0
Monday 23 Dec 2019 12:18

سال 2019ء پنجاب حکومت کیلئے بھاری رہا؟

سال 2019ء پنجاب حکومت کیلئے بھاری رہا؟
لاہور سے ابو فجر کی رپورٹ

تبدیلی سرکار کے تبدیلی کے وعدے محض دعوے ہی ثابت ہوئے، نظام تو نہ بدل سکا، بدلے تو صرف وزراء کے قلمدان اور بیوروکریسی کے افسران۔ تبدیلی کے نعرے کیساتھ اقتدار میں آنیوالی تحریک انصاف کی حکومت عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی تو نہ لا سکی، تاہم پہلے سال کی طرح دوسرے سال بھی وزراء اور بیورو کریسی کیلئے میوزیکل چیئر کا کھیل جاری رہا۔ رواں سال کا آغاز ہوتے ہی پنجاب میں حکومت کی اتحادی جماعت قاف لیگ روٹھ گئی اور لیگی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر مستعفی ہوگئے۔ تاہم قاف لیگ کو منانے میں حکومت کامیاب ہوگئی اور باہمی معاملات طے پانے پر نہ صرف حافظ عمار یاسر کی کابینہ میں واپسی ہوئی بلکہ قاف لیگ کو ایک اور وزرات مل گئی اور باو رضوان کو صوبائی کابینہ میں شامل کرکے وزارت ماحولیات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

ہندومت سے متعلق متنازع بیان پر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کو ہٹا کر سید صمصام بخاری کو قلمدان سونپا گیا، تاہم چند ماہ بعد ہی ان سے وزرات واپس لیکر وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال کو اضافی چارج دیدیا گیا، لیکن فیاض الحسن چوہان کے اپوزیشن پر کرارے وار کی کمی نہ صمصام بخاری سے پوری ہوئی نہ ہی میاں اسلم اقبال سے، جس کے باعث دوبارہ فیاض الحسن چوہان کو وزرات اطلاعات کا قلمدان مل گیا۔ صوبائی وزیر یاسر ہمایوں سے سیاحت کا محکمہ واپس لیکر وزیر کھیل محمد تیمور خان کو سونپ دیا گیا، اسی طرح راجہ بشارت سے وزارت بلدیات کا قلمدان واپس لے کر سوشل ویلفیئر اور محکمہ بیت المال کا چارج دیا گیا جبکہ وزارت بلدیات میاں محمود الرشید کے حوالے کر دی گئی۔ ملک اسد علی کھوکھر کو وزیر تو بنا دیا گیا، مگر 100 سے زائد دن گزر چکے ہیں، انہیں کوئی محکمہ نہیں دیا گیا۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں وزارت دینے کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے کرنا ہے۔

پورا سال وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی کی خبریں سرگرم رہیں کہ اب تبدیل ہوئے کہ اب، لیکن ہر مرتبہ تبدیلی کی خبر صرف خبر تک ہی محدود رہی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ لاہور وزراء کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر غیر لاہور وزیراعلیٰ ہضم نہیں ہو رہا، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کیساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی سردار عثمان بزدار کی مخالفت ہو رہی ہے جبکہ عمران خان عثمان بزدار سے ہی کام لینے پر مُصر ہیں۔ مبصرین کے مطابق لاہور وزراء میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، عبدالعلیم خان اور دیگر رہنماؤں کی خواہش ہے کہ وزیراعلیٰ لاہور کا بندہ بنایا جائے، مگر عمران خان یہ موقف ماننے کو تیار نہیں۔ رواں پورے سال تبدیلی کا سفر صوبائی کابینہ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بیورکریسی کی اکھاڑ بچھاڑ بھی جاری رہی۔

پنجاب پولیس کے 5 سربراہ یکے بعد دیگرے تبدیل ہوئے۔ پنجاب پولیس کے سربراہ کا عہدہ سید کلیم امام کے بعد محمد طاہر پھر محمد عثمان، جاوید سلیمی اور کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز سے ہوتا ہوا شعیب دستگیر تک پہنچا، جبکہ چیف سیکرٹری نسیم کھوکھر کی جگہ میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کو تعینات کیا گیا۔ محکموں میں ٹرانسفرز اور تبدیلیوں کی قانون اجازت دیتا ہے، لیکن تبادلہ در تبادلہ یہ ظاہر کرتا رہا کہ بیورو کریسی اور حکومت کے درمیان اختلافات ہیں۔ نئے سال کے آغاز  پر حکومت کو تبادلوں کی ویل چیئر سے نکل کر عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانا ہوگی۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور امن و امان جیسے بنیادی مسائل حل نہ ہوسکے تو حکومت کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 834307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش