0
Monday 20 Sep 2021 21:42

بلتستان یونیورسٹی میں کروڑوں کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

بلتستان یونیورسٹی میں کروڑوں کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
اسلام ٹائمز۔ بلتستان یونیورسٹی کی گزشتہ مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں کروڑوں کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آگئی ہیں۔ ساتھ ہی رجسٹرار سمیت درجنوں تقرریوں کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز کو موصول دستاویز کے مطابق آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موجود وائس چانسلر کو لاکھوں روپے خلاف ضابطہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں ادا کیے گئے۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلتستان یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک کروڑ 91 لاکھ روپے سپیشل الاﺅنس کی مد میں جاری کیے جس کی 25 جولائی 2017ء کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ آڈٹ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ بلتستان یونیورسٹی آرڈر 2016 کے مطابق سینیٹ کی میٹنگ کیلئے دو تہائی کورم پورا ہونا ضروری ہے لیکن 25 جولائی کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں کورم پورا نہیں تھا، اس کے باﺅجود سپیشل الاﺅنس کی منظوری دی گئی، کورم پورا نہ ہونے کے باﺅجود سپیشل الاﺅنس کی منظوری خلاف ضابطہ تھی۔ آڈیٹرز نے اسے خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔

اسلام آباد میں خلاف ضابطہ کیمپ آفس کا قیام
آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ یونیورسٹی رولز میں جامعہ کے کیمپ آفس کے قیام کی کوئی شق موجود نہیں ہے، اس کے باﺅجود یونیورسٹی انتظامیہ نے اسلام آباد ایف ٹین میں کیمپ آفس قائم کیا جس پر 59 لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ آڈٹ کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد کیمپ آفس کو یونیورسٹی حکام کی رہائش کیلئے بھی استعمال کیا گیا ہے تاکہ ہوٹل کے اخراجات سے بچا جا سکے لیکن آڈٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ دو سال کے دوران صرف وائس چانسلر کو ٹی اے ڈے اے کی مد میں 30 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ آڈٹ پیراز کے مطابق یونیورسٹی نے ایک سال کے دوران وائس چانسلر کو 46 لاکھ روپے کے ایسے الاونس دیئے جسکی کی کہیں گنجائش ہی نہیں تھی۔

صرف9 ملازمین کی تنخواہوں پر 29 لاکھ 82 ہزار کے اخراجات
بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے پروجیکٹ کوآرڈینیٹرز اور کنسلٹینٹس بھرتی کئے جن کی تنخوائیں بھی ہوشربا ہیں۔ جس پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تنخواہ فنانس ڈویژن کے مطابق 1 لاکھ 75 ہزار تھی اس کو یونیورسٹی 4 لاکھ سے 8 لاکھ تک ماہانہ تنخواہ دے رہی ہے۔ اس طرح یونیورسٹی ماہانہ 29 لاکھ 82 ہزار کا اضافی بوجھ صرف 9 ملازمین کی تنخواہ کے مد میں برداشت کر رہی ہے۔ آڈیٹرز نے اس کی بھی تحقیقات کرنے کی سفارش کی ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں مزید کئی سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کے ساتھ خلاف ضابطہ تقرریوں اور بھرتیوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔

رجسٹرار کی تعلیم اور تجریہ طے شدہ معیار کے مطابق نہیں
آڈٹ رپورٹ میں بلتستان یونیورسٹی کے رجسٹرار، سینڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل کے ممبران کی تقرری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ رجسٹرار کی تعلیم اور تجربہ عہدے کیلئے طے شدہ معیار کے مطابق نہیں ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں موجودہ سینیٹ، سنڈیکیٹ، رجسٹرار اور ٹریژرار کی تقرریاں بھی خلاف ظابطہ ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں یہاں تک لکھا گیا ہے کہ سینیٹ اور اکیڈمک کونسل کے ممبران کا انتخاب بھی وائس چانسلر نے خلاف ضابطہ کیا ہے۔ جس کے لئے سینیٹ کی ریپرزینٹیٹیو کمیٹی کی کوئی مشاورت اور منظوری شامل نہیں تھی۔ تقرری کے مراحل میں موجودہ رجسٹرار کی تقرری کو یقینی بنانے کی بھی خلاف ضابطہ کوشش کی گئی۔ اس تقرری کے بارے میں فیصلہ کرنے والی سینیٹ اجلاس میں کورم ہی پورا نہیں تھا۔

ٹریژرار کی تقرری میں ہیرا پھیری
رپورٹ کے مطابق موجودہ ٹریژرار کی تقرری میں یونیورسٹی کے قوانین کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ موجودہ ٹریژرار کی تعلیمی قابلیت ایم بی اے ہے جبکہ مذکورہ پوسٹ کے لئے فنانس میں ڈگری رکھنا لازمی تھا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی نے آڈیٹرز کو ٹریژرار کی ڈگری بھی فراہم نہیں کی۔ صرف ڈگری کا ٹرانسکرپٹ مہیا کیا گیا۔ موجودہ ٹریژرار کی بھرتی کے لئے پوسٹ کی ہیت بھی تبدیل کر کے یونیورسٹی کے قانون کے برخلاف ٹینیور پوسٹ بنا دیا گیا تھا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے موجودہ رجسٹرار کی تعلیم اور تجربہ بھی عہدے کے لئے طے شدہ معیار کے مطابق نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 954859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش