0
Friday 18 Oct 2013 19:51

کراچی، سانحہ کارساز میں ملوث دہشتگرد عناصر ابتک قانون کی گرفت میں نہیں آسکے

کراچی، سانحہ کارساز میں ملوث دہشتگرد عناصر ابتک قانون کی گرفت میں نہیں آسکے
اسلام ٹائمز۔ اٹھارہ اکتوبر 2007ء کو طویل عرصے کی خودساختہ جلا وطنی کے بعد سابق وزیراعظم اور سربراہ پاکستان پیپلز پارٹی بےنظیر بھٹو پاکستان کراچی واپس پہنچیں تو ان کا پارٹی کارکنوں کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا۔ 18 اکتوبر کو رات بارہ بج کر دس منٹ پر جب بےنظیر بھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب پہنچا تو یکے بعد دیگرے ہونے والے 2 دھماکوں میں 150 سے زائد افراد جاں بحق اور 500 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس المناک سانحے میں بےنظیر بھٹو معجزانہ طور پر محفوظ رہی تھیں۔ سانحہ کارساز کو 6 سال بیت چکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت نے ایک کروڑ روپے کی لاگت سے جاں بحق ہونے والوں کی یادگار تو تعمیر کرا دی ہے مگر واقعہ کے ذمہ دار اور قاتل اب تک گرفتار نہیں ہو سکے۔
 
سانحہ کارساز کے چند ماہ بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو ذمہ داروں کی گرفتاری کی امید روشن ہوگئی تاہم ایسا نہ ہو سکا اور حکومت واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ ہر سال کی طرح امسال بھی سانحہ کارساز کی یاد میں کراچی شہر میں بڑے بڑے دیوہیکل بل بورڈز لگائے گئے ہیں اور واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے مگر جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے جب بھی پوچھا گیا کہ اقتدار میں ہونے کے باوجود واقعہ کے ذمہ داروں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا تو ان سے کوئی جواب نہیں بن پاتا۔
 
شاہراہ فیصل پر کارساز واقعہ کی جگہ کے قریب ایک کروڑ روپے سے زائد لاگت سے سانحہ کارساز کی یادگار تعمیر کی گئی ہے جس میں جاں بحق ہونے والوں کے نام اور ساتھ ہی ان کی تصاویر بھی آویزاں کی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہر سال کارساز پر 18 اکتوبر کو مرکزی تقریب منعقد کرتی ہے اور عہد بھی کیا جاتا ہے کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے گا مگر ایسا اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ سانحہ کارساز میں تقریباً دو درجن سے زائد افراد لاپتہ ہو گئے تھے جبکہ سولہ لاشیں ناقابل شناخت رہیں تھی، جن کی تدفین لاڑکانہ میں کی گئی تھی۔
 
واضح رہے کہ سانحہ کارساز کے دو مقدمات درج کئے گئے تھے۔ بہادر آباد تھانے میں مقدمہ نمبر 183 سرکار کی مدعیت میں جبکہ مقدمہ نمبر 213 بےنظیر بھٹو کی مدعیت میں درج ہوا تھا، تاہم اس بات کا اعتراف پارٹی لیڈرشپ بھی کرتی ہے کہ ان کی پارٹی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود بھی آج تک سانحہ کارساز میں ملوث دہشت گرد عناصر کا کوئی سراغ تک نہیں مل سکا ہے جبکہ دوسری جانب سانحہ کارساز میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین آج بھی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائے جانے کے منتظر ہیں۔ سانحہ کارساز جس میں سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں تھیں، آج بھی ہر ماں اپنے لخت جگر کو یاد کرکے خون کے آنسو روتی ہیں مگر مطمئن ہیں کہ ان کے بیٹے نے اپنی قائد کی خاطر جان قربان کی۔
خبر کا کوڈ : 312037
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش