0
Wednesday 17 Oct 2018 09:27

قصور کی ننھی زینب سمیت 8 بچیوں کے قاتل عمران کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا

قصور کی ننھی زینب سمیت 8 بچیوں کے قاتل عمران کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا
اسلام ٹائمز۔ قصور کی ننھی زینب سمیت 8 بچیوں کا قاتل عمران اپنے انجام کو پہنچ گیا، سفاک مجرم کو لاہور کی کوٹ لکھپت سنٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ زینب کے قاتل کو میں مجسٹریٹ عادل سرور اور زینب کے والد محمد امین کی موجودگی میں پھانسی دی گئی۔ مجرم عمران کو کوٹ لکھپت جیل میں صبح ساڑھے 5 بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا جس کے بعد اس کی لاش آدھا گھنٹہ پھانسی گھاٹ پر جھولتی رہی۔ ڈاکٹرز کی جانب سے موت کی تصدیق کیے جانے کے بعد سفاک قاتل کی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی۔ مجرم عمران کو پھانسی دیئے جانے کے وقت جیل کے اطراف سکیورٹی ہائی الرٹ رہی، جیل کے اطراف پولیس اور اینٹی رائٹ فورس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ مجرم عمران علی کی میت لینے کیلئے اس کا ایک بھائی اور 2 دوست ایمبولینس لے کر کوٹ لکھپت جیل پہنچے تھے، جہاں قانونی کارروائی کے بعد عمران کی میت کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا، جسے لیکر وہ روانہ ہوگئے۔
 
عمران کی اہلخانہ کی کوٹ لکھپت جیل میں آخری ملاقات کا بندوبست گزشتہ روز (منگل کو) کیا گیا تھا جہاں سزائے موت کے سیل میں مجرم عمران سے 45 منٹ تک اہلخانہ کی آخری ملاقات کروائی گئی تھی۔ مجرم عمران پر زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی کا الزام تھا جس پر اسے مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی تھی اور اب مجرم کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے۔ قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی گئی 6 سالہ زینب کے والد امین انصاری نے لاہور ہائیکورٹ سے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت عالیہ نے یہ استدعا مسترد کردی تھی۔ واضح رہے کہ رواں برس 4 جنوری کو قصور سے 6 سالہ زینب کو اغوا کیا گیا تھا جس کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی، جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت زینب کے والدین عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں موجود تھے۔ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس کو جلد از جلد قاتل کی گرفتاری کا حکم دیا۔ 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت قصور کی 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ اگلے ہی ماہ یعنی 17 فروری کو لاہور کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج شیخ سجاد احمد نے قصور کی 7 سالہ زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت سنا دی تھی، جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا گیا تھا۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے مجرم عمران کو کل 6 الزامات کے تحت سزائیں سنائی تھیں۔ مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کیساتھ ساتھ انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔ دوسری جانب عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ مجرم کی جانب سے سزا کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل بھی دائر کی گئی تاہم 20 مارچ کو عدالت عالیہ نے یہ اپیل خارج کردی تھی۔
 
زینب سمیت 8 بچیوں تہمینہ، ایمان فاطمہ، عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور نور فاطمہ کے قتل کیس میں مجرم عمران نے سپریم کورٹ میں بھی اپنی سزائے موت کیخلاف اپیل دائر کی تھی تاہم سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کر دی تھی۔ دوسری جانب زینب کے والد نے لاہور ہائیکورٹ میں مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے۔ زینب کے والد محمد امین کا کہنا ہے ہمیں مجرم عمران کو پھانسی کے بعد انصاف مل گیا، آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں، مجرم عمران کو پھانسی نشان عبرت ہے۔ محمد امین نے مزید کہا ایسے جرائم کے خاتمے کیلئے مجرموں کو سرعام پھانسی ہونی چاہئے، مجرموں کو سرعام پھانسی کیلئے پارلیمنٹ پر دباؤ بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا قاتل عمران کا عبرتناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مجرم عمران کو پھانسی پر مطمئن ہوں۔ زینب کے والد کا کہنا تھا کہ پھانسی کے وقت مجرم نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، گھناﺅنا جرم کرنیوالے کا یہی انجام ہوگا، پھانسی کے وقت مجرم کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ زینب کے والد نے کہا کہ اگر آج زینب زندہ ہوتی تو 7 ماہ اور 2 ماہ کی ہوتی۔
 
خبر کا کوڈ : 756290
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش