0
Wednesday 27 Mar 2024 10:43
سادگی اور سادہ زیستی

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی ساتویں خصوصیت

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی ساتویں خصوصیت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسلام ایک مکمل دین بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دین اسلام نے انسان کی پیدائش سے قبل اور موت کے بعد تک کے اصول و قوانین اپنی کتاب اور نبی اکرم (ص) کے ذریعے ایک شریعت کے طور پر بیان کر دیئے ہیں۔ آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس شریعت یا مکمل ضابطہ حیات کی تشریح اور حفاظت کے لیے بارہ معصومین (ع) کو متعین فرمایا۔ قرآن مجید میں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ "ان الدین عند اللہ السلام" وہاں "ادخلوا فی السلم کافۃ" یعنی اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جانے پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ دین اسلام ایسا نظام نہیں، جس کا کچھ حصہ لے کر باقی کو نظرانداز کر دیا جائے۔ دین اسلام ایک مکمل پیکیج ہے اور اس کے تمام اصولوں اور فروعات پر عمل درآمد حقیقی مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے۔دین اسلام کو سمجھنے کے لیے عام طور پر تین حصوں عقائد، احکام اور اخلاق میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک سچے مسلمان کے لیے ان تینوں پر ایمان اور عمل درآمد ضروری ہے۔ علماء و فقہاء کے نزدیک ان تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور تینوں ایک دوسرے کو کامل سے کامل تر کرتے ہیں۔

عقائد اور احکام کی طرح اخلاق کے اصولوں پر عمل درآمد بھی مسلمان اور مومن کی پہچان ہے۔ جہاں عقائد و احکام کا اپنا اپنا فلسفہ ہے، وہاں علم اخلاق کا بھی اپنا فلسفہ ہے۔ عالم اسلام کے عظیم مفکر آیت اللہ شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے فرماتے ہیں: "انسان حقیقت میں روح الہیٰ (نفحۃ اللہ) ہے، لہذا انسانی نفس اور اس میں پائی جانے والی تمام فکری، نظریاتی، روحانی اور عرفانی کیفیات کا سرچشمہ خدا ہے اور چونکہ انسان کا اخلاقی ارادہ بھی اس کی منجملہ نفسانی کیفیات میں سے ہے۔ پس ہماری اخلاقی اقدار اور ہمارے اخلاقی ارادوں کا سرچشمہ بھی خدا ہے۔" آیت اللہ شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے مزید فرماتے ہیں: "اسلام کے پیش کردہ اخلاقی نظام میں تہذیب نفس، دینی تعلیم و تربیت، اخلاقی کتب کا مطالعہ اور اس سے حاصل شدہ معرفت کو سیر و سلوک کے ذریعے شہود تک پہنچانا، وہ عوامل ہیں، جو فرد اور معاشرہ کی طرف سے اخلاقی اصول و ضوابط کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اگر انسان دینی تعلیم و تربیت کے سائے میں کشف و شہود کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ ہر اخلاقی کام کی باطنی خوبصورتی (حسن) اور غیر اخلاقی کام کی باطنی پلیدگی و بدصورتی (قبح) کا مشاہدہ کرسکے تو ناممکن ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کی پاسداری نہ کرے۔"

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے بھی اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچانے کی کوشش کی کہ اخلاقی کام کی باطنی خوبصورتی اور بدصورتی کا مشاہدہ کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کا انداز دین کے تمام اصولوں منجملہ عقائد و احکام و اخلاق پر عمل کرنا تھا۔ اخلاقی فضائل میں سے ایک کبر و تکبر و غرور و خود پسندی اور فخر و مباہات کو پس پشت ڈال کر انبیاء و ائمہ علیہم السلام کی سیرت کو اپنانا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی کے مکتب میں سیرت انبیاء و ائمہ علیہم السلام کی پیروی کرنا لازمی امر ہے۔ ہمارے تمام انبیاء و ائمہ علیہم السلام ایک عام فرد کی طرح معمولی زندگی گزارتے تھے۔ اتنے بڑے الہیٰ منصب پر فائز ہونے کے باوجود عام لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے بلکہ انبیاء و ائمہ علیہم السلام کی طرزِ زندگی معاشرے کے متوسط فرد سے بھی نیچے ہوتا تھا۔ حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کے علاوہ کسی نبی کی ذاتی زندگی شاہانہ اور تجملات سے آراستہ نہ تھی۔ ہمارے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی احادیث بھی نقل کی گئی ہیں کہ آپ اپنے آپ کو "غلام" سے تشبیہ دیتے تھے۔

اسلام کی اخلاقی اقدار میں سے ایک سادگی اور سادہ زیستی ہے۔ قرآن و سنت میں اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ سادگی کے مقابلے میں شاہانہ، تجمل گرانہ، عیاشی، زرق و برق اور امیرانہ نمود و نمائش سے بھرپور زندگی ہے۔ قرآن پاک میں اس طرح کی زندگی کی مذمت ملتی ہے۔ قرآن پاک نے ماضی کی مختلف اقوام کے زوال کی جو نشانیاں بتائی ہیں، ان میں سے ایک ان کا شاہانہ طرز زندگی ہے، جس کو خصوصی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ توبہ میں شاہانہ زندگی، نمود و نمائش، دنیا پرستی کو حق طلبی کے راستے میں رکاوٹ اور بدعنوانی، فسق و فجور اور معاشرتی برائیوں کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت 212 میں دنیا اور اس کے مظاہر کو عارضی اور ناپائیدار قرار دیتے ہوئے اسے ایک دھوکہ اور فریب قرار دیا گیا ہے۔ قرآنی مفاہیم سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر سادہ زیستی اور سادگی کو نظرانداز کرکے شاہانہ، غیر ضروری اور نمود و نمائش کی زندگی گزاری جائے تو اس کے انسان کی ذاتی اور اجتماعی دونوں زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسباب عیش و عشرت اختیار کرنے میں اپنے آقا سرورِ عالم (ص) کے طرزِ عمل کو جانیں، اسوہٴ نبوی (ص) کو اپنانے کی کوشش کریں کہ کیسے آپ (ص) نے اسباب و وسائل کی وسعت پر قادر ہوتے ہوئے دنیوی عیش و عشرت سے اعراض کیا، بقدر زیست دنیا کا مال و متاع استعمال کرکے اہل دنیا کے لیے انمٹ نقوش ثبت کر دیئے، جن میں اہل دنیا کے لیے راہِ عمل ہے کہ جسے اپنا کر ایک مسلمان اپنی اخروی زندگی سدھار سکتا ہے۔اسلام سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کا دین ہے، اسلامی ثقافت اور اسلامی طرز ِمعاشرت میں سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے آپ (ص) کا جو اُسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم (ص) کو کھانے پینے، اوڑھنے، اُٹھنے، بیٹھنے کسی چیز میں تکلّف نہ تھا۔ کھانے میں جو سامنے آتا، تناول فرماتے، پہننے کو جو سادہ لباس مل جاتا، پہن لیتے۔ زمین پر، چٹائی پر فرشِ زمیں پر جہاں جگہ ملتی، بیٹھ جاتے۔ رسولِ اکرم  (ص) اکثر یہ دُعا فرماتے تھے کہ ’’اے اللہ، مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں زندہ اُٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘

آپ (ص) نے ایک موقع پر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ میرے لیے مکّۂ مکرّمہ کے سنگ ریزوں کو سونا بنا دیا جائے، میں نے عرض کیا، پروردگار، میں یہ نہیں مانگتا، بلکہ یہ پسند کرتا ہُوں کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھائوں اور ایک دن بُھوکا رہوں، جب مجھے بُھوک لگے تو آپ کو یاد کروں اور آپ کے سامنے گڑگڑائوں اور جب میرا پیٹ بھرے تو آپ کی حمد اور شُکر ادا کروں۔ آپ کے اصحاب سے نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آپ (ص) ایک ایسی چٹائی پر آرام کر رہے تھے، جس سے آپ (ص) کے جسم مبارک پر کچھ نشانات آگئے، اصحاب سے رہا نہ گیا، وہ بول پڑے کہ اگر آپ (ص) اجازت دیں تو میں نرم چٹائی بچھا دوں؟ آپ (ص) نے فرمایا: میرے لیے دنیا کی کیا ضرورت۔؟ میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے، جو کسی منزل کی طرف سفر کر رہا ہو، اس نے تھوڑی دیر کے لیے درخت کے سائے میں آرام کیا اور چل دیا۔ آپ (ص) کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کے پتے بھر دیئے جاتے تھے۔

تکلّفات سے احتراز کی بنیاد پر آپ (ص) عمدہ سے عمدہ لباس سے گریزاں تھے، ایک صحابیؓ نے ایک عمدہ لباس عطا کیا، جس میں آپ (ص) نے نماز ادا کی اور نماز کے بعد فوراً اسے اتارا اور لوٹا دیا، دوسرا سادہ لباس زیب تن فرمایا اور ارشاد فرمایا: "لے جاوٴ اس سے میری نماز میں خلل واقع ہوا۔" ظاہری طور پر انسانی جسمِ کی بقاء کا ذریعہ غذا ہے، لیکن وہی غذا انسان کے لیے مفید ہے، جو اسے بندگی پر قائم رکھنے کا سبب بنے۔ مقصودِ اصلی انسان اطاعت و بندگی ہے، جب مقصود اصلی سے صرفِ نظر کرکے غذا کے لیے دوڑ دھوپ شروع ہو جائے تو حرمت و حلّت کا پہلو نظر انداز ہو جائے گا اور یہ غذا انسان کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ہوگی۔ ایسی غذا جس میں سادگی کے بجائے تنوعات و تکلّفات شامل ہوں، جس میں فضول خرچی و اسراف کی بہتات ہو، اس سے پرہیز لازم ہے۔ آپ (ص) کھانے میں انتہائی سادہ غذا استعمال کرتے تھے۔ امہات مومنین کا بیان ہے کہ آلِ محمدؐ، رسول اللہﷺ کے گھر والوں نے جَو کی روٹی سے بھی دو دن متواتر پیٹ نہیں بھرا۔ یہاں تک کہ حضورِ اکرمﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔‘‘

آپ (ص) یہ دعا فرماتے تھے "اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتاً۔’’، "اے اللہ آلِ محمدﷺ کے رزق کو بقدر زیست بنا۔" آپ کے جانشین برحق امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی زندگی بھی ایسی ہی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام خطبہ دے رہے تھے اور ساتھ اپنے کپڑے بھی ہلا رہے تھے۔ پوچھا گیا حضرت آپ اپنی قمیص کا کونا کیوں ہلا رہے ہیں؟ آپ نے کہا: میں نے اپنی قمیص کو دھویا تھا اور چونکہ اس کے علاوہ کوئی قمیص میرے پاس نہیں تھی اور اس وقت وہ گیلی ہے، لہذا اسے خشک کرنے کے لیے خطبہ کے دوران ہلا رہا ہوں، تاکہ خشک ہو جائے۔ نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ امیر المومنین (ع) بازار میں آئے اور دو لباس خریدے۔ ایک پانچ درہم کا اور دوسرا تین درہم کا۔ آپ نے پانچ درہم کا لباس اپنے غلام قنبر کو دیا اور تین درہم کا خود لے لیا۔ قنبر نے حضرت سے کہا: آپ خلیفہ ہیں اور مہنگی قمیض آپ کو زیب دیتی ہے۔ حضرت (ع) نے جواب دیا: آپ جوان ہیں اور خوبصورت لباس جوان شخصیت پر زیادہ خوبصورت ہے۔

امیر المومنین (ع) کی طرح دیگر ائمہ علیہم السلام کی زندگی بھی سادہ اور تکلفات سے عاری تھی۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "درحقیقت اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے پیشواؤں پر یہ فرض کر دیا ہے کہ وہ کمزور اور نادار لوگوں کے برابر ہوں۔" سادہ زیستی اور سادگی کے تناظر میں جب ہم شہید ڈاکٹر نقوی کی زندگی کا سرسری جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے ماڈل قرار دیا تھا۔ آپ کی زندگی کے ایسے کئی واقعات ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سادگی، بےتکلفی اور کارکنان میں گھل مل کی زندگی گزارنے کو پسند کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ نقل کرتی ہیں کہ ایک بار کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے بیرون ملک تشریف لے جا رہے تھے تو میں نے دو تین جوڑے سوٹ کیس میں رکھ دیئے،  لیکن جب واپس آئے تو وہ تمام سوٹ ویسے کے ویسے ہی تھے۔ میں نے استفسار کیا تو کہنے لگے ایک تو وقت نہیں ملا، دوسرا پہنا ہوا لباس نجس نہیں ہوا تھا اور بظاہر صاف بھی تھا۔

مجھے ذاتی طور پر بھی ایک بار اس وقت نصیحت کی، جب میں نے شادی میں سسرال کی طرف سے ملنے والا قدرے مہنگا کوٹ پینٹ پہنا ہوا تھا۔ آپ نے مجھے مخاطب کرکے کہا اجھا لباس شاید شریعت میں ممنوع نہ ہو، لیکن آپ چونکہ تنظیمی پروگراموں میں زیادہ شرکت کرتے ہیں، اگر آپ کا یہ لباس دیکھ کر کسی غریب تنظیمی کارکن کے دل میں ایسا لباس پہننے کی خواہش پیدا ہو اور وہ اس طرح کا لباس نہ خرید سکے تو اس کے احساس محرومی کا باعث آپ بنیں گے۔ کھانے پینے کے حوالے سے بھی ان کی بے ذوقی بلکہ بدذوقی کی بیسیوں مثالیں ہیں۔ برادر مولانا ملک ابرار آف جہلم (حال برطانیہ) اپنے والد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایک بار ڈاکٹر شہید ان کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ میزبانوں نے بڑا عمدہ قسم کا کھانا تیار کیا، لیکن جب ڈاکٹر صاحب کے سامنے لایا گیا تو آپ نے نہ صرف اس تکلف پر اعتراض کیا بلکہ چپکے سے اپنی سالن کی پلیٹ میں تھوڑا سا پانی بھی انڈیل دیا۔

شہید اپنی شہادت سے ایک دن پہلے اپنے آخری سفر میں رات کو دیر سے جب ہمارے گھر تشریف لائے تو قدرے اچھا کھانے تیار کرنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو یہ کہہ کر بغیر کھانا کھائے سو گئے۔"النوم خیر من الطعام۔" شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پیشہ کے حوالے سے ایک ڈاکٹر تھے۔ ان کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ تنظیموں کے اندر کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ اگر آپ غذا، لباس اور رہن سہن کے حوالے سے معاشرے کے امیر طبقوں جیسی زندگی گزارتے تو بظاہر کوئی اعتراض نہ کرتا، کیونکہ دنیا کے رائج اصولوں کے مطابق وہ ان کا سٹیٹس تھا۔ ان کے سامنے کئی تنظیمیں افراد اور شخصیات تھیں، جو نہ پیشے کے حوالے سے ان کے برابر تھیں اور نہ ملی خدمات اور خاندانی پس منظر کے حوالے سے، لیکن وہ شخصیات قینجی  والی ہوائی چپل اور ویگن سواری سے قیمتی گاڑیوں اور بڑے بڑے عالیشان محلوں میں منتقل ہوگئیں، لیکن شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی مالی صورتحال قومیات میں داخل ہونے سے شہادت تک ایک جیسی رہی۔

آئی ایس او کے ایک سابق صدر سید اقرار نقوی نے شہید کے جنازے پر کھڑے ہو کر یہ گواہی دی تھی کہ قومیات میں آنے سے لے کر آج تک شہید کی ذاتی زندگی میں تبدیلی یا ذاتی اموال میں کوئی اضافہ تو اپنی جگہ بلکہ اس میں کمی پیدا ہوچکی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی روزمرہ زندگی کے بارے میں برادر نثار ترمذی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے، جو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ نثار ترمذی لکھتے ہیں: شہید کالا باغ کے قریب افغان مہاجرین کیمپ میں ہلال احمر کی طرف سے قائم ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ ایک آپ کی لاہور سے مستقل غیر حاضری بہت سے معاملات میں سست روی کا باعث بن رہی تھی۔ دوسرے ہر ہفتہ آنا جانا پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ ایک مرتبہ شدید حادثہ پیش آیا۔ گاڑی الٹ گئی اور آپ زخمی بھی ہوئے۔ جب بہت ہی اصرار بڑھا تو مجھے کہنے لگے کہ میں تو روزگار کی وجہ سے وہاں ملازمت کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر اتنی تنخواہ پر لاہور میں ملازمت مل جائے تو میں لاہور آنے کو تیار ہوں۔ ان دنوں ارشاد علی شاہ صاحب مرحوم، بانی زینبیہ کمپلیکس سے اچھی یاد اللہ تھی، اسے قائل کیا تو وہ شہید کو ہسپتال میں ملازمت دینے پر تیار ہوگیا۔
 
شہید وہاں چھ ہزار ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے تو ہم نے اسے قائل کیا کہ وہ سات ہزار روپے تنخواہ دے گا۔ جب شہید سے ملاقات کی تو شاہ صاحب نے تنخواہ کے بارے میں کہا تو جواب میں شہید نے کہا، کیونکہ یہ ٹرسٹ کا ہسپتال ہے، اس لیے وہ چھ ہزار ہی تنخواہ لیں گے۔ جب ملاقات کے بعد باہر نکلے تو ہم نے شہید سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ اسے مشکل سے زیادہ تنخواہ پر قائل کیا، مگر آپ نے کمی کیوں کی تو وہ کہنے لگے کہ میرا گزارہ اسی تنخواہ میں ہو جاتا ہے، میں کیوں زیادہ تنخواہ لوں۔میں ذاتی طور پر شاہد ہوں کہ جب شہید چھ ہزار روپے کی ملازمت کے لیے کالا باغ اور زینبیہ کمپلکس میں ملازمت کر رہے تھے، اس وقت کئی طلباء کو لاکھوں کے وظائف اور کئی نوجوانوں کو تنظیمی امور کی انجام دہی کے لیے دسیوں ہزار ماہانہ حق زحمت دیتے تھے۔ آپ عین اس وقت جب چند ہزار کے لیے ملازمت کر رہے تھے، دوسروں کی تنظیمی عطیات سے مدد کر رہے تھے۔ اگر ان میں سے چھ ہزار اپنے گھریلو اخراجات کے لیے لے لیتے تو نہ تنظیمی اعتراض بنتا نہ شرعی اشکال۔ آپ جتنا قیمتی وقت تنظیم اور اجتماعی امور کو دیتے، اس کے مقابلے میں یہ حق الزحمہ عشر عشیر بھی نہ تھا۔

بہرحال یہ ان کی احتیاط، فداکاری اور ایثار تھا، جس کی وجہ سے تین عشروں کے بعد آج ہم انہیں یاد کر رہے ہیں، وگرنہ اس دور کے کئی افراد کو جانتا ہوں، جنہوں نے تنظیمی اور قومی عطیات سے اپنے کاروبار شروع کیے۔ ذاتی زندگیوں کو غربت سے امراء کے طبقہ تک پہنچایا اور بقول شخصے بیت المال سے دنیا پرستی اور شہوت پرستی کے شیطانی اسباب فراہم کیے، آج ان کا زندگی میں بھی کوئی نام لیوا نہیں۔ مرنے کے بعد جو حساب کتاب ہوگا، وہ اپنی جگہ۔ شہید ڈاکٹر نقوی چونکہ سادہ زندگی گزارتے تھے، اس لیے ان کے اخراجات بھی اسی کے مطابق تھے۔ آج بعض دفعہ ملی اور قومی تنظیموں کے افراد کے رہن سہن اور چال ڈھال کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروٹوکول اور ذاتی زندگی کو مروجہ سیاسی معیار تک پہنچانے کے لیے بیت المال سے شاہ خرچیاں کرتے ہیں۔

ایک سابق تنظیمی دوست کے مطابق یہ لیڈران اور ان کے پوتے نواسے تک بیت المال پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں، لیکن غریب تنظیمی کارکنان کے لئے ان کے پاس وقت نہیں۔ کارکنوں سے ملاقات اور انہیں وقت دینے کے حوالے سے ایسے نخرے کرتے ہیں، جیسے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی وراثت سے اپنی ذات پر خرچ کر رہے ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے تنظیمی مکتب میں سادگی اور سادہ زیستی کو تنظیمی کارکنان کے لیے ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ البتہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ جائز نعمات سے استفادہ نہ کیا جائے یا سادگی کے نام پر صفائی اور پاکیزگی کو نظرانداز کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ سادگی کے نام پر سستی و کاہلی کے مظاہرے کیے جائیں اور ذاتی و اجتماعی زندگی میں اپنے آپ کو اس طرح معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے کہ مخاطب پر سادگی کا منفی تاثر ابھرے اور وہ سادہ زیستی یا سادہ زندگی کو میلا کچیلا لباس پہننے، صفائی و پاکیزگی سے عاری رہن سہن اور صحت عامہ کے اصولوں سے محروم غذا کھانے سے تعبیر کرنے لگے۔

اگر ہم انسان کے جسم و روح کی عمارت پر نظر کریں اور اس کے بعد ان تعلیمات کو دیکھیں، جو ہمیں دی گئی ہیں تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام تعلیمات ہماری روح و جسم سے ہم آہنگ ہیں۔ علمائے علم نفس کی یہ تحقیق ہے کہ ہر انسان کی روح میں چار احساس پائے جاتے ہیں: حسِ زیبائی، حسِ نیکی، حسِ دانائی اور حسِ مذہبی۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تمام ادبی محاسن، شعر و سخن میں حُسن کی مدح، لطیف و حسین صنعتیں یہ سب اسی حسِ زیبائی کے نتیجے میں نمودار ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دین کامل جو کہ فطری ہے، ان فطری احساسات کا گلا گھونٹ دے اور اس کے جو نتائج بَد برآمد ہوں، انھیں نظر انداز کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں فطرت کے حُسن و جمال، مناسب لباس، سادہ غذا اور اسی طرح کے دیگر جمالیات سے استفادہ ممنوع نہیں ہے، البتہ قائدین اور دینی عہدیداروں کے لئے سیرت محمد (ص) و آل محمد (ص) بہترین اسوہ ہے۔ شہید ڈاکٹر کے مکتب میں بھی اسی نکتہ کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1125236
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش