0
Thursday 17 Aug 2017 12:46

ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرکے اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کیا، عظمٰی یوسف

ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرکے اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کیا، عظمٰی یوسف
اسلام ٹائمز۔ اسپانٹک نامی بلند چوٹی جو گولڈ اسپانٹک کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، کو پہلی مرتبہ پاکستانی خاتون عظمٰی یوسف نے سر کیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے عظمٰی نے بتایا کہ اگرچہ اس چوٹی کو سر کرنا ایک مشکل کام تھا، لیکن انہوں نے ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرکے اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کیا۔ انہوں نے کہا کہ 3 اگست کو اسلام آباد سے اسکردو کے لئے سفر کا آغاز کیا اور پھر سب سے پہلے ارندو پہنچیں، جہاں سے انہوں نے گلیشیئرز کے اوپر سے ہوتے ہوئے بیس کیمپ پہنچ کر پہلی کامیابی حاصل کی، جو کہ ایک مشکل ترین سفر تھا۔ انہوں نے کہا، جب میں بیس کیمپ پہنچی تو وہاں پر دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کی ٹیم موجود تھی، لیکن صرف میں واحد پاکستانی تھی اور یہ جان کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی اور ساتھ ہی سفر کے دوران چیلنجز کا سامنا کرنے کا تجربہ بھی ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیس کیمپ کے بعد دوسرا مقام کیمپ 1 ہے اور اگر وہاں تک پہنچنے میں آپ کی طبیعت خراب ہو جائے تو باقی کیمپس کو سر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں خیریت سے اُس مقام تک پہنچی اور پھر ایک رات وہاں پر قیام بھی کیا۔ عظمٰی یوسف کا کہنا تھا کہ کیمپ 1 سے وہ دوبارہ بیس کیمپ کی جانب آئیں اور اس دوران یہ تجربہ ہوا کہ یہاں کس طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عظمٰی یوسف کا مزید کہنا تھا کہ چوٹی تک پہنچنے کا سفر رات کے وقت شروع کیا گیا اور منزل تک پہنچتے پہنچتے صبح ہوچکی تھی، اس وقت شدید سردی تھی، لیکن جیسے ہی میں چوٹی پر پہنچی تو ایک لمحے کے لئے لگا کہ جیسے میں خلاء میں ہوں اور باقی سب پہاڑ مجھ سے نیچے محسوس ہو رہے تھے۔

ان کا کہنا کہ چوٹی تک پہنچنے کے اس سفر میں ان کی قوت کافی کم ہوچکی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے خود کو مضبوط کیا، تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں، اس چوٹی پر پہنچتے ہوئے اگر میں ہمت ہار جاتی تو صحت کو بہت سے مسائل ہوسکتے تھے، کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ وہاں آکسیجن کی کمی ہے، جس کے باعث سانس لینا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ عظمٰی یوسف نے بتایا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں پر 2 گھنٹے سے زائد تک نہیں رہا جاسکتا، لیکن اس چوٹی پر پہنچنے کے بعد واپس آنے کا دل نہیں کر رہا تھا، کیونکہ وہاں سے جو قدرتی مناظر دکھائی دے رہے تھے، وہ بہت ہی سحر انگیز تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں کن کن مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ سفر کے دوران خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست رکھنا بہت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنی کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ عظمٰی کا کہنا تھا کہ سفر کے دوران مردوں کے ساتھ رہنا بھی ایک چیلنج ہے، لہذٰا اس دوران آپکو خود کو ایک خاتون نہیں، بلکہ کوہ پیما تصور کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے اپنے اس سفر کو پاکستانی خواتین کے نام کرنے کا فیصلہ کیا تو میرے لئے خود کو مضبوط کرنا بھی بہت ضروری تھا، تاکہ کسی جگہ پر بھی ایسا تاثر نہ جائے کہ میں اس کام کے لئے کمزور ہوں۔ اپنے اس کارنامے کے لئے ٹریننگ پر بات کرتے ہوئے عظمٰی نے بتایا کہ وہ پہلے بھی 6 ہزار میٹر کی ایک چوٹی سر کرچکی ہیں اور اسی دوران انہوں نے مختلف مراحل کو سر کرنے کی ٹریننگ حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ کوہ پیمائی کا موسم سے کافی گہرا تعلق ہے، کیونکہ اگر موسم ٹھیک نہیں تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

انہوں نے اپنی اس کامیابی کی اصل وجہ اپنے خاندان کی سپورٹ کو قرار دیا اور کہا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کام بہت مشکل تھا۔ عظمٰی یوسف نے بتایا کہ خود ان کے شوہر نے اس سفر کے لئے بہت سپورٹ کی اور راستے میں بھی سیٹلائٹ فون کے ذریعے وہ موسم کی معلومات فراہم کرتے رہے، جو کہ بہت مدد گار ثابت ہوئیں۔ عظمٰی نے بتایا کہ میرے بچے بھی میری حوصلہ افزائی کرتے تھے اور یہی کہتے تھے کہ میں یہ سفر مکمل کرکے واپس آؤں، انہوں نے کہا کہ اس کام کے لئے فیملی کی سپورٹ بہت ضروری ہے، کیونکہ خاندان کی اجازت کے بغیر ایک خاتون کا اس طرح دور دراز علاقے میں جانا ناممکن سی بات ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کوہ پیما ہونے کے ساتھ زندگی کا خطرہ تو ایک عام سی بات ہے، کیونکہ اس پیشے میں آنے پر آپ کو خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم سفر کے دوران حفاظتی اقدامات کرنا بھی بہت ضروری ہے، کیونکہ جس علاقے میں، میں گئی تھی، وہاں موسم بدلتے وقت نہیں لگتا۔ عظمٰی یوسف نے کہا کہ پاکستانی خواتین کے لئے میرا یہ پیغام ہے کہ آپ کو اپنے اندر سے ڈر اور خوف کو نکال دینا چاہیئے، تاکہ آپ بھی اس طرح ملک کا نام روش کرسکیں اور دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستانی خواتین بہت بہادر ہیں۔ اپنے مستقبل کے مشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے عظمٰی یوسف نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کی تمام چوٹیاں سر کریں، تاکہ ملک کا نام روشن ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے پہلی بار 6 ہزار میٹر کی بلندی پر جاکر کامیابی حاصل کی تو اسی سے یہ کارنامہ سرانجام دینے کے لئے حوصلہ افزائی ہوئی، لہذٰا اب وہ 8 ہزار میٹر تک کی بلندی پر جانے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 661978
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش