0
Saturday 27 Sep 2014 14:07

الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر اور سیاہی پر الزامات مسترد کردیئے

الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر اور سیاہی پر الزامات مسترد کردیئے
اسلام ٹائمز۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ای سی بی کے اجلاس کے بعد بریفننگ دیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل مسعود ملک نے بتایا کہ اردو بازار اور لکشمی چوک کے 34 آزاد ماہرین کی خدمات صوبائی الیکشن کمیشن کی درخواست پر پنجاب حکومت نے حاصل کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ اس لیے جائز تھا کیونکہ مختصر وقت میں بڑی تعداد میں بیلٹ پیپرز پر نمبرز پیسٹ کرنا تھے۔ انہوں نے کہا کہ 34 افراد کی خدمات پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے سپرد کی گئی تھیں اور انہوں نے کسی پرائیویٹ جگہ پر نہیں بلکہ پی سی پی کے دفاتر میں ہی کام کیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس ٹاسک کے لیے جن افراد کی خدمات حاصل کی گئی اس کا پورا ریکارڈ کمیشن کے پاس دستیاب ہے۔ مسعود ملک نے کہا کہ پی سی پی کی اپنی مشینیں اس کام کو پورا کر نہیں سکتی تھیں اس لیے کمیشن کو باہر سے کام کروانا پڑا۔ ڈی جی خضر عزیز، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر شیخ محمد نواز بھی اس موقع پر موجود تھے۔

مقناطیسی سیاہی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے مسعود ملک نے کہا کہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976 کی شق 33 کے تحت ووٹنگ کے لیے شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے اور انگوٹھے کے نشان کی تصدیق قانونی طور پر ضروری نہیں۔ بائیومیٹرک تصدیق کی قانونی حیثیت کی وضاحت پر انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر اس حوالے سے سسٹم تیار کر لیا گیا ہے۔ ای سی پی حکام نے اس بات پر اصرار کیا کہ 2013 کے انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال کی گئی تھی۔ مسعود ملک کا کہنا تھا کہ یہ تجویز نادرا نے پیش کی اور سیاہی پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ نے فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ پی سی ایس آئی آر نے چار قسم کے نمونے ارسال کیے تھے جن میں سے ایک کی منظوری نادرا نے دی۔ انہوں نے بتایا کہ ای سی پی اور پولنگ عملہ ووٹنگ سے قبل اس بات سے واقف تھا کہ اس سیاہی کی زندگی کھولے جانے کے بعد چھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ہر پولنگ بوتھ کے لیے دو انک پیڈ فراہم کیے گئے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈائریکٹر قانون شیخ محمد نواز نے بتایا کہ بائیو میٹرک ویری فیکیشن سسٹم سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ٹربیونل کی جانب سے کرائی گئی تصدیق کی بنیاد پر کسی انتخاب کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت چار سو سے زائد الیکشن پٹینشز میں سے صرف 76 زیرسماعت ہیں اور وہ بھی آخری مراحل میں ہیں۔ ڈی جی آئی ٹی خضر عزیز نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ انتخابی منیجمنٹ سسٹم عام انتخابات میں ناکام ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فارم سولہ اور سترہ ریٹرننگ افسران سے اسی سسٹم کے ذریعے موصول ہوئے اور کمیشن کے پاس ان کا کمپیوٹرائز ریکارڈ دستیاب ہے۔ جب یہ پوچھا گیا کہ یہ معلومات ای سی پی کی ویب سائٹ پر کیوں اپ لوڈ نہیں کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ قانون میں اس حوالے سے کوئی تصور موجود نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ فیکٹ شیٹ کی تیاری کے لیے کام جاری ہے، جسے پیر کو انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 411917
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش