0
Monday 18 Apr 2011 13:32

جنوبی افغانستان کا کنٹرول طالبان کے حوالے کرنیکا خفیہ امریکی معاہدہ،پاکستان اور امریکہ غیرفطری اتحاد برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہیں،امریکی

جنوبی افغانستان کا کنٹرول طالبان کے حوالے کرنیکا خفیہ امریکی معاہدہ،پاکستان اور امریکہ غیرفطری اتحاد برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہیں،امریکی
کابل،واشنگٹن:اسلام ٹائمز۔ افغانستان کے ریسرچ ادارے کے ایک ڈائریکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت جنوبی افغانستان کا کنٹرول طالبان کو دے دیا جائیگا اور بدلے میں امریکی فوجی اڈے کیلئے مستقل جگہ حاصل کی جائیگی۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان کے اسٹرٹیجک ریسرچ کے ڈائریکٹر غلام جیلانی نے کابل میں ایرانی خیبر ایجنسی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکی فوجی اور سیاسی رہنماؤں نے حال ہی میں طالبان سے مذاکرات کئے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کی صورت میں جنوبی افغانستان میں امریکی فوجی اڈے کو جگہ دینے کے بدلے یہ علاقہ طالبان کے حوالے کر دیا جائیگا۔ 
ادھر امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ غیرفطری اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جارج ٹاﺅن یونیورسٹی میں قائم سینٹر فار پیس اینڈ اسٹرٹیجک سٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹائن فیئر نے کہا کہ جب سے اوباما نے اقتدار سنبھالا ہے طالبان کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان کو بھاری امداد دی ہے اور واشنگٹن کو توقع تھی کہ زیادہ امداد دینے سے انتہاپسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تعاون ملے گا۔ لیکن پاکستان میں امریکہ سے دوری کا رحجان بڑھ رہا ہے اور بالخصوص ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ سفارتی تعلقات بحران کا شکار ہوئے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی ضرورت ہیں یہ لالچ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔
 امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد کی فضا قائم ہے دونوں ملکوں کے حکام اور عوام کو یقین نہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے دوست ہیں یا نہیں۔ صدر اوباما کو امریکہ اور پاکستان کی پارٹنر شپ وراثت میں ملی تھی، انہوں نے اس لئے پیسہ بہا دیا کہ پاکستان سے تعلقات کو مضبوط کیا جائے، وہ افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دیں، مگر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود واضح پیشرفت نہیں ہو سکی، حتیٰ کہ ڈرون حملوں اور بعض دیگر امور پر دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں، ان میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ڈرون حملے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم ہتھیار ہیں وہ کسی صورت بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا، دوسری جانب پاکستان کا موقف ہے کہ ان حملوں کے منفی نتائج سامنے آرہے ہیں امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان وسیع البنیاد تعاون کرے اور طالبان سمیت شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔ پاکستان میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے روزانہ امریکی رویوں پر تنقید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو نشانہ بنا رہا ہے، بھارت سے امریکی تعاون اس ضمن میں جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے، کرسٹائن فیئر نے کہا کہ پاکستان کو ہمارے پیسے اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے، تاکہ وہ بھارت کا مقابلہ اور اپنی معیشت مستحکم کر سکے، جبکہ ہمیں اس کے ایٹمی ہتھیاروں، عسکریت پسندوں سے خطرہ ہے، ہمیں پاکستان کی ضرورت ہے۔ 
میڈیا کے مطابق امریکی حکومت چاہتی تھی کہ پاکستان لشکر طیبہ سمیت دیگر گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ لیکن پاکستان کی اپنی مجبوریاں ہیں، پاکستان میں رائے پائی جاتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ ا نٹیلی جنس اداروں کے درمیان سخت الفاظ کا بھی تبادلہ ہوا، حتٰی کہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے سی آئی اے سے مواصلاتی رابطے بھی عبوری طور پر منقطع کر دیئے، پاکستان کی طرف سے یہ دھمکی دی گئی کہ وہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو بے دخل کر دے گا۔ امریکہ کی طرف سے یہ شکایات بھی سامنے آئیں کہ پاکستان بہت سے لوگوں کو ویزے جاری نہیں کر رہا ہے، آئی ایس آئی کے سربراہ نے سی آئی اے کے ہم منصب سے حالیہ ملاقات میں ڈرون حملوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، جب اس ملاقات کے دوران اگلے ہی روز حملہ کیا گیا تو خود آرمی چیف نے بھی سخت رد عمل ظاہر کیا۔ سی آئی اے کے سربراہ سے ملاقات میں پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے انہیں ریڈ لائنز سے آگاہ کیا اور بتایا گیا کہ پاکستان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا، دونوں ملک عدم اعتماد کی فضا ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن دیکھنا یہ ہے یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 66047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش