0
Monday 9 May 2011 12:52

امریکہ ہمیں کھا نہیں جائیگا،اپنے مفادات پر ڈٹ جانا چاہئے، جنرل (ر) اسلم بیگ

امریکہ ہمیں کھا نہیں جائیگا،اپنے مفادات پر ڈٹ جانا چاہئے، جنرل (ر) اسلم بیگ
لاہور:اسلام ٹائمز۔ بری فوج کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ نے ایبٹ آباد آپریشن کو پاکستان کیخلاف امریکہ کی منظم سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقاصد تین تھے۔ ہماری فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنا، اپنے عوام کا اطمینان کہ ہم نے اپنے بڑے دشمن کو ڈھیر کر دیا اور یہ کہ ہمارا کام مکمل ہو گیا، لہٰذا افغانستان سے واپس جا رہے ہیں۔ یہ وقت فوج اور آئی ایس آئی کو ٹارگٹ کرنے کا نہیں۔ امریکہ کو پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ کسی کے نام دینے کی نہیں، جرات سے بات کرنے اور قومی مفادات پر ڈٹ جانا چاہئے۔ اب بات بہت آگے جا چکی ہے۔ ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔ وقت یہ سوچنے کا ہے کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات کیسے اور کس بنیاد پر رہنے چاہئیں اور یہ کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی کوآرڈینیشن کہاں تک ہو اور پھر افغانستان کے حوالہ سے ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہئے اور اس کیلئے کسی تقریر کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع، مسلح افواج اور آئی ایس آئی مل کر بیٹھیں اور اپنی سفارشات حکومت کو دیں اور حکومت اسے پارلیمنٹ سے منظور کروا کر لائحہ عمل کا اعلان کرے۔ پھر امریکہ کو پاکستان کو ڈکٹیشن دینے، ہماری خودمختاری پر اثرانداز ہونے اور قومی سلامتی سے کھیلنے کی جرات نہیں ہو گی۔
 سابق آرمی چیف نے کہا کہ جو وزیراعظم سانحہ ایبٹ آباد کو عظیم فتح قرار دے چکا ہو، ایسے بھٹو کے پہلوان کی کسی بات سے قوم کیا مطمئن ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہمارے ہر ادارے اور ذمہ دار کا موقف اور بیان الگ ہے جس نے ملکی سطح پر مایوسی اور بے یقینی پھیلا دی ہے۔ صدر زرداری کا عالم تو یہ ہے کہ اسی روز انکا مضمون آگیا اور انہوں نے اس واقعہ کو دہشت گردی کیخلاف بڑی کامیابی قرار دیا۔ انکے مخاطب امریکی عوام تھے اور وہ اسے اپنا کریڈٹ سمجھ رہے تھے۔ وزیراعظم اپنی قوم کیلئے اسے فتح عظیم قرار دے رہے تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہم سے دھوکہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتائے بغیر حملہ کیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہماری فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کی وارننگ دینگے اور اتنے بڑے ڈرامہ پر آج تک کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کر دے۔ آج وزیراعظم کہیں گے کہ قوم مطمئن رہے، قومی مفادات پر سودا بازی نہیں کرینگے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ یہ بیچارے اسکے سوا کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اب تک کوئی قومی موقف نہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ 2400 میل لمبی سرحد سے ریڈار بھی چلتے رہے اور پرامن حالات میں اتنے بڑے پیمانے پر اقدامات بھی نہیں ہوتے۔ یہاں ہم اتنا شور مچا رہے ہیں، کل امریکہ میں جو ایک سپرپاور ہے، نائن الیون کو کیا ہوا کہ ممکنہ سہولتوں، ذرائع اور انٹیلی جنس اور ریموٹ کنٹرول سسٹم کے باوجود ٹون ٹاورز اور پینٹاگون کے ساتھ کیا ہوا۔ کیوں سب کچھ ڈیفر ہو گیا۔ کیا یہ سب کچھ اندر والوں کی معاونت سے نہیں ہوا تھا۔ کیا اسامہ اتنی بڑی طاقت کیخلاف محض ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سرگرم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں البتہ اس واقعہ پر مجرمانہ غفلت ہوئی، اسکی تحقیقات بھی ہونی چاہئے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ وہ حکمران جو امریکہ کو اپنا دوست اور خیرخواہ سمجھتے تھے، اب اپنی عوام کے سامنے یہ کہہ سکیں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسی کو اپنے مفادات سے وابستہ کرلیں۔ یہی ہمارے مفاد میں ہے اور اس کیلئے حکمرانوں سے زیادہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور رہائی کے بعد سی آئی اے کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے تھے۔ انہیں یہاں اپنا مستقبل نظر نہیں آ رہا تھا۔ انہیں نکلنا پڑا اور پڑ رہا ہے، لہٰذا انہوں نے فوج اور آئی ایس آئی کو ٹارگٹ کرنا ہی کرنا تھا۔ انہوں نے جن ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات لے رکھی تھیں وہ بھی آنکھیں بدل رہے تھے۔ انہیں یہ خوف بھی تھا کہ پاکستان کے اندر جو گندا کھیل وہ کھیل رہے تھے، انکا بھانڈا پھوٹ جائیگا، لہٰذا پہلے پہل فوج اور آئی ایس آئی پر ملبہ ڈال دو۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ امریکہ اور سی آئی اے کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ خود کو بدنامی سے بچا کر دوسروں پر ملبہ ڈال دیتے ہیں۔ ضیاءالحق کا طیارہ کریش ہوا، ہماری قومی قیادت کے ساتھ اپنا سفیر بھی مروا دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ سارا اسلم بیگ کا کیا دھرا ہے، تاکہ ان پر انگلی نہ اٹھائی جائے۔ اب بھی انہوں نے بھیانک اور شرمناک کھیل کھیلا ہے۔ اس کو ہمیں اپنے لئے استعمال کرنا چاہئے، جرات کرنی چاہئے، یہ ہمیں کھا نہیں جائیں گے۔ ہمیں پاکستان امریکہ تعلقات پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ سی آئی اے، آئی ایس آئی کے تعلقات کو دیکھنا ہو گا اور افغانستان میں اپنے مفادات یقینی بنانا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بار بار کہونگا کہ ان پر انحصار نہ کریں، جو ہماری اس ذلت کو فتح عظیم اور دہشت گردی کیخلاف بڑی کامیابی قرار دیتے رہے۔ ہمارے ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو بیٹھنا چاہئے اور بیٹھ کر اقدامات تجویز کریں اور پارلیمنٹ سے منظوری لیکر دنیا کو پیغام دیں کہ ہم ایک خوددار قوم اور آزاد ملک ہیں۔ ڈکٹیشن نہیں مانتے تو کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوگی کہ ہماری خودمختاری پر بری نظر ڈال سکے۔ جنرل بیگ نے کہا کہ امریکہ کو پیغام دینے کی ضرورت ہے، نام دینے کی نہیں۔ ایسی کوئی غلطی ہمیں بہت پیچھے لے جائیگی۔ ہمیں جرات سے بات کرنی چاہئے اور اپنے مفادات یقینی بنانا چاہئیں۔

خبر کا کوڈ : 70741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش