0
Monday 11 Nov 2013 21:25

اسلام آباد میں حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما ہلاک، طالبان کا پاکستان پر قتل کا الزام

اسلام آباد میں حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما ہلاک، طالبان کا پاکستان پر قتل کا الزام
اسلام ٹائمز۔ نصیرالدین حقانی کو اسلام آباد کے مضافات میں سملی ڈیم روڈ پر اتوار کے روز فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نصیرالدین حقانی کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ نصیرالدین حقانی کو امریکہ کے کہنے پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے قتل کیا ہے اور ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ اطلاعات کے مطابق موٹر سائیکل سواروں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ واضح رہے کہ سملی ڈیم روڈ اسلام آباد سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بھارہ کہو کے علاقے میں ہے۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کے حوالے سے رپورٹ درج کرلی گئی ہے لیکن ہلاک ہونے والے کی کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی کیونکہ ان کو کوئی لاش نہیں ملی ہے۔ نصیرالدین حقانی کے ایک رشتہ دار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ نصیرالدین حقانی کی نماز جنازہ پیر کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے قریب ایک گاؤں میں ادا کردی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں کرفیو ہونے کے باعث بہت کم افراد نے تدفین میں شرکت کی۔ نصیر الدین حقانی، جلال الدین حقانی کے صاحبزادے تھے۔ جلال الدین حقانی افغانستان کے علاقے خوست سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے سویت یونین کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور انیس سو نوے میں خوست پر قبضہ کیا جو طالبان کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ نصیرالدین حقانی کا قتل پاکستان کے لیے بڑا نقصان ہے۔ ان کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ نیٹو افواج، امریکہ اور افغان حکومت کو ہو گا۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ کاروائی افغانستان میں گرفتار ہونے والے حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی سے حاصل کی جانے والی معلومات کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی وزارتِ خزانہ نے 22 جولائی 2010 میں نصیرالدین حقانی پر مالی پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکہ کے مطابق نصیرالدین حقانی طالبان کے گروہ حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما ہیں۔ وہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے قریبی ساتھی، فنڈ جمع کرنے والے اور نمائندۂ خصوصی تھے۔ امریکہ کے مطابق وہ سراج الدین حقانی کے بھائی ہیں اور زیادہ تر وقت حقانی نیٹ ورک کے نمائندۂ خصوصی کے طور فنڈز جمع کرتے تھے۔ نصیرالدین حقانی نے 2005 سے 2009 تک حقانی نیٹ ورک کے لیے فنڈز جمع کیے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے 2008 میں خلیجی ممالک کا دورہ کیا۔

امریکی وزارتِ خزانہ کے مطابق سنہ 2007 میں نصیرالدین حقانی نے خلیجی ممالک سے عطیات اکٹھے کیے۔ سنہ 2004 میں وہ فنڈ اکٹھے کرنے کے لیے طالبان کے ایک اور ساتھی کے ہمراہ سعودی عرب گئے۔ امریکہ کے مطابق نصیرالدین حقانی کو ڈاکٹر خان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ رواں سال اپریل میں نیٹو کی افشا ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر پناہ لینے والے طالبان رہنماؤں کے بارے میں جانتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نصیرالدین حقانی جیسے سینیئر طالبان رہنما اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کے قریب رہائش پذیر ہیں۔پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان نے اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔

دوسال قبل ستمبر 2011 میں اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے ریڈیو پاکستان کو ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی حکام اور حقانی گروپ کے درمیان روابط کے ثبوت موجود ہیں۔ کیمرون منٹر نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت اور حقانی گروپ کے رابطوں کے ثبوت موجود ہیں اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ امریکی حکام ایک عرصے سے حقانی گروپ اور پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے درمیان تعاون کے الزامات عائد کرتے رہے لیکن اس طرح واشگاف الفاظ میں پہلی مرتبہ کسی امریکی اہلکار نے الزام لگایا۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے فوری طور پر ان الزامات کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ دوسری جانب افغانستان میں حقانی گروپ کے ایک کمانڈر نے کہا کہ ان کی تنظم کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں رہی ہے اور وہ افغانستان میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سراج الدین حقانی نے ایک نامعلوم جگہ سے ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں زیادہ محفوظ ہیں۔

پاکستانی میڈیا کیمطابق ہلاک ہونے والا شخص ذبیح اللہ مجاہد کے نام سے افغان طالبان کا ترجمان بھی رہا ہے اور انکے قتل کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ امریکہ باربار یہ کہہ چکا ہے کہ اگر پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کی تو وہ خود کارروائی کریں گے۔

حقانی نیٹ ورک پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والی بڑی بڑی پرتشدد کارروائیوں کے پیچھے ہے۔ ان کارروائیوں میں 2011 میں کابل میں ہونے والا وہ حملہ بھی شامل ہے جو بیس گھنٹے تک جاری رہا۔ اس موقع پر امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی حکومت کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’ہمیں ایسے اشارے ملے ہیں کہ حملہ آوروں کا تعلق حقانی گروپ سے ہے جو دراصل طالبان سے رابطے میں ہے۔ ہم اس سلسلے میں افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر تحقیقات کررہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس طرح کے حملے ہمیں افغانستان میں ہمارے مشن سے نہیں ہٹا سکتے، ہم دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو پاک افغان سرحد پر کسی قسم کی پناہ گاہیں دستیاب نہ رہیں’۔
خبر کا کوڈ : 320003
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش