0
Sunday 13 Nov 2011 21:28

عرب لیگ کی رکنیت اور شام

عرب لیگ کی رکنیت اور شام
تحریر:سید اسد عباس تقوی

عرب لیگ یا جامع الدول العربیة 1945ء میں چھ عرب ممالک سعودی عرب، اردن، شام، عراق، لبنان اور مصر نے قائم کی۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ممبر ممالک کی معاشی ترقی، باہمی تنازعات کا حل اور سیاسی حکمت عملیوں کی ہم آہنگی قرار پایا۔ آج عرب لیگ کے 21 ممبر اور 4 مندوب ہیں۔ اس تنظیم کا صدر دفتر مصر کے شہر قاہرہ میں ہے۔ 12 نومبر 2011ء کو عرب لیگ کے ایک ہنگامی اجلاس میں جو کہ مصر کے شہر قاہرہ میں قائم عرب لیگ کے صدر دفتر میں ہوا، میں عرب لیگ کے بانی رکن شام کو عرب لیگ کی رکنیت سے معزول کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔ اس اہم اجلاس میں عرب لیگ کے 2 نومبر 2011ء کے، شام میں قیام امن کے لیے منظور کیے جانے والے امن معاہدے میں شامی حکومت کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور اقتصادی و سیاسی پابندیاں لگانے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ اس حکم پر عمل درآمد 16 نومبر کو عرب لیگ کی جانب سے جاری ہونے والے باقاعدہ نوٹس کے ذریعے کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں یمن، عراق اور لبنان نے دمشق کی عرب لیگ کی رکنیت ختم کرنے، وہاں سے عرب سفیر واپس بلانے اور اقتصادی و سیاسی پابندیاں لگانے کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ مصر اور الجزائر کی کوشش رہی کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے۔
 
یاد رہے کہ شام نے اپنے ملک میں آٹھ ماہ سے جاری بدامنی کی فضا کو کنٹرول کرنے کے لیے 2 نومبر2011ء کو عرب لیگ کے ایک اہم اجلاس میں عرب ریاستوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایک امن معاہدے کو تسلیم کیا تھا جس کے بارے میں عرب لیگ میں تعینات شامی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ امن معاہدہ ملک میں جاری بدامنی کی فضا کو ختم کرنے اور دیرپا امن کے قیام کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔ معاہدے کی شقوں کے مطابق حکومت شام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حزب اختلاف کے تمام گروہوں کو مذاکرات کی میز پر لائے، دونوں فریقوں سے درخواست کی گئی تھی وہ شامی عوام پر تشدد کے واقعات کا تدارک کریں، شامی حکومت سے کہا گیا کہ وہ اس عرصے میں گرفتار ہونے والے افراد کو رہا کر کے اپنی افواج کو شہری علاقوں سے باہر نکالے، نیز یہ کہ شامی حکومت عالمی ذرائع ابلاغ کے مندوبین، انسانی حقوق کے نمائندوں، عرب لیگ کے مبصرین کو صورتحال کے مشاہدے کے لیے اپنے ملک میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے۔
 
علاوہ ازیں اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ شامی حکومت کی جانب سے اصلاحات کے نفاذ کے عمل کو تیز کرنے کے لیے عرب ریاستوں کے وزیروں پر مشتمل ایک کمیٹی قومی مباحثے کے انعقاد کی تیاری کرے گی۔ یہ قومی مباحثہ اس معاہدے کے نفاذ کے دو ہفتے کے اندر اندر کرایا جائے گا۔ شام نے اس معاہدے کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں قید 553 سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ شام کی وزارت داخلہ نے 5 سے 12 نومبر تک ہتھیار پھینکنے والے حکومت مخالف عسکری گروہوں کے ارکان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ علاوہ ازیں شام نے عرب لیگ امن فارمولے کے مطابق ملک میں عالمی ذرائع ابلاغ ، عرب لیگ کے نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی، نیز ملک کے شہری علاقوں میں تعینات افواج کی واپسی کا بھی اعلان بھی کیا گیا۔ 

سعودی نشریاتی ادارے العربیہ نیوز نیٹ ورک کے مطابق شام میں جاری افواج کی عوام کے خلاف جارحیت کے پیش نظر اور ملک میں موجود حزب اختلاف کے اصرار پر عرب لیگ کا یہ ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ عرب وزرائے خارجہ کے اس اہم اجلاس میں شام کی افواج پر بھی زور دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کے خلاف جارحیت سے باز آئیں۔ اس نیٹ ورک کے مطابق عرب وزرائے خارجہ نے انتقال اقتدار کے منصوبے کے لیے شام کی حزب اختلاف کو مذاکرات کی بھی دعوت دی۔ عرب لیگ میں متعین شام کے سفیر نے اس فیصلے کو عرب لیگ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ ہم مشترکہ عرب فیصلوں کی قدر کرتے ہیں، تاہم یہ فیصلہ مغربی اور امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ چارٹر کا آرٹیکل 8 کسی ممبر ملک کو دوسرے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔

یاد رہے کہ شام پہلے ہی امریکی و یورپی یونین کی جانب سے عائد متعدد اقتصادی و سیاسی پابندیوں کا شکار ہے۔ عرب لیگ کی جانب سے عائد ہونے والی ان اقتصادی و معاشی پابندیوں کے باعث شام کی معیشت پر برے اثرات متوقع ہیں، جن میں عرب گیس پائپ لائن منصوبے میں تعطل، فری ٹریڈ زون جس کا قیام 2008ء میں عمل میں آیا تھا، سے انخلا وغیرہ شامل ہیں۔ مغربی اعداد و شمار کے مطابق شام کی عرب لیگ کی رکنیت سے معزولی کا مطلب شام کی سیاسی تنہائی ہے۔ جارج ٹاﺅن یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ نگار داﺅد خیر اللہ کے مطابق اس فیصلے سے شام اور عرب دنیا میں اختلافات مزید بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ کے اقدام سے شام میں مسائل زیادہ گھمبیر ہوں گے، ان کی رائے ہے کہ عرب لیگ کا یہ اقدام شام کے معاشرے میں فرقہ واریت کو مزید ہوا دے گا۔
 
شامی عوام نے ان پابندیوں اور عرب لیگ کی رکنیت سے معزولی کے خلاف اپنے بھرپور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے دمشق میں قائم سعودی اور قطری سفارت خانوں پر حملہ کیا اور ان سفارتخانوں پر شام کا پرچم لہرایا۔ شام میں موجود قطر کے ٹی وی چینل الجزیرہ اور سعودی نیوز نیٹ ورک العربیہ کے دفاتر پر حملے کیے گئے، جبکہ اتور کے روز شام کے متعدد شہروں میں بشار الاسد کی حمایت میں لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے اور عرب لیگ کے اس اقدام کو غیر منصفانہ اور تعصب پر مبنی قرار دیا۔ دمشق، حلب، طرطوس، رقہ، حسکہ، دیر الزور اور سویدا کے شہروں میں لاکھوں افراد مردہ باد امریکہ، مردہ باد اسرائیل کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔
 
شام کے عوام اپنے ملک میں قائم نظام حکومت کے بارے میں جو کچھ بھی سوچتے ہوں، ان مظاہروں اور عوامی جذبات سے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان پابندیوں اور نظام کی تبدیلی سے کن عناصر کو فائدہ ہو گا۔ شام کے باسیوں کا ایک آمر کے حق میں اٹھنے والا یہ طوفان خطے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے حوالے سے عوام کی بیداری کا عندیہ ہے۔ عرب لیگ کی رکنیت حکومتوں کے لیے تو شاید اہمیت کی حامل ہو، شامی عوام نے اس کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسی جمہوریت کے تحت زندگی بسر کریں جس میں انہیں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے فلسطینی بھائیوں کو ملک سے بے دخل کرنا پڑے، انہیں ایسی جمہوریت سے کوئی سروکار نہیں جو امریکہ کی کاسہ لیس ہو۔ ان کا اس جمہوریت پر سلام جس میں ملک کی خارجہ پالیسی، اقتصادی ادارے اور معیشت عالمی امدادی اداروں کے رہین منت ہوں۔ ان عربوں پر ان کا سلام جو بحرین اور یمن میں عوام کو کچلنے کے لیے فوج کشی کو جائز اور شام میں ناجائز سمجھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 113706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش