سے بس میں چڑھنے والے افراد میں مبینہ دہشت گرد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ جو پچھلی نشستوں کے نیچے بم رکھنے کے بعد اتر گئے۔ پولیس نے سیکرٹریٹ کی تمام بسوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ دھماکے کی مزید تحقیقات بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب سول سیکریٹریٹ ملازمین کی بس کے ڈرائیور اور کلینر کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا، جبکہ واقعے کا مقدمہ نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کرلیا گیا۔ ڈرائیور اور کلینر کے مطابق دھماکے سے قبل 2 افراد بس سے اترے تھے۔ جس کے بعد دھماکہ ہوا۔ علاوہ ازیں کیپٹل سٹی پولیس نے واقعہ بس کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر ایس ایچ او داود زئی کی جانب سے نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے۔ دہشت گردی کے پے در پے خوفناک واقعات سے پشاور میں خوف و ہراس کی فضاء دوبارہ پیدا ہو گئی ہے۔ جس کے باعث بازار بھی سنسان رہنے لگے ہیں اور سڑکوں پر رش بھی کم نظر آنے لگا ہے۔ اسپتالوں سے ابھی ایک دھماکے کے زخمی فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرا سانحہ رونماء ہو جاتا ہے۔ 

ایک معروف ماہر نفسیات نے بتایا کہ 8 سال قبل پشاور سمیت صوبے بھر میں تیس فیصد شہری ذہنی بیماریوں کا شکار ہوئے تھے۔ تاہم دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ کے بعد 70 فیصد افراد ذہنی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ شہری امن کو ترس رہے ہیں جبکہ نواز حکومت اور خیبر پختونخوا کی حکمران جماعتیں قاتل طالبان کیساتھ مذاکرات کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں۔ ماوں کی گودیاں اجڑ رہی ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، خواتین سہاگ کھو رہی ہیں، بوڑھے باپ جوان بیٹوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں، بہنیں بھائیوں کی میتیں دیکھ دیکھ کر تڑپتی ہیں، لیکن مذاکرات کا ڈرامہ بند نہیں ہو رہا۔ پاکستان کے عوام میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن شروع کرنے کے مطالبات روز بروز زور پکڑ رہے ہیں، جبکہ عمران خان جیسا قومی سطح کا رہنماء جب ایسے بیانات دے کہ ’’طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے‘‘۔ تو 11 مئی کے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ سے نوازنے والے خیبر پختونخوا کے عوام کو یقیناً مایوسی ہوگی۔ تایم ایسا نہ ہو کہ مایوسی کسی ردعمل میں بدل جائے۔ اب تو عوامی سطح پر ردعمل ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ 

چارسدہ میں بس دھماکے کے خلاف پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے صوبائی حکومت کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے صوبائی  حکومت کیخلاف شدید  نعرے بازی کی۔ اس موقع پر پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن پشاور ڈویژن کے صدر سنگین شاہ، شہریار خان، روح الامین اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت امن و امان پر قابو پانے  اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ عمران خان طالبان کو دفتر دینے کی بات کرتے ہیں تو سی ایم ہاوس سے  وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو ہٹا کر ان کی جگہ حکیم اللہ محسود کو بٹھا دیں۔ علاوہ ازیں سابق وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا اور دہشتگردی کیخلاف ٹھوس موقف رکھنے والے میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ حکومت مساجد، سکولوں، مارکیٹوں اور سرکاری اداروں کو سکیورٹی فراہم کرے اور اگر وزیراعلیٰ پرویز خٹک طالبان کے دفتر کھولنے کی حمایت کر رہے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ ہائوس اور تحریک انصاف کا دفتر ان کے حوالے کر دیں۔ گذشتہ روز انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری بس کو نشانہ بناکر ملازمین کو ڈرانا بزدلانہ فعل ہے۔ ہمیں اس وقت سوچنا ہے کہ حکومت کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔؟ 

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد رکنے والے نہیں ہیں، اس لئے ہمیں حالات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ دہشت گرد زیادہ تر جمعہ کے روز ہی ایسے پیغامات بھیجتے ہیں۔ دہشت گرد جس طریقے سے پیغام پہنچانا چاہ رہے تھے وہ اس طریقے میں تو ناکام ہو گئے ہیں۔ کیونکہ اکثر وہ جمعہ کے دن مساجد کو نشانہ بناتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس مرتبہ ہمارے سرکاری ملازمین کو نشانہ بنایا گیا۔ میاں افتخار کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل ہم مذاکرات کرتے رہے اس وقت تو کوئی دفتر نہیں تھا۔ مالاکنڈ میں کوئی آفس بھی قائم نہیں کیا گیا تھا۔ اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور متوازی دہشت گردوں کی حکومت کو قائم نہ کیا جائے۔ اگر ان کا مطالبہ مان لیا گیا تو کل وہ پھر اپنے جھنڈے اور علاقے کا مطالبہ کریں گے۔ لہٰذا قطر کا حوالہ نہ دیا جائے۔ یہ قطر نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ اور پاکستان کی اپنی فوج اور حکومت ہے۔ اگر یہاں پر دہشت گردوں کو دفتر مہیا کیا گیا تو وہ متوازی حکومت مہیا کرنے کے مترادف ہوگا اور یہی وہ غلط حکمت عملی ہے جس سے معصوم عوام جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہرگز یہ باور نہ کیا جائے کہ اگر مذاکرات کی بات ہوئی ہے تو اب دہشتگردی کے واقعات ختم ہو جائینگے بلکہ ان میں مزید شدت آئے گی۔ اب تک 35 سالوں میں تحریک طالبان نے دفتروں کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن اب تو تحریک انصاف نے مطالبہ کردیا ہے کہ ان کے لیے دفتر کھولے جائیں اور اگر ایسے واقعات ہوں اور دہشتگردی ڈنکے کی چوٹ پر قبول کریں تو پھر دفتر کون سنبھالے گا۔ میاں افتخار حسین کی یہ بات چیت یقیناً ملک کے مقتدر حلقوں کیلئے کسی 
توجہ دلاو نوٹس سے کم نہیں۔ سانحہ گلبیلہ پشاور نے مزید 19 بے گناہ پاکستانی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا تاہم اب پاکستانی قوم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے اسی طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا رہے گا یا پھر وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے حکمرانوں کی پالیسیوں کیخلاف سڑکوں پر نکلیں۔ امن پسند سیاسی و مذہبی قوتوں کو لب کشائی کرنا ہوگی۔ آج پاکستان کا استحکام خطرے میں ہے۔ اگر یہ وطن نہ بچا تو کچھ نہیں بچے گا۔
خبر کا کوڈ : 306325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش