0
Friday 3 Oct 2014 10:27
اگر پاک فوج نہ ہو تو طالبان 7 دن میں پاکستان پر قبضہ کرلیں

جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اقتدار نچلے طبقے تک منتقل کیا جانا چاہیئے، چوہدری محمد سرور

جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اقتدار نچلے طبقے تک منتقل کیا جانا چاہیئے، چوہدری محمد سرور
اسلام ٹائمز۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ فوج واحد ادارہ ہے جو سیاست سے بچا ہوا ہے۔ نجی ٹی وی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں گورنز پنجاب کا کہنا تھا کہ پاک فوج نہ ہو تو طالبان 7 روز میں ملک پر قبضہ کر لیں، سیاسی بحران میں عمران خان، طاہرالقادری اور حکومت تین فریق ہیں، اگر تینوں کو اتنے لوگوں میں سے پانچ ایسے آدمی بھی نہ ملیں جن کا فیصلہ ان کیلئے قابل قبول ہو تو یہ بدقسمتی ہے۔ عوام کی خدمت کے شوق میں یہاں پر آیا ہوں، ٹیکسی اور بسوں میں سفر کرنے والا بندہ ہوں لیکن میں پروٹوکول میں جکڑا ہوا ہوں، بغیر پروٹوکول کے بھی نہیں جاسکتا۔ میں اپنے عہدے پر مس فٹ ہوں۔ 13 سال برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہا اور 22 مرتبہ حکومت کیخلاف رائے دی لیکن یہاں پر میرا منہ بند ہے۔ حالیہ ملکی سیاسی بحران کے بارے میں سوال پر انھوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہیں، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور انشاءاللہ جلد مذاکرات کامیاب بھی ہوں گے۔ عمران خان، طاہرالقادری اور حکومت اس وقت فریق ہیں، اگر اتنے لوگوں میں سے ان کو پانچ آدمی بھی ایسے نہ ملیں جن کا فیصلہ ان کے لیے قابل قبول ہو تو پھر اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ تینوں اپنی اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، اگر ہم نے سسٹم کو بچانا ہے تو واحد راستہ مذاکرات لچک اور برداشت کرنا ہے، اگر کسی نے ثالث بننا ہے تو اس پر تینوں فریقین کو اعتماد کرنا ہوگا، ویسے اب ثالثی والی بات نہیں رہی، اب تو ’’کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘ والی بات ہے۔ 

چوہدری سرور نے کہا کہ میرا یقین جمہوریت پر ہے اور جمہوریت ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہے، جمہوریت گڈگورننس اور ذمہ داری کا نام ہے، میں نے یورپ کے کئی ملکوں میں کوئی ایک ایسی جمہوریت تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جس میں لوکل باڈی انتخابات نہ ہوں، جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اقتدار نچلے طبقے تک منتقل کیا جانا چاہیے، جب تک یہ نہیں ہوگا جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ہم ہر ایشو کو سیاسی ایشو بنا دیتے ہیں۔ ہم نے کالاباغ ڈیم کو سیاست کی نذر کر دیا، اگر وہ ڈیم بن جاتا تو ملک میں سیلاب سے بحران پیدا نہ ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ دھاندلی کے الزامات پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ جب مجھے یہ عہدہ دیا جا رہا تھا تو کئی دوست کہتے تھے کہ گورنر کا عہدہ ایک اعزازی عہدہ ہے، جس سے آپ تنگ آجائیں گے لیکن بہرحال اس عہدے کا ایک آئینی کردار ہے۔ اب سی ایم نے اپنا کردار مجھے تو نہیں دینا، میں نے ساری زندگی اپنی مرضی کی ہے، میں نے کبھی وی آئی پی موومنٹ نہیں کی۔ میں تیرہ سال برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہا ہوں اور بائیس مرتبہ حکومت کے خلاف رائے دے چکا ہوں، جب ٹونی بلیئر وزیراعظم تھا تو اس پر اتنی تنقید اپوزیشن نہیں کرتی تھی جتنی میں کرتا تھا، ٹونی بلیئر نے مجھے تین مرتبہ فون کرکے اپنی حمایت کرنے کا کہا لیکن میں نے انکار کیا، گورڈن براؤن سے میرا 30 سال پرانا تعلق ہے اس نے مجھے فون کرکے اپنی حمایت کرنے کی بات کی، لیکن میں نے اس کو بھی انکار کر دیا لیکن یہاں پر پندرہ مہینے سے میری زبان بندی ہے۔

گورنر نے کہا کہ اس جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں، سب مفتوح ہیں، میری خواہش ہے کہ ایسی انتخابی اصلاحات ہوجائیں، جس سے کوئی بھی طاقتور بندہ یا بااثر فرد الیکشن میں دھاندلی نہ کرسکے۔ جہاں کہیں بھی جاگیردار یا وڈیرے بیٹھے ہیں، وہ اپنے خلاف ووٹ ڈالنے نہیں دیتے، اس لئے ہمیں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم ماضی کو روتے ہیں، حال اور مستقبل کو خراب کرلیتے ہیں۔ اگر ہمارے الیکشن میں ہارنے والے یا جیتنے والے کو 4،4 سال کا اسٹے مل جاتا ہے تو اس میں حکومت کی خرابی نہیں اداروں کی خرابی ہے۔ اگر ہمارے ادارے مضبوط ہوتے تو حالات یہ نہ ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ جب فوج کو حالیہ سیاسی بحران میں تعاون کیلئے کہا گیا تو میں نے بہت سنجیدہ تحفظات کا اظہار کیا تھا، پاکستان کا واحد ادارہ فوج ہی ہے جو سیاست سے بچا ہوا ہے، اگر پاک فوج نہ ہو تو طالبان 7 دن میں پاکستان پر قبضہ کرلیں، فوج کو سیاست میں ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ اور جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو لوگوں کو انصاف، روزگار، صحت کی سہولتیں، بچوں کو تعلیم کی سہولت دینی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 412985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش