0
Friday 28 Feb 2014 23:34

مقتل کی صدا، سفر شہداء

مقتل کی صدا، سفر شہداء
تحریر: علی ناصر الحسینی

کئی مہینوں سے جاری مذاکرات کے ڈرامے اور اس کے تمام کرداروں کی دل لبھانے والی ایکٹنگ کے باوجود ملک دشمن گروہ طالبان نے اپنا ایجنڈا اپنی روش کے عین مطابق جاری رکھا ہوا ہے۔ کبھی پولیس آفیسران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کبھی افواج پاکستان کے سپوتوں کو خون میں لت پت کیا جا رہا ہے، کبھی FC کے جوانوں کے گلے کاٹ کر انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح سڑک پر پھینکا جا رہا ہے تو کبھی معصوم، بےگناہ اور پرُامن عوام کو ہوٹلوں، بازاروں، سینماؤں، مساجد، امام بارگاہوں، محافل میلاد میں شامل مرد و زنان کو طالبانی جاہلیت کا شکار کیا جا رہا ہے۔ مذاکرات کے ڈرامے کا نتیجہ اور کچھ نکلے یا نہ نکلے یہ ضرور نتیجہ سامنے آ گیا ہے کہ ملک دشمن طالبان کا حامی، ہمدرد اور سرپرست کون ہے، کسے ان کے جہنم واصل ہونے پر تکلیف ہوتی ہے اور کس کے پیٹ میں ان کے دہشت گردانہ مراکز پر افوا ج پاکستان کے جوابی حملوں سے مروڑ اُٹھتے ہیں۔

ہم نے بار بار یہ بات اپنے مضامین اور تجزیوں میں کہی ہے کہ گذشتہ تیس برس سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے قتل عام کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے گا، یہ مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام سے یہ گروہ خارجین ہاتھ اُٹھانے والا نہیں، آپ اندازہ لگائیں کہ اہل تشیع کا یہ قتل عام کیسے کیسے بہانوں اور حیلوں سے جاری ہے، آپریشن اگر افواج پاکستان کرتی ہیں تو جوابی حملہ اہل تشیع پر کیا جاتا ہے، ڈرون حملہ امریکہ کرتا ہے اور طالبان اس کا بدلہ کسی بازار یا امام بارگاہ میں ذکر حسین علیہ السلام سننے والوں پر بارود برسا کر لیتے ہیں، جاہل گروہ نے پشاور اور کوہاٹ کے حالیہ حملوں کو کھلے عام تسلیم کیا۔ پاک ہوٹل پر ہونے والے حملے کو تحریک طالبان کے نام سے سابق کشمیری کمانڈر مست گل نے تسلیم کیا۔ اسی طرح پشاور میں ایران کے قونصلیٹ پر بھی حالیہ حملے جسے ناکام بنا دیا گیا کو اسی نام نہاد کمانڈر نے تسلیم کیا ۔البتہ اس بار "حزب المجاہدین" کے نام سے تسلیم کیا گیا۔ یاد رہے کہ حزب المجاہدین کشمیر میں جہادی سرگرمیوں میں ملوث سب سے بڑی جماعت ہے جسے سید صلاح الدین چلا رہے ہیں، اس جماعت کی ہمدردیاں جماعت اسلامی کے ساتھ رہی ہیں۔ مست گل بھی اسی تنظیم کے تحت کشمیر میں لڑنے گیا تھا جسے چرار شریف کے ایک معرکہ کے بعد کافی شہرت ملی تھی۔ جماعت اسلامی نے اسے واپس آنے کے بعد پورے ملک میں استقبالیہ اجتماعات کے ذریعے خوب متعارف کروایا تھا۔ اس طرح کے ایک اجتماع کو اچھرہ لاہور میں جہاں جمعیت کا مرکز ہے ہمیں دیکھنے کا موقع ملا تھا۔

2007ء میں کرم ایجنسی میں ہونے والی طالبان کے ساتھ لڑائی میں بھی چند ایک بار مست گل کی طرف سے اہل تشیع کے خلاف کئی اخباری دھمکیاں پڑھنے کو ملی تھیں۔ اب ایک بار پھر جماعت اسلامی کا یہ پروردہ جو کرم ایجنسی سے تعلق رکھتا ہے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس بظاہر معتدل سمجھی جانے والی جماعت کی سربراہی منور حسن جیسے متشدد طالبان حمایتی کے ہاتھ میں ہے جو کھل کر افواج پاکستان کے خلاف اور طالبان کی کھلے عام حمایت کو اپنے ماتھے کا جھومر بنائے ہوئے ہے۔ میڈیا کے مختلف پروگراموں میں امیر جماعت کے منہ سے طالبان کی ایک بار بھی مذمت سامنے نہیں آئی۔ یہ بات بعض میڈیا ذرائع سے معلوم ہوئی ہے کہ حزب المجاہدین نے مست گل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے

اس وقت سب سے خطرناک بات صوبہ خیبرپختونخواہ میں جماعت اسلامی و پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کا وجود ہے جو کھلے عام طالبان کی حمایت کرتی ہے اور طالبان کو دفتر بنا کر دینے کی آفر کرچکی ہے ۔ یہ بات بہت سے تجزیہ کار اور واقفان حال کررہے ہیں کہ طالبان پشاور کے کئی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کئے ہوئے ہیں ۔شام ہوتے ہی ان علاقوں میں طالبان کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ پشاور شہر اہل تشیع کیلئے بےحد غیر محفوظ تصور کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر شیعہ آبادی مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے جس کے باعث تسلسل سے ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے جبکہ حکومت کا وجود کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے کراچی کے بعد پشاور اور KPK کے دیگر شہروں میں شیعہ کلنگ کی وارداتوں میں اضافہ نظر آیا ہے جو حکمرانوں کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیئے تھا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو اہل تشیع سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ تو اپنے اقتدار کی بھیک مانگ کر اور جان بخشی کروا کے 5سال تک ڈگڈگی بجانے آئے ہیں۔ ملت تشیع کو اپنے حالات کی تبدیلی کے لیے منظم اور متحد و یکجان ہونا ہو گا۔ اگر تفریق و تقسیم کا شکار رہے تو یونہی شکار ہوتے رہیں گے۔ عدالتیں بھی بکی ہوئی ہیں۔ اس لیے کہ
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصف کو صرف اپنا طرفدار چاہیئے
شورش لہو کی ہو کہ ہو محسن اذن شوق
غوغا کوئی تو آج سرِ دار چاہیئے


اس گذرے ماہ میں شہادتوں کے سفر میں ہم سے آگے بڑھ جانے والوں کی تاریخ کے حساب سے ترتیب کچھ یوں رہی۔

1فروری: کراچی، سہراب گوٹھ کے پاس فائرنگ سے سید ناصر عباس شدید زخمی ہو گئے۔
3فروری: کراچی، سید عارف علی نقوی ولد سید سرتاج مہدی (۳۲سال) گولیمار میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید کردیئے گئے، جنازہ رضویہ میں اور تدفین وادی حسین میں کی گئی۔
4فروری: پشاور، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے صوبائی صدر سردار علی اصغر قصہ خوانی بازار کے نزدیک دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ ادھر انصارالحسین کوہاٹ کے سیکرٹری جنرل سید ولی اللہ قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی۔ اسی روز قصہ خوانی بازار میں واقع پاراچنار کے اہل تشیع کے پاک ہوٹل کے سامنے ایک خودکش دھماکہ میں 12مومنین شہید اور 15کے قریب زخمی ہوئے۔ شہداء اور زخمیوں کا تعلق پاراچنار کرم ایجنسی سے ہے۔

یاد رہے اس سے قبل بھی اس ہوٹل کو ایک کار بم خودکش دھماکہ سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری سابق کشمیری کمانڈر میجر مست گل جس کا تعلق کرم ایجنسی سے ہے نے قبول کی اور اسے راولپنڈی مدرسہ تعلیم القرآن کے واقعہ کا ردِ عمل و بدلہ قرار دیا۔
6فروری: کراچی، نیو کراچی میں دہشت گردوں کی کوچنگ سنٹر پر فائرنگ، ماہر تعلیم سرَ مہتاب اور ۴طالبعلم زخمی۔ سر مہتاب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔
8فروری: کراچی، سائٹ طابری مسجد کے پاس تکفیریوں کی فائرنگ سے ۳۵ سالہ محمد رضی ولد حسین شہید۔
9فروری: لاہور، نصیر آباد کے علاقے میں پروفیسر انور عباس کی گاڑی پر فائرنگ ،گولیاں سر میں لگنے سے شدید زخمی، ادھر کراچی میں طالبان نے آستانہ مہر علی شاہ پر فائرنگ کرکے 8افراد کو شہید اور 12سے زائد کو زخمی کردیا۔
10فروری: کراچی، انجمن تنظیم پنجتنی کے سرگرم کارکن شاہد حسین زیدی عرف خرم ٹارگٹ کلنگ سے شہید۔
11 فروری: کراچی، JDC کے کارکن کاظم عباس سخی حسن کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید۔ لی مارکیٹ داؤد منڈی میں تکفیریوں کی فائرنگ سے MWM کے کارکن عمران رضا شدید زخمی۔
11فروری: ہنگو، تین ٹیچرز جن میں دو شیعہ اور ایک اہلسنت تھے فائرنگ سے شہید کردیئے گئے۔
15فروری: پشاور، امام بارگاہ خیمہ گاہ حسینی کوچی بازار پر دستی بم سے حملہ متولی سید آغا مہدی زخمی۔
17فروری: کراچی، انچولی سوسائٹی میں پان شاپ پر فائرنگ سے شباب حیدر ولد سید ناظم حسین نقوی شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ شہید کی عمر۴۲سال تھی۔
18فروری: کراچی، اورنگی ٹاؤن میں دہشت گرد گروہ کی فائرنگ سے شیعہ نوجوان عظیم حسین شہید کردیئے گئے۔ عمر۲۲ سال تھی۔
20فروری: حیدرآباد، نیاز اسٹیڈیم کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ سے سیشن جج خالد حسین کا بیٹا عاقب حسین شہید۔
21فروری: مٹیاری، ہالہ سندھ میں کربلا معلی مارکیٹ میں نصب علم پاک کو نذرآتش کردیا گیا۔
21فروری: کوہاٹ، شیعہ ایسوسی ایشن اور قومی امام بارگاہ کے متولی شیر محمد طوری کو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ ان کے غم میں کوہاٹ و ہنگو کے مومنین سراپا احتجاج بن گئے۔
23فروری: کوہاٹ، پشاور چوک ،استرزئی ویگن اسٹینڈ پر بم دھماکہ سے ۹ مومنین شہید، کئی زخمی۔ کئی زخمیوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں پہنچادیا گیا ۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے مختلف شہر جن میں پشاور، ہنگو، کوہاٹ نمایاں طور پر شامل ہیں۔ اہل تشیع کے لیے مقتل بنا دیئے گئے ہیں۔ حکومت نام کی کوئی چیز یہاں دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا لگتا ہے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے طالبان کے دفتر کھولنے کی جو بات کی تھی اس پر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے حکومت کو نظام و نسق ہی ان کے حوالے کر دیا ہے۔ کوہاٹ دھماکہ کے زخمیوں میں سے بعدازاں مزید شہید ہوگئے اور ان کی تعداد 12بتائی گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 15سے زائد ہے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
24فروری: کراچی، اورنگی ٹاؤن میں دہشت گردوں نے شیعہ نوجوان سرور عباس کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ نماز جنازہ انچولی امام بارگاہ میں ادا کی گئی۔ گلبہار کاظمین امام بارگاہ کے قریب فائرنگ سے شیعہ جوان شہزاد حسین زیدی شہید کردیئے گئے اور کراچی میں ہی سولجر بازار میں فاطمیہ ہستپال کے گیٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے پروفیسر سلمان علی کو شہید جبکہ ان کے شاگرد اسد علی کو شدید زخمی کر دیا۔ شہید ایرانی قونصلیٹ میں ملازم بتائے جاتے ہیں۔ ایک دن میں تین واقعات سے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
24فروری: پشاور، یونیورسٹی ٹاؤن میں واقع ایرانی قونصلیٹ کے باہر خودکش حملہ کیا گیا جس میں تین سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے، حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ FC کے شیعہ اہلکاروں نے جان پر کھیل کر حملہ ناکام بنایا۔
25فروری: کراچی، لیاری 8چوک میں فائرنگ سے شیعہ سید صفدر حسین ۶۵سال شہید کر دیئے گئے۔
27فروری: کراچی، نیو کراچی نمبر۳ پر تکفیریوں کی فائرنگ سے ایک شیعہ حماد رضا ولد مسرور رضا شہید ،سرجانی ٹاؤن سے تعلق تھا۔
27فروری: کراچی، بورڈ آفس سے نکلتے ہوئے تکفیریوں کی فائرنگ سے معروف عالم دین پروفیسر غلام تقی ہادی نقوی شہید کر دیئے گئے ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں شیعہ و سنی مسلمانوں نے رنج الم کے ساتھ شرکت کی۔
28فروری: ہنگو، ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والے پٹواری حسن رضا کو ہنگو میں پٹوار خانے کے قریب فائرنگ سے شہید کر دیا گیا۔ایک اہل سنت مجتبٰی پٹواری بھی ساتھ شہید ہوئے۔
شہادتوں کا یہ سلسلہ ۲۱ رمضان المبارک ۴۰ ہجری کی صبح مسجد کوفہ میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ پر ابن ملجم خارجی کے وار سے آج تک جاری ہے۔

*****


خبر کا کوڈ : 357001
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش