0
Thursday 10 May 2018 11:25

شام ان دہشتگردوں کیساتھ لڑ رہا ہے جو امریکہ، ترکی اور سعودی عرب کی فوج ہیں، بشارالاسد

شام ان دہشتگردوں کیساتھ  لڑ رہا ہے جو  امریکہ، ترکی اور سعودی عرب کی فوج ہیں، بشارالاسد
اسلام ٹائمز۔ شام کے صدر بشار الاسد نے شامی فوج کیجانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے مغرب کے دعوے کو ایک نچلے درجے کا ڈرامہ قرار دیا ہے، جس میں دہشت گردی کے حامی ممالک نے دہشت گردوں کی شکست کے بعد اور اپنی ایک اہم چال میں ناکامی کے بعد اسے شام کی فوج پر حملے کے لئے بہانے کے طور پر تیار کیا۔ یونان کے ایک روزنامہ "کیتھی مرینی" کے ساتھ انٹرویو میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ شام ان دہشتگردوں کے ساتھ لڑ رہا ہے، جو دراصل امریکہ، ترکی اور سعودی حکومتوں کی فوج ہیں۔ شام کے صدر نے اعلان کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ اور  زیادہ سے زیادہ علاقے حاصل کرنے کے بعد ہر جارح اور فوج کے خلاف جنگ کریں گے، چاہے یہ فوج ترکی کی ہو یا فرانس کی اور جب تک کہ یہ شام میں غیر قانونی طور پر داخل ہونگے، ہمارے دشمن ہیں۔ بشار الاسد نے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے ان کے بارے میں کی جانے والی توہین کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب آپ کسی ملک کے صدر ہیں تو ہر چیز سے پہلے، اس سے پہلے کہ آپ اپنی اخلاقی شخصیت کے نمائندہ ہوں، ضروری ہے کہ آپ اپنے ملک کے اخلاق کے بھی نمائندہ ہوں۔ ایک ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے کیا ایسی زبان کا استعمال امریکی ثقافت کا نمائندہ ہے۔۔۔۔ یہ بہت برا مسئلہ ہے اور میرا یہ خیال نہیں ہے کہ یہ زبان ان کی ثقافتی نمائندہ ہو۔۔۔۔ میں ذاتی طور پر ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں ان حالات کے ساتھ ایک سیاست دان اور ایک صدر کی طرح سے پیش آوں گا، نہ کہ ذاتی حیثیت سے۔ جو میرے لئے اہمیت رکھتا ہے، وہ چیز ہے جو میرے ملک پر اثر انداز ہے اور وہ ہے جنگ، دہشت گرد اور وہ حالات جن میں ہم زندگی گزار رہے ہیں۔

شام کے صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس دعویٰ کے بارے میں، جس میں اس نے کہا تھا کہ "شام میں مشن انجام پا گیا" کے بارے میں کہا کہ میرے خیال میں جو تنھا مشن انجام پایا ہے، وہ صرف اس وقت تھا کہ جب امریکیوں نے داعش کی مدد کی تھی کہ رقہ کے علاقے سے فرار کرکے  وہ دیر الزور کے علاقے میں گئے، جہاں وہ شام کی فوج سے لڑے۔ ان کا دوسرا مشن اس وقت انجام پایا، جب سال 2016ء کے اختتام پر انہوں نے شام کی فوج پر حملہ کیا ۔۔۔۔ اور امریکہ کے حملے کی وجہ سے دیرالزور داعش کے ہاتھوں میں جانے والا تھا۔ اگر ٹرمپ شام کی تباہی کے بارے میں بات کر رہا ہے تو یہ وہ مشن تھا کہ جو مکمل کیا گیا ہے، لیکن اگر وہ دہشت گردون کے ساتھ مقابلے کی بات کر رہا ہے تو سب جانتے ہیں کہ شام میں امریکہ کا مشن دہشت گردوں کی حمایت ہے۔ شامی صدر کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی بیرونی حمایت بند ہونے کی صورت میں شام میں استحکام کی بحالی کے لئے ایک سال سے بھی کم وقت لگے گا۔ انہوں نے اپنے اور شام کے اتحادیوں کے بارے میں کہا کہ اگر آپ بحیثیت صدر میرے اتحادیوں کی بات کر رہے ہیں تو میرے اتحادی شام کے عوام ہیں، لیکن اگر آپ شام کے اتحادیوں کی بات کر رہے ہیں تو وہ ایران اور روس ہیں۔ وہ ہمارے سب سے بڑے حامی ہیں۔۔ یہ حکومتیں شام کی خود مختاری اور اس کے قومی فیصلوں کا احترام کرتی ہیں۔۔۔۔ایران اور روس ایسے ممالک ہیں، جو شام کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔

شام کے صدر نے اپنے ملک کے بحران میں ترکی کے منفی کردار کے حوالے سے تاکید کے ساتھ کہا کہ شام میں ترکی کی موجودگی جارحیت اور غاصبانہ قبضہ ہے۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ترکی کی عوام ہماری دشمن ہے، کیونکہ کچھ دن پہلے ہی ترکی سے ایک سیاسی وفد ہمارے پاس آیا تھا۔۔۔۔ حقیقت میں اردو غان جنگ کے آغاز سے ہی دہشت گردوں کی حمایت کرتا رہا ہے، لیکن اس وقت وہ ان بیانات کہ ہم شامی عوام کی حمایت کرتے ہیں اور شامی پناہ گزینوں کی حمایت کرتے ہیں، جیسے الفاظ کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔۔ لیکن اب پردہ ہٹ چکا ہے اور وہ ایک جارح کی طرح سامنے آیا ہے۔ بشار الاسد نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا وہ شام میں تیسری عالمی جنگ کے آغاز کے بارے میں فکرمند ہیں یا نہیں، اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نہیں اور اس کی صرف ایک وجہ ہے۔ خوش قسمتی سے روس کی قیادت دانشمندانہ ہے اور وہ جانتی ہے کہ شام میں امریکہ کا بنیادی منصوبہ تنازعہ ایجاد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کی سمجھداری کی وجہ سے اس طرح کے مسئلوں کے وجود میں آنے سے بچے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ ہم سپر پاورز کے درمیان براہ راست جنگ کا مشاہدہ نہیں کریں گے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو تمام مسائل کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ شامی صدر نے آخر میں امریکی سیاست کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ملک اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو افراتفری شروع کر دے گا، تاکہ اپنے مقاصد تک پہنچ سکے یا اپنے مقاصد کو تبدیل کر دے گا، لیکن اگر ان مقاصد کو حاصل نہ کر سکا تو کوشش کرے گا کہ طرفین کو کمزور کرکے تنازعات کو ایجاد کے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف شام سے متعلق نہیں ہے بلکہ کئی دہائیوں سے پورے خطے میں امریکہ کی سیاست یہی رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 723928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش