0
Friday 7 May 2021 17:24
مذہبی نصاب میں مذاہب کو آزادی دی جائے، ہر مسلک اپنا نصاب خود بنائے

یکساں قومی تعلیمی نصاب فرقہ وارانہ ہے، علامہ سید جواد نقوی

یکساں قومی نصاب کے اندر اہلبیت کے متعلق واضح خیانت نظر آ رہی ہے، خطاب
یکساں قومی تعلیمی نصاب فرقہ وارانہ ہے، علامہ سید جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ و تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا اپنے خطاب روز جمعہ میں کہنا تھا کہ یکساں نصاب تعلیم بظاہر ایک مقبول تصور ہے، لیکن مقصدیت اور ضرورت کا درست ادراک، حکمت اور بصیرت کے بجائے سیاسی نعرے کی بنیاد پر اختیار کیا گیا تو ڈر ہے کہیں یہ ملک میں یکساں جہالت کے فروغ کا باعث نہ بن جائے۔ ماہرین تعلیم ہوں، سماجی کارکن، یا پھر علماء جو بھی تعلیم کے نظام کو بہت قریب سے دیکھ رہیں وہ حکومت کے یکساں نصاب پر بھرپور انداز میں تنقید کر رہے ہیں، جس میں پہلا سوال یہ کہ یکساں تعلیمی نظام ملک کی اولین ضرورت ہے یا پھر یکساں نصاب؟ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ملک میں طبقاتی تقسیم پیدا کر رہا ہے اور نصاب یکساں کر دینے سے یہ تقسیم ختم ہو جائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں طبقاتی تقسیم کی وجہ نظام تعلیم سے زیادہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیسکو کی رپورٹ کی مطابق پاکستان میں اس وقت دو کروڑ تیس لاکھ بچے اپنے نامساعد حالات  کی وجہ سے سکول نہیں جا سکتے جبکہ دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ بچے جو سکول نہیں جا پا رہے انکی تعلیم و تربیت کس کا کام ہے ؟ کیا ریاست ان بچوں کو نظر انداز کر کے تعلیم کا نظام بدلے بغیر، نصاب کی تبدیلی لا کر صرف کھوکھلا کریڈٹ  لینا چاہتی ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ یکساں نصاب تعلیم کی بجائے حکومت کو ایک کم از کم معیار کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے کہ اپنے بچوں کو ہم لازمی طور پر اس حد تک تعلیم سے آراستہ کریں گے، چونکہ نصاب تعلیم بچوں کا کھیل نہیں، اس کا تعلق قوم کی نسلوں سے ہوتا ہے، اس میں کسی بھی تبدیلی سے پہلے ایک وسیع تر مشاورت اور مسلسل غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نصاب میں تبدیلی مقصود ہے تو وہ علمی اور فکری مشق کہاں ہے؟ اب اچانک سے ایسے فیصلے ہو رہے ہیں تو یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ فیصلہ سازی اور مشاورت میں کون سے لوگ شریک ہیں اور ان کی فکری استعداد اور سماجی اور علمی نفسیات سے آگہی کا عالم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک طویل کام ہے اور یہ انقلاب سے نہیں ارتقا سے ممکن ہے۔ ارتقا مگر وقت مانگتا ہے اور ہماری سیاسی ضروریات بہت جلد انقلاب برپا کر دینا چاہتی ہیں، چنانچہ عجلت اور سطحیت کے اس امتزاج نے پہلے ہی ہمارا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو نصاب رائج ہے وہ بہت سے مقامات پر اپنے مرتبین کے فکری افلاس کو عیاں کرتا ہے۔ اور اس میں اسلامی شخصیات کا خلل موجود ہے۔ یکساں نصاب تعلیم میں ہر اس شخصیت کا، جس کا اہلبیت سے رشتہ، ناطہ جڑتا ہے، ان کے لیے ناانصافی موجود ہے اور جو بنوامیہ کی پسندیدہ شخصیات ہیں وہ نصاب کا اصل متن قرار پائے ہیں۔ وہ متنازعہ بل جو پنجاب اسمبلی میں منظور ہوا تھا پھر دیگر قانونی مراحل میں پاس نہیں ہوا تھا اب اسی کو  مزید گاڑھا کر کے یکساں نصابِ تعلیم میں ڈال دیا گیا ہے اور جو فرقہ واریت کی بنیاد بنتے ہیں ان کو اس نصاب کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بنو امیہ یکساں نصابِ تعلیم بنا رہے ہیں، اگر اہلبیت کو فراموش کرکے نصاب بنائیں گے، تو پھر آنیوالا محقق شکوہ کرے گا کہ مواد ہی نہیں ہے، مواد کہاں سے آئے گا؟ نصاب میں آپ نے رکھا ہی نہیں ہے! اہلبیت ع  نصابِ دین ہیں، سیرت اہل بیت نصابِ اسلام ہے یہ نصاب پڑھیں گے تو پھر وہ کردار پیدا کر سکیں گے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ چونکہ آج کی قوم کو اس کردار کی ضرورت ہے، دین کو اس کردار کی ضرورت ہے، یہ کردار جس کسی نہضت میں ہو اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہے اگر یہ کردار نہ ہو تو تحریک کمزور ہو جاتی ہے اور نتیجہ نہیں نکلتا۔ مشترکہ تعلیمی نصاب فرقہ وارانہ ہے چونکہ یہ ذمہ داری متعصب لوگوں کو دی گئی جنہوں نے فرقہ وارانہ نصاب تشکیل دیا ہےابھی مصلحت اسی کے اندر ہے کہ کم از کم مذہبی نصاب کو آزاد چھوڑ دیں، اگر مذہبی ایک بنایا تو فرقہ وارانہ ہوگا اور یہ تشویش مزید بڑھ جائے گی، نصاب کے اندر اہلبیت کے متعلق واضح خیانت نظر آ رہی ہے، مذہبی نصاب میں مذاہب کو آزادی دی جانی چاہیے، ہر مسلک اپنا نصاب خود بنائے۔
خبر کا کوڈ : 931300
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش