0
Friday 22 May 2009 10:12

امریکہ، اسرائیل، اختلافات کے واضح آثار ؟

امریکہ، اسرائیل، اختلافات کے واضح آثار ؟
امریکی صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی پہلی ملاقات میں کچھ آثار سامنے آئے ہیں جو اسرائیل اور امریکہ کی ساٹھ سالہ باکمال دوستی میں دراڑوں کا نکتہ آغاز ہو سکتا ہے۔ جب فلسطین جیسا پرانا جھگڑا سامنے ہو تو پہلی ملاقات میں زیادہ توقعات نہیں رکھی جانی چاہیے۔ ملاقات سے پہلے ہی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر کے درمیان اختلافات کی اطلاعات تھیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی امریکی صدر سے اختلاف سامنے آئے ہوں۔ نیتن یاہو جب انیس سو چھیانوے اور ننانوے کے دوران وزیر اعظم تھے تو تب بھی ان کے صدر بل کلنٹن سے اختلافات سامنے آئے تھے۔ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی میں دراڑوں کا سوچنےوالوں کو یہ بھی بہرحال ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دونوں ممالک کے ایسے رشتے ہیں جن کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین کے دور میں جب اسرائیلی ریاست اور امریکہ میں اہم سفارتی رشتہ قائم ہوا تو اس کے بعد دونوں ممالک کے رشتے گہرے ہوتےگئے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیتن یاہو اور براک اوباما اچھے دوست نہیں ہیں۔اس وقت امریکی صدر اوباما اور نیتن یاہو میں جس مسئلے پر اتفاق ہے وہ ہے ایران کا جوہری پروگرام۔ دونوں لیڈر متفق ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل سے روکنا ضروری ہے لیکن اس مقصد کے حصول کے طریقے کار پر اتفاق نہیں ہے۔ نیتن یاہو اس مسئلے پر سخت گیر رویے کے حامی ہیں جبکہ امریکی صدر نے ایران کے بارے پالیسی کو سال کے آخر تک موخر کر رکھا ہے۔
اسرائیل کو یقین ہے کہ امریکی انتظامیہ کی ایران پالیسی کامیاب نہیں ہوگی لیکن وہ امریکہ کو ہدایات دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ صدر اوباما اور نیتن یاہو کی ملاقات میں امریکی صدر نے فلسطینی مسئلے کےحل کے لیے دو ریاستی منصوبے کو دہرایا ہے اور دونوں فریقوں کو اپنے عہد پورا کرنے کا مشورہ دیا۔ براک اوباما نے کہا کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ غزہ سے ہونے والی کسی کارروائی کو برداشت نہ کر ے جس سے اس کے شہریوں کی حفاظت پر اثر پڑتا ہو۔لیکن انہوں نے اسرائیل کو فلسطینوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کو کم کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس طرح کی پابندیاں دیر پا امن کے لیے سود مند نہیں ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو دو ریاستی منصوبے پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا خیال ہے یروشلم کے مشرق میں آزاد فلسطینی ریاست حزب اللہ اور ایران کے میزائیلوں کا اڈا ثابت ہو گا اور ان میزائیلوں کا نشانے پر اسرائیلی شہری ہوں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم فلسطینوں کو محدود پیمانے کی آزادی دینے کے حق میں ہیں جس کے تحت وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر کر لیں۔ اسرائیلی اور امریکی صدر کے درمیان فلسطینی مسئلے پر اختلافات ایک تنازعے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ صدر براک اوباما چار جون کو مشرق وسطیٰ کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان مصر کے دورے کے دوران کریں گے۔ اگر اوباما انتظامیہ واقعی سنجیدہ ہے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی میں فلسطینی زمینی پر قائم کی جان یہودی بستیوں کو روکنے سے متعلق کوئی بات کرتا ہے تو پھر نیتن یاہو اور ان کے دائیں بازو کے حامیوں کے لیے برادشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اسرائیلی اہلکار جو نتین یاہو کے ہمراہ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں وہ اسرائیلی صحافیوں کو اعتماد میں لے کر بتا رہے ہیں کہ دونوں ملکوں درمیان اختلافات کو ورکنگ کیمٹی کے طے کر لیا جائے گا۔ لیکن یہ بات شاید اتنی آسان نہ ہو۔ اسرائیل اور امریکہ فطری اتحادی ہیں لیکن وائٹ ہاؤس میں دونوں ملکوں کے لیڈروں کے بات چیت کے لہجے میں تبدیلی ایسی تھی جو جارج بش کے زمانے میں سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی۔ اگر صدر اوباما مشرق وسطیٰ میں امن کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ان کو دونوں فریقوں کو مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے جس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں دوست ممالک کے تعلقات میں کٹھن مراحل آئیں گے۔

خبر کا کوڈ : 5422
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش