0
Thursday 21 Apr 2011 15:27

آئی ایس آئی کے چند عناصر حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہے ہیں، پاکستان و امریکا کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، ایڈمرل مولن

آئی ایس آئی کے چند عناصر حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہے ہیں، پاکستان و امریکا کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، ایڈمرل مولن
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ امریکی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے پاک امریکا تعلقات مشکلات کا شکار ہیں لیکن دونوں ملک روابط توڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، پاکستان اور امریکا میں اعتماد کا فقدان ہے۔ امریکا پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور سیاستدانوں کے معاملات پر اثرانداز نہیں ہوتا یہ ان کے اندرونی معاملات ہیں، کشمیر کا تنازع حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر مسائل حل ہونے کی راہ کھلے گی، آئی ایس آئی کے چند عناصر حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہے ہیں جس پر شدید تحفظات ہیں، پاکستان کو تنہا چھوڑیں گے نہ ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے۔ انقرہ میں طالبان کا دفتر قائم کیا جا رہا ہے۔
 ایڈمرل مولن بدھ کی شام امریکی سفیر کی رہائشگاہ پر روزنامہ جنگ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کو خصوصی انٹرویو دے رہے تھے۔ پاک امریکا تعلقات میں وقت کے ساتھ اتار چڑھاؤ، واشنگٹن کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار پر عدم اعتماد اور پاکستانی عوام کے غم و غصہ کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ گیلپ پول اور دیگر اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ عوام میں امریکا مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں امریکا کی سول اور فوجی قیادت کیلئے انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہو گا۔ پہلے ہی ریمنڈ ڈیوس کے معاملے امریکا مخالف جذبات ملک کے اندر امن وامان کی خراب صورتحال اور عدالتی و اقتصادی بدحالی پر غم و غصہ کے ساتھ مل گئے ہیں۔ اس طرح دائیں بازو کے سیاستدانوں اور سخت گیر اسلام پسندوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ مخلوط حکومت اور امریکا کے خلاف کام کر سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے اس تاثر کو دور کرے کیونکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ ملک کو سنگین اقتصادی بحران میں مبتلا کر رہی ہے اور امریکا مخالف جذبات بھی ابھر رہے ہیں۔ 
ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ میں تعلقات میں مشکلات کو مانتا ہوں اور ان کی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ پاکستان آیا ہوں۔ میرا ملک اور میری فوج جانتی ہے کہ ہمارے تعلقات میں مشکل مرحلہ آیا ہوا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ سے ماضی میں مشکلات پیدا ہوئیں لیکن ہم پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات کو جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں امریکا کے بارے میں پاکستانی عوام کی رائے بھی جانتا ہوں لیکن مجھے امید ہے ہمارے تعلقات مضبوط اور بہتر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی مشکل وقت ہے۔ افغانستان میں بغاوت برپا ہے، پاکستان میں شہریوں کو خطرات ہیں جنہیں ہم نظرانداز نہیں کر سکتے، ہمیں مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ امریکا پاک بھارت تعلقات کی بہتری کیلئے مسلسل زور دے رہا ہے لیکن وہ جنوبی ایشیا میں تنازعہ کے اصل سبب مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کر رہا ہے۔ وہاں بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ آپ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ نیوکلیئر انرجی کے معاملے پر امریکا نے بھارت کو سویلین نیوکلیئر سہولیات دیں لیکن پاکستان کے خلاف اس مسئلے پر مہم شروع کر دی، جس کی وجہ سے یہاں امریکی حامیوں کے لئے شدید مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ 
امریکی افواج کے سربراہ نے جواب دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اس خطے کیلئے بہت اہم چیلنج ہے۔ یہ تنازعہ طے ہونے سے پاکستان اور بھارت کے لئے دوسرے مسائل حل کرنے کی راہ کھلے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ پیچیدگی بہت زیادہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کافی عرصے سے موجود ہے، یہ حل طلب اور مشکل مسئلہ ہے لیکن تاریخ شاہد ہے بڑے قائدین نے مشکل مسائل کو بھی حل کیا ہے۔ ایڈمرل مولن سے استفسار کیا گیا کہ امریکا کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت کے علاوہ اس کے میڈیا اور تھنک ٹینکس نے کئی سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں اور افغانستان میں بحالی امن کیلئے پاکستان کے مرکزی کردار کو کھلے دل سے تسلیم کیا لیکن ان تعریفوں کے ساتھ ہی پاکستان کی حوصلہ شکنی کی مہم بھی جاری رکھی گئی اور الزام لگایا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں مخلص نہیں، اس طرح کیا پاکستانی عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوتے۔ نتیجتاً پاکستانی قیادت کی ساکھ بھی مجروح ہوئی اور امریکا کے حوالے سے منفی تاثر پیدا ہوا۔
 اس کا جواب دیتے ہوئے ایڈمرل مولن نے کہا کہ پریسلر ترمیم کے باعث 12 سال تک پاک امریکا تعلقات بالکل نہیں رہے۔ شرائط رکھی گئی جن کی وجہ سے آج ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے درمیان اعتماد کا فقدان رہا لیکن اب ہم نئے سرے سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ میں پاکستانی فوج کا معترف ہوں جس نے عظیم قربانیاں دیں۔ پاکستانی شہریوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، انہوں نے کہا کہ یہاں القاعدہ قیادت کی موجودگی بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے کی طرف بھی اسے توجہ مرکوز رکھنا چاہئے۔ حقانی نیٹ ورک افغانستان جا کر امریکیوں کو قتل کر رہا ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے ہمیں مل کر کوئی طریقہ ڈھونڈنا ہو گا۔ ہمیں چاہئے کہ معلومات کا تبادلہ کر کے لشکر طیبہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں کا بھی مقابلہ کریں جو اب عالمی سطح پر جانے کی خواہشمند ہیں۔
 اس سوال کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلوص پر انگشت نمائی کرتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ پاکستانی سول اور فوجی قیادت کے درمیان خلاء پیدا کرنے کے مترادف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور سیاستدانوں کے معاملات میں ہم مداخلت نہیں کرتے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آئی ایس آئی کے بعض عناصر حقانی نیٹ ورک کو سپورٹ کر رہے ہیں جو طالبان کی حمایت میں افغانستان جا کر امریکی فوجیوں کو مارے گا تو اس پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔ اس سوال پر کہ امریکی قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ امریکا نے سابق سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑا، جس کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی۔ جنگجو کمانڈر پیدا ہوئے۔ ریاست کی رٹ ختم ہونے کے نتیجے میں طالبان سامنے آئے۔ اب پھر فوجوں کی واپسی کی تاریخ 2014ء مقرر کر دی گئی ہے۔ افغان عوام کے تمام طبقوں کا اعتماد حاصل کئے بغیر ایسا کیا گیا تو صورتحال مزید خراب نہیں ہو جائے گی۔ امریکا نے ان خدشات کو دور کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی ہے۔ ان رپورٹس کہ بھارت وہاں پر اپنے پاؤں جمانے جا رہا ہے۔ پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہوگا۔ 
امریکی ایڈمرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری سیاسی قیادت اور صدر بارک اوباما کا مؤقف واضح ہے کہ یہ خطے میں ایک طویل المیعاد اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے لئے پرعزم ہیں جس میں پاکستان، افغانستان اور بھارت کے ساتھ طویل المیعاد تعلقات شامل ہیں اور یہ تعلقات فوجوں کی موجودگی پر منحصر نہیں۔ دو ہزار چودہ میں افغانستان میں انتقال اقتدار ایک وعدہ ہے جو ہم نے نے پورا کرنا ہے۔ میں پاکستان کے ساتھ طویل المدت تعلق کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ کانگریس کی حالیہ قانون سازی کیری لوگر برمن بل کی صورت میں منظور ہو چکی جو ایک نہیں پانچ سال کے لئے ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک طویل المدت اسٹریٹجک پارٹنر شپ پر مرکوز ہیں، جس پر ہم قائم رہیں گے اور ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔

خبر کا کوڈ : 66904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش