0
Saturday 15 Feb 2020 08:53

کسی تحریک کو طاقت کے زور پر کچلا نہیں جا سکتا  ہے، مولانا ارشد مدنی

کسی تحریک کو طاقت کے زور پر کچلا نہیں جا سکتا  ہے، مولانا ارشد مدنی
اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء و طالبات کے ساتھ دہلی پولس کے وحشیانہ سلوک کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، لیکن قانون کی دہائی دیکر اور امن و امان قائم کرنے کی آڑ میں دہلی پولس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس کے اندر گھس کر نہتے طلباء و طالبات کے ساتھ جو کیا وہ ظلم اور جبر ہے اور ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج شہریوں کا جمہوری حق ہے، رہا سوال یہ کہ احتجاج کے دوران تشدد کیوں ہوا اور اس کے پیچھے کون ہے۔؟ اس کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیق ہونی چاہیئے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جامعہ کے طلباء شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پچھلے کئی روز سے پرامن احتجاج کر رہے تھے اور پولس اپنی عادت کے مطابق ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کر رہی تھی اس وقت طلباء نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں نہیں لیا۔؟ تب کسی طرح کا کوئی تشدد کیوں نہیں ہوا۔؟ یہ وہ سوال ہے جس کا دہلی پولس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کے تعلق سے سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں جو اس سچائی سے ازخود پردہ اٹھا دیتے ہیں کہ کچھ دوسرے لوگ بسوں میں آگ لگا رہے ہیں اور پولس وہاں موجود ہے، آخریہ کون لوگ ہیں۔؟ یہ طلباء تو ہرگز نہیں ہیں، اس کا پتہ لگایا جانا بہت ضروری ہے۔
 
مولانا ارشد مدنی کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ بھی پولس نے ظالمانہ سلوک کیا ہے وہاں بھی یونیورسٹی کیمپس کے اندرگھس کر انہوں نے طلباء کو بے رحمی سے زدوکوب کیا ہے ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک جمہوری ملک میں اب احتجاج کرنا بھی جرم ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر ان لوگوں کو جو اب اقتدار میں ہیں یہ اعلان کردینا چاہیئے کہ ملک میں اب کسی طرح کا پرامن احتجاج بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند قانون کی حکمرانی کی قائل ہے اور اس بات کے سخت خلاف ہے کہ کوئی شخص قانون ہاتھ میں لے لیکن جامعہ اور علی گڑھ میں پولس نے جو یک طرفہ کارروائی کی وہ ظلم ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تنہا جامعہ ملیہ یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی احتجاج نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں ہندو مسلم، سکھ عیسائی مل کر شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ یہ قانون ہندو مسلم کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ملک کی آزادی کے بعد بنائے ہوئے سیکولر دستور کے مقابلہ ہندو راشٹر بناکر تمام اقلیتوں کو اس کے ماتحت بنانے کا مسئلہ ہے لیکن انتظامیہ ایک سازش کے تحت اس کو ہندو مسلم بنانے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ پورے ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کراحتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کے ساتھ ہوئے وحشیانہ سلوک کے خلاف اب پورے ملک کی یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کے طلباء سراپا احتجاج بن کر ان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یہی ہمارے ملک کی جمہوریت کی روح ہے اور یہی یکجہتی اور اتحاد کا وہ جذبہ ہے جسے کچھ لوگ ختم کرنے کی پے درپے سازشیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اور احتجاج کے دوران کسی بھی طرح کے تشدد سے گریز کیا جانا چاہیئے اور اس بات کا بھی لحاظ رکھا جانا چاہیئے کہ اس سے عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی تحریک کو طاقت کے زور پر کچلا نہیں جاسکتا ہے۔
 
 
خبر کا کوڈ : 844630
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش