0
Tuesday 24 Nov 2015 16:08

انصاف کا تقاضا

انصاف کا تقاضا
تحریر: ناصر رینگچن

کچھ دنوں پہلے بیروت اور پیرس میں بم دھماکے ہوئے, جس میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہوئے، یقیناً یہ دونوں واقعات انتہائی دلخراش اور افسوسناک تھے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، کیونکہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات اپنے بھی غیروں جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ اپنوں کی خاموشی دشمن کے تیر سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ پیرس کے واقعہ پر ساری دنیا نے افسوس اور دکھ کا احساس کیا اور سب نے اپنے اپنے حساب سے اہلیان پیرس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ کسی نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تو کسی نے بڑی بڑی بلڈنگوں پر فرانس کا پرچم لہرایا، فیس بک پر سب نے پروفائل پر فرانس کا جھنڈا لگایا۔ میں ان اظہار ہمدردیوں کا مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میں کسی ظالم اور ظلم کے حق میں ہوں۔ میں یہاں پر بس صرف عوام کو اور ساری دنیا کے انسانوں کو فلسطین کی طرف لے جانا چاہتا ہوں، جہاں روزانہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے، خواتین کو سرعام گولیاں ماری جاتی ہیں، پرامن مسلمانوں کو مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے، غریب مسلمان جو اپنے آباو اجداد سے فلسطن میں رہ رہے ہیں اور جن کی کئی نسلیں فلسطین کی سرزمین پر مدفون ہیں، ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کو بے گھر و آسرا کھلے آسمان تلے ہجرت یا خیموں تک محدود کر دیا جاتا ہے، جو کوئی اپنی مظلومیت پر آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دہشت گرد اور انتہاپسند کا ٹھپہ لگا کر یا تو مار دیا جاتا ہے یا سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے، حتی کہ ان کے معصوم بچوں تک کو گرفتا کیا جاتا ہے۔

جی ہاں فلسطین میں یہ کوئی نئی بات نہیں، جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل میں آیا ہے، تب سے آج تک فلسطین پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ چند مہینے پہلے اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرایا گیا، جس سے مسلمان ممالک کافی خوش ہوئے کہ شاید اب مسئلہ فلسطین کا کوئی راہ حل سامنے آجائے گا، لیکن میرے نزدیک اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطین کا جھنڈا لہرانے سے مراد فلسطین کے مظلومین کا ساتھ دینا نہیں تھا بلکہ اسرائیل کو گرین سگنل دینا ہے کہ اب فلسطین پر جتنا ہوسکے تیزی سے ظلم و ستم کو بڑھا دو۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کے جھنڈے کو تو تسلیم کیا ہے، مگر فلسطین کے حقوق اور اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے نظریں چرالی ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو فلسطین کا جھنڈا لہرانے کے بعد اسرائیلی ظلم و بربریت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ساری دنیا خاموش ہے، جیسے کہ وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ بین الااقوامی ادارے (Red Crescent) ریڈ کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینہ میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں چھبیس سو افراد زخمی ہوئے ہیں، جن کو ربڑ اور اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق دو مہینوں میں ایک ہزار بچے گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ روزانہ فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔

اسرائیلی بربریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شیلنگ سے ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شہد ہوئی۔ ابھی یہ ظلم کم نہیں ہوئے تھے کہ اسرائیل نے اب ایک اور قانون تیار کیا ہے، جس کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قید کرنا قانونی قرار دیا ہے، جو کھلے عام انسانی حقوق کی پالی ہے۔ حال ہی میں فلسطینی ادارے فلسطینی پریزینرز سوسائٹی (Palestinian Prisoners Society) کی جانب سے ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینی بچے موجود ہے، جن کی عمریں کم ہیں اور ان بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا ہے۔ اب ذرا امریکہ کی طرف دیکھیں جو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی چیمپیئن اور انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا ہے، فلسطین میں اسرائیلی مظالم میں برابر کا شریک ہے۔ بش کے زمانہ میں امریکہ اسرائیل کے درمیان دس سال کا معاہدہ ہوا تھا، جس میں امریکہ ہر سال بلین ڈالر فوجی امداد کی مد میں اسرائیل کو دے گا۔ ابھی حال ہی میں یہ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران مزید دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس میں امریکہ ہر سال بلین سے بڑھ کر اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں ادا کرے گا۔

میری امریکہ سے گزارش ہے کہ امریکہ اسرائیل جیسے دہشت گرد کو مشرق وسطٰی میں رکھ کر ہر سال امریکی عوام کے ٹیکس سے ڈالر بیجھنے کی بجائے اسرائیلیوں کو امریکہ میں ہی بسا لے، امریکہ میں ایک اور اسٹیٹ کا اضافہ ہوگا اور اسرائیل وہاں خوش بھی ہوگا اور کسی دشمن کا خوف بھی نہیں ہوگا۔ نہ ہی فلسطنی حماس اور لبنانی حزب اللہ کے حملے ہونگے، اسرئیلی وہاں خوشی سے رہینگے، امریکہ کی پریشانی بھی کم ہوگی۔ ادھر فلسطینی اپنے وطن میں خوشی سے رہینگے بلکہ مشرق وسطٰی کی امن و سلامتی بھی بحال ہوگی، کیونکہ مشرق وسطٰی کے تمام دہشت گردوں کو اسرائیل کی سرپرستی حاصل ہے، تاکہ وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے اور مسلمانوں میں فرقہ واریت پیدا کرے، لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں کرے گا، کیونکہ یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ افسوس ہے ان انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اور ان مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک پر، جنہوں نے پیرس کے سانحہ پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا مگر کبھی فلسطین کے شہداء کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی فیس بک اور بلڈنگوں پر فلسطین کا پر چم لہرایا سوائے کچھ ممالک کے، بلکہ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطین کی جنگ ہوئی تو ہم اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔

جب مسلمان حکمرانوں کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی تمام تر طاقتوں کے باوجود مٹھی بھر دشمن کے سامنے غلام بن کر رہیں گے، دشمن ہمارے ہی وسائل سے ہمیں قتل کرینگے۔ مشرق وسطٰی میں اسرائیل کو یہ جرات بھی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی، جنہوں نے اپنے اقتدار اور مفاد کی خاطر اسلام کے دشمنوں کو گلے سے لگایا اور ان کو بسانے اور طاقتور ہونے میں مدد فراہم کی۔ افسوس ہے مسلمانوں پر جو ایک چھوٹے سے علاقے اور قبلہ اول کو دشمنوں کے شر سے نہیں بچا سکے۔ اپنوں کے مارے جانے پر خوشی اور کافروں کے مرنے پر غم زدہ ہوتے ہیں، افسوس ہے عرب ملکوں اور حکمرانوں پر، عرب والے اگر صرف عرب ہونے کے ناطے بھی جمع ہو جائیں تو فلسطین سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہو جائے، مگر عربوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ ساتھ انسانیت اور دین و ایمان کو بھی فروخت کر دیا ہے، سوائے چند کے جو دشمن کے سامنے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے سوچنا چاہیئے کہ آج ہم مظلومین کی حمایت نہیں کرینگے تو کل ہماری باری پر کون ہماری مدد کرے گا۔ آج اسرائیل جیسا غاصب فلسطین میں داخل ہو کر مسلمان فلسطینی نوجوان لڑکیوں کو بغیر کسی جرم کے سرعام گولیاں مارتا ہے، معصوم بچوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے، مگر ساری انسانیت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔؟؟
خبر کا کوڈ : 500028
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش