1
0
Sunday 18 Aug 2013 16:22
حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی جانب سے تھونپی گئی جنگ کی آٹھویں سالگرہ کی مناسبت سے:

33 روزہ جنگ کی کہانی، اسلام ٹائمز کی زبانی (پہلا حصہ)

33 روزہ جنگ کی کہانی، اسلام ٹائمز کی زبانی (پہلا حصہ)
اسلام ٹائمز- حزب اللہ لبنان مشرق وسطی میں جاری شطرنج کا ایک اہم مہرہ محسوب ہوتی ہے جس نے نیو مڈل ایسٹ جیسے لانگ ٹرم منصوبے کے مقابلے میں ایک اہم رکاوٹ کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہی منحوس منصوبہ ہے جس کا وعدہ سابق امریکی وزیرخارجہ کانڈولیزا رائس نے لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ کے آغاز میں دیا تھا۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ حزب اللہ لبنان کی قوت کو ختم کرنا تھا اور اگلے مراحل میں خطے کی عرب حکومتوں جیسے شام، سعودی عرب، مصر اور اسی طرح ایران کا خاتمہ تھا۔ 
 
دوسری طرف امریکہ بھی اس جنگ کی شدید ضرورت محسوس کر رہا تھا کیونکہ وہ افغانستان اور عراق میں بری طرح شکست اور ناکامی کا شکار ہو چکا تھا اور چاہتا تھا کہ خطے میں ایک کامیاب جنگ لڑ کر اپنے سپاہیوں اور جرنیلوں کے حوصلے بلند کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر موجود رائے عامہ کی وجہ سے اپنے خلاف پائے جانے والے شدید دباو سے بھی باہر نکل سکے۔ 33 روزہ جنگ میں فتح خطے میں امریکی طاقت اور اثرورسوخ کو نئی زندگی عطا کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی نیو کنزرویٹوز کی جانب سے 2005ء میں شام کی حکومت کو سرنگون کرنے کا منصوبہ تیار کیا جا چکا تھا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کیلئے ضروری تھا کہ پہلے شام حکومت کے اسٹریٹجک اتحادی اور دست راست یعنی حزب اللہ لبنان کو قطع کیا جائے تاکہ شام پر حملہ کرتے وقت کم سے کم نقصان برداشت کرنا پڑے۔ اس طرح خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے مشترکہ مفادات ابھر کر سامنے آ چکے تھے جنہوں نے خطے میں ایک نئی ہولناک جنگ شروع ہو جانے کا مقدمہ فراہم کر دیا تھا۔ 
 
لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ کا زمینہ کئی ماہ قبل ہی آمادہ ہو چکا تھا اور سیاسی اور فوجی ماہرین اس توقع کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ جنگ خزاں 2006ء سے قبل ہی آغاز ہو سکتی ہے۔ عرب حکمران امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے شدید دباو کے تحت ان کے ساتھ انجام پانے والے متعدد مذاکرات میں اپنی طرف سے اس جنگ کیلئے سبز جھنڈی دکھا چکے تھے۔ عرب حکمرانوں نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس جنگ میں غیرجانبدار رہیں گے اور اسی طرح انہوں نے امریکہ کو یہ وعدہ بھی دیا تھا کہ وہ سیاسی میدان میں اسرائیل کو اتنی فرصت دیں گے جو حزب اللہ لبنان کو نابود کرنے کیلئے کافی تصور کی جائے گی۔ بعض عرب حکمرانوں نے تو حتی اسرائیل کو مالی مدد دینے کی بھی یقین دہانی کروا دی تھی۔ 
 
جنگ کے تمام مقدمات فراہم کئے جا چکے تھے اور صرف تل ابیب کی جانب سے او کے کرنے کی دیر تھی۔ حزب اللہ لبنان نے ان معلومات کی روشنی میں جو اسے اسرائیل اور سازشی فلسطینی ٹولے کے درمیان انجام پانے والے امور اور مستقبل قریب میں اسرائیلی حملے کے امکان پذیر ہونے کے بارے میں حاصل ہوئی تھیں اور اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہر جنگ میں وہ فریق کامیاب ہوتا ہے جو دشمن کو سرپرائز دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، انتہائی فطانت اور چالاکی سے اسرائیلی سرحد پر ایک بے نظیر آپریشن انجام دیا جس میں کئی اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس کامیاب آپریشن نے اسرائیلی جنگی پلان کو تہس نہس کر دیا اور اس نے جلدبازی میں اسی دن لبنان پر وسیع ہوائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ گویا حزب اللہ لبنان نے نہایت ہوشیاری سے جنگی چال چلتے ہوئے اپنے صہیونیستی دشمن کو immature attack کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس طرح 12 جولائی 2006ء کو لبنان پر اسرائیلی فوجی حملے کا آغاز ہو گیا۔ 
 
اسرائیلی جنگی طیارے روزانہ کئی بار لبنان کی حدود میں داخل ہو کر ملک کی اہم تنصیبات اور عمارتوں کو بمباری کا نشانہ بناتے۔ چند دن گزرنے کے بعد جب زمینی جنگ میں حزب اللہ لبنان کی برتری اور کامیابی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے تو اسرائیلی جنگی طیاروں نے طیش میں آ کر عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تاکہ شائد اس طرح سے لبنانی شہریوں کو ڈرا دھمکا کر حزب اللہ لبنان کو عقب نشینی پر مجبور کیا جا سکے۔ اسرائیل کی صہیونیستی رژیم جو 33 روزہ جنگ کے آغاز پر سوائے فتح اور کامرانی کے کوئی اور تصور ذہن میں لئے ہوئے نہ تھی، چند دن بعد ہی اس حقیقت کو جان گئی کہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے انجام پانے والے کامیاب آپریشن کے چنگل میں بری طرح گرفتار ہو چکی ہے۔ اسرائیل اس نتیجہ پر پہنچا کہ اب تک کوئی جنگی مقصد حاصل نہیں کر سکا اور حتی حزب اللہ لبنان کی نچلی سطح کی قیادت کو بھی نشانہ بنانے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب اسرائیل کو یہ معلوم ہوا کہ حزب اللہ لبنان کی اکثر جنگی سرگرمیاں زمین کے اندر کھودی گئی سرنگوں کے ذریعے انجام پا رہی ہیں جن کی زمین میں گہرائی بعض علاقوں میں 40 میٹر تک جا پہنچتی ہے۔ اسرائیل کو بعد میں معلوم ہوا کہ حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی سرحد سے صرف 200 میٹر دور ہی زمین کے اندر ایک فٹبال گراونڈ کے سائز کا سرنگوں کا وسیع جال بچھا رکھا ہے اور یہ سرنگیں کنکریٹ کی 1 میٹر موٹی چھت سے محفوظ بنائی گئی ہیں۔ یہ امر اسرائیل کی انٹیلی جنس ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جس کا منطقی نتیجہ اسرائیل کی فوجی شکست کی صورت میں ظاہر ہوا۔ 
 
دوسرے مرحلے پر لبنان کے خلاف اسرائیل کا زمینی حملہ بھی اسرائیلی حکام کی جانب سے تذبذب اور شدید شک و تردید کے ہمراہ تھا۔ یہ زمینی حملہ جنگ کو آگے بڑھانے کیلئے علمی بنیادوں پر ایک طے شدہ فوجی منصوبہ بندی کا حصہ ہونے کی بجائے ایک ایسے جوئے کی مانند تھا جس سے یہ امید وابستہ تھی کہ شائد اس مرحلے میں غلبہ حاصل کرنے کے بعد جنگ کی فضا کو اسرائیل کے حق میں تبدیل کیا جا سکے۔ اسرائیلی فوجی کمانڈرز کی جانب سے لبنان کے ایک چھوٹے سے سرحدی علاقے پر قبضے کی سرتوڑ کوششیں اور اس کے بارے میں چلائی جانے والی عظیم میڈیا کمپین سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسرائیل اب جنگ کی اس دلدل سے باعزت طور پر باہر نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہے اگرچہ اس کی یہ کوششیں بھی مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہو گئیں۔ اس مضمون میں لبنان کے خلاف اسرائیل کی جانب سے تھونپی گئی 33 روزہ جنگ کے دوران چار اصلی محاذ یعنی بنت جبیل، مارون الراس، وادی الحجیر اور عیتا الشعب میں رونما ہونے والے واقعات اور معرکوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ 
 
بنت جبیل:
لبنان کے جنوبی حصے میں واقع بنت جبیل کا خطہ اسرائیلی فوج اور حزب اللہ لبنان کے جوانوں کے درمیان معرکہ آرائی کا شاہد رہا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں ہر سال حزب اللہ لبنان کی جانب سے 33 روزہ جنگ کی سالگرہ کے طور پر عظیم تقریب منعقد کی جاتی ہے اور حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ ہر سال اس تقریب میں تقریر کرتے ہیں۔ سرحدی علاقہ ہونے کے ناطے سید حسن نصراللہ کی یہ تقریر وہ اسرائیلی فوجی بھی براہ راست طور پر سن سکتے ہیں جو ہائی الرٹ پر ہوتے ہوئے اپنے مورچوں میں پوزیشن سنبھالے بیٹھے ہوتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے ہر سال اس تقریب کا انعقاد 33 روزہ جنگ میں بنت جبیل محاذ کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ 33 روزہ جنگ کے دوسرے ہفتے میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے اپنے 30 ہزار فوجیوں پر مشتمل لشکر کی مدد سے زمینی حملے کا آغاز کر دیا۔ کچھ دن بعد ہی اسرائیلی سپشل فورسز کا سب سے زیادہ ماہر اور مشہور دستہ یعنی "گولانی" بھی جنگ میں شامل ہو گیا اور لبنان کی سرزمین میں داخل ہو گیا۔ تمام جنگی ماہرین اور تجزیہ نگاران اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسرائیلی کمانڈوز اور حزب اللہ لبنان کے گوریلوں کے درمیان شدیدترین معرکے بنت جبیل کے خطے میں ہی انجام پائے ہیں۔ 
 
اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے اپنے اعترافات کے مطابق 33 روزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں میں سے نصف بنت جبیل کے علاقے میں مارے گئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے رسمی طور پر اعلان شدہ تعداد 70 ہے جن میں سے 35 اسرائیلی فوجی اس خطے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے اپنے اعلان شدہ ارقام و اعداد کے مطابق اس جنگ میں اس کے 40 ٹینک تباہ ہوئے جن میں سے آدھے یعنی 20 ٹینک بنت جبیل میں تباہ ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا ایک اعلی سطحی فوجی کمانڈر اس بارے میں کہتا ہے:
"ہم نے اپنا زمینی حملے لبنان کے سرحدی علاقے مارون الراس سے شروع کیا تھا۔ اس گاوں پر قبضے کے بعد ہم نے بنت جبیل کی جانب حرکت کرنا شروع کر دیا لیکن ہمیں بعد میں علم ہوا کہ مارون الراس میں کسی مزاحمت کا نہ ہونا ایک جنگی چال تھی اور حزب اللہ لبنان کی جنگجو بنت جبیل کی قتل گاہ میں ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہم بہت جلد ہی عیناتا – بنت جبیل – مارون الراس کی مثلث میں پھنس کر رہ گئے"۔
 
33 روزہ جنگ کے دوران بنت جبیل کا خطہ تین بار شدید اسرائیلی حملوں اور بمباری کا نشانہ بنا۔ اسرائیلی حملوں اور بمباری کا پہلا مرحلہ 13 جولائی سے 24 جولائی 2006ء تک جاری رہا۔ اس مرحلے کے دوران اسرائیل نے صرف اس خطے کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ 24 جولائی کو اسرائیل نے زمینی حملے کا آغاز کرتے ہوئے اپنی فوج کا ایک بٹالین آگے بڑھانا شروع کر دیا جسے مرکاوا ٹینکوں اور آرٹلری کی حمایت بھی حاصل تھی۔ حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کے ساتھ پہلی جھڑپ میں ہی 2 اسرائیلی فوجی ہلاک اور چند زخمی ہو گئے اور اہالی بنت جبیل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اسرائیلی آرمی اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشوں کو اٹھائے روتی آنکھوں کے ساتھ اس خطے سے عقب نشینی کرنے پر مجبور ہو گئی۔ بنت جبیل پر اسرائیلی حملوں کا دوسرا دور 24 جولائی سے 29 جولائی تک جاری رہا۔ اس مدت میں اسرائیلی فوج کی کوشش تھی کہ مارون پہاڑی، عیناتا قصبے اور مسعود پہاڑی کی جانب سے پیش قدمی کرتے ہوئے بنت جبیل گاوں پر فوجی قبضہ جما لے۔ لیکن بہت جلد اسرائیلی فورسز حزب اللہ لبنان کے دلاور جنگجووں کی گھات کا شکار ہوئے اور تن بہ تن مقابلوں کا آغاز ہو گیا۔ اس معرکے میں 8 اسرائیلی کمانڈو ہلاک ہوئے جبکہ 31 اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے جس کے بعد اسرائیل آرمی ایک بار پھر عقب نشینی کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اسرائیلی فوجیوں نے ایک بار پھر مسعود پہاڑی کی جانب سے بنت جبیل پر ہلہ بول دیا لیکن انکا یہ حملہ بھی بری طرح ناکامی کا شکار ہوا اور اسرائیلی فوجیوں نے مسعود پہاڑی کے اردگرد موجود عمارتوں میں مورچے سنبھال لئے لیکن حزب اللہ لبنان کے گوریلوں کے حملے کے بعد وہاں سے بھی عقب نشینی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آخرکار 29 جولائی کو اسرائیلی فوج بنت جبیل سے مکمل طور پر باہر نکلنے پر مجبور ہو گئی۔ ایک اسرائیلی فوجی جو بذات خود اس معرکے میں شریک تھا کہتا ہے:
"ہمیں ایسا دکھائی دیتا تھا کہ زیتون کے درخت ہم پر فائرنگ کر رہے ہیں، ہم جس طرف بھی منہ کرتے حزب اللہ لبنان کے جنگجو گھات لگائے ہمارے منتظر نظر آتے تھے"۔ 
 
بنت جبیل پر اسرائیلی حملوں کا تیسرا مرحلہ 29 جولائی سے 8 اگست تک جاری رہا۔ اس مرحلے میں اسرائیل نے اپنی گذشتہ ناکامیوں سے تنگ آ کر انتہائی بزدلانہ انداز میں بنت جبیل کو شدید ہوائی حملوں اور اندھادھند بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس مرحلے کے بعد اسرائیل یہ تصور کر رہا تھا کہ اس کی ایئرفورس کی جانب سے شدید بمباری کے نتیجے میں خطے میں کوئی زندہ چیز باقی بچ جانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لہذا "صف الھوا" کی جانب سے ایک بار پھر بنت جبیل کی جانب زمینی حملے کا آغاز کر دیا۔ 9 اگست کو اسرائیل آرمی نے اپنے 200 فوجیوں کی مدد سے بنت جبیل پر قبضہ کرنے کی ایک اور کوشش شروع کر دی۔ اس بار اسرائیل آرمی کی کوشش تھی کہ عیناتا قصبے کے شمال کی جانب سے بنت جبیل کی جانب پشروی کرے لیکن جیسے ہی اسرائیلی فورسز اس علاقے میں داخل ہوئیں جسے اسرائیلی فوجی "قتل گاہ" کا نام دیتے ہیں تو چاروں طرف سے ان پر آگ برسنا شروع ہو گئی۔ 
 
 اسرائیلی فوج نے پورا زور لگایا کہ کم از کم اس جگہ جہاں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے 2000ء میں لبنان سے اسرائیل کی عقب نشینی کے بعد تاریخی خطاب انجام دیا تھا اسرائیلی جھنڈا ہی گاڑ دے، لیکن حزب اللہ لبنان کے جیالوں نے انہیں اس کام کی اجازت بھی نہ دی۔ اس معرکے میں حزب اللہ لبنان کے بہادر جوانوں کی تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تعداد کا فقط 5 سے 10 فیصد تک تھی اور اس جھڑپ میں بنت جبیل کے 18 ساکنین اور حزب اللہ لبنان کے 14 جنگجو جن میں 2 کمانڈر بھی شامل تھے مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف خود اسرائیل کے بقول اس معرکے میں اس کے 35 فوجی ہلاک ہوئے اور تقریبا 20 ٹینک تباہ ہوئے۔ بنت جبیل کے معرکے نے سب کے ذہن میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل اور عظیم مجاہد سید حسن نصراللہ کی 2000ء میں لبنان سے اسرائیل کی تاریخی شکست اور پسپائی کے بعد اسی مقام پر کی جانی والی تقریر کی یادیں تازہ کر دیں جس میں انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ:
"واللہ لاسرائیل اوھن من بیت العنکبوت"۔  
یعنی "خدا کی قسم اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزور ہے"۔
 
حزب اللہ لبنان کے شیردل جنگجووں نے 33 روزہ جنگ میں شجاعت اور استقامت کے ذریعے سید حسن نصراللہ کے اس دعوے کی تصدیق کر دی۔ اس جنگ میں حزب اللہ لبنان کے جوانوں کی پائداری اور مجاہدت کے اثرات آج تک باقی ہیں اور اسرائیل آج بھی لبنان کی سرزمین کے خلاف چھوٹا سا جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ 
 
مارون الراس:
مارون الراس لبنان کا ایک چھوٹا سا گاوں ہے جو لبنان کے ضلع النبطیہ کی تحصیل بنت جبیل میں واقع ہے۔ یہ گاوں تھوڑی بلندی پر واقع ہے اور اسرائیلی سرحد سے اس کا فاصلہ 2 کلومیٹر ہے۔ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ گاوں فوجی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس گاوں سے جنوبی لبنان اور اسرائیل کے شمالی حصے کا ایک بڑا علاقہ آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مارون الراس بیروت کے جنوب میں تقریبا 125 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس گاوں کا رقبہ 1 ہزار ہیکٹر سے کچھ کم بتایا جاتا ہے اور اس کی آبادی تقریبا 5 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس کی اکثریت یعنی 99 فیصد اہل تشیع ہیں۔ مارون الراس میں 400 گھر پائے جاتے ہیں۔ یہ گاوں جنوبی لبنان میں استقامت اور مزاحمت کا مظہر جانا جاتا ہے۔ 33 روزہ جنگ میں اسرائیل نے اس گاوں پر قبضہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن گاوں کے اہالی اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی شجاعانہ مزاحمت کے نتیجے میں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ مارون الراس میں انجام پانے والے معرکوں نے اسرائیل کو نہ بھولنے والا سبق سکھا دیا۔ 
 
اسرائیل کی جانب سے شروع کردہ 33 روزہ جنگ کے آٹھویں روز اسرائیل آرمی نے مارون الراس پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس طرح حزب اللہ لبنان کی جانب سے اپنی سرحدی بستی "افیفیم" پر راکٹ حملوں کو روکا جا سکے۔ یہ راکٹ حملے لبنان کے سرحدی علاقوں سے افیفیم اور اس کے گردونواح کی یہودی بستیوں پر انجام پاتے تھے۔ اسرائیلی فوجیوں نے "جل الدیر" کی جانب حرکت شروع کی جو اسرائیل کی سرحدی چوکی اور مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع اسرائیلی فوجی اڈے کے انتہائی قریب واقع ہے۔ یہ خطہ انتہائی صعب العبور ہونے کی وجہ سے بہترین قدرتی پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے۔  حزب اللہ لبنان کے ایک مجاہد ابو حیدر اس خطے میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی پہلی جھڑپ جس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کو زبردست دھچکہ پہنچا اور کئی اسرائیلی فوجی افسر اپنے عہدوں سے برکنار کر دیئے گا، کا قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: 

"صیہونیستی فوج نے اس بار بھی ہمیشہ کی مانند زمینی حملے کے آغاز سے قبل شدید بمباری اور گولہ باری کے ذریعے زمینی پیش قدمی کا راستہ ہموار کیا۔ اس راستا میں "جبل الباط"، "جل الدیر" اور "جنگل مارون" کے علاقے بری طرح اسرائیلی بمباری اور گولہ باری کی لپیٹ میں آئے۔ انہوں نے اپنی خام خیالی میں یہ تصور کیا کہ تقریبا 1 کلومیٹر کا راستہ ان کے فوجیوں کیلئے مکمل طور پر صاف ہو چکا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ حزب اللہ لبنان کے گوریلے اپنے مورچوں میں تاک لگائے بیٹھے تھے اور اسرائیلی فوجیوں کی آمد کے منتظر تھے۔ شدید بمباری اور گولہ باری کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے زمینی حملے کا آغاز کیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ جیسے ہی اسرائیلی فوجی حزب اللہ لبنان کے گھات لگائے گوریلوں کے نزدیک پہنچے تو حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کو کمانڈ سینٹر سے یہ ہدایات دی گئیں کہ صرف ایک جنگجو ان فوجیوں کو نشانہ بنائے اور باقی جنگجو اپنی اپنی جگہ چھپے رہیں۔ حزب اللہ لبنان کے ایک مجاہد نے جب دیکھا کہ اسرائیلی فوجی اس کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں اور تقریبا 2 سے 5 میٹر کے فاصلے پر ہیں تو یکدم اپنے موچے سے باہر آکر کلاشنکوف کے ذریعے ایک اسرائیلی فوجی کو برسٹ مارا اور اپنے مورچے میں واپس چلا گیا۔ یہ حملہ اتنی سرعت اور چابکدستی سے انجام پایا کہ اسرائیلی فوجی مبہوت رہ گئے اور انہیں حتی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ حملہ کس سمت سے ہوا۔ لہذا انہوں نے انتہائی خوف اور سراسیمگی کے عالم میں چاروں طرف اندھادھند فائرنگ کرنا شروع کر دی۔ کچھ دیر فائرنگ کے بعد چند اسرائیلی فوجی اپنے ہلاک شدہ فوجی کی لاش اٹھانے آگے بڑھے تو اسی اثنا میں وہی مجاہد دوبارہ اپنے مورچے سے باہر نکلا اور ایک بار پھر لاش اٹھانے کیلئے آگے بڑھنے والے اسرائیلی فوجیوں کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا اور دوبارہ اپنے مورچے میں واپس پلٹ آیا۔ 
 
اسرائیلی فوجیوں نے اپنے پاس موجود ہر قسم کے اسلحے سے بیہودہ انداز میں اندھادھند فائرنگ شروع کر دی لیکن چند منٹ بعد جب دیکھا کہ اس فائرنگ کا کوئی فائدہ نہیں تو ایک گہری خاموشی فضا پر چھا گئی۔ اس طرح ان اسرائیلی فوجیوں نے جو اپنے وہم میں مارون الراس پر قبضہ کرنے کی غرض سے آئے تھے واپس جانے میں ہی اپنی بھلائی دیکھی اور عقب نشینی اختیار کر لی۔ حزب اللہ کا مجاہد جس نے تن تنہا ان فوجیوں کو عقب نشینی پر مجبور کر دیا تھا آگے بڑھا اور دیکھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے 5 بیگ وہیں پڑے ہیں جو اس نے موصولہ ہدایات کے مطابق غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لئے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد حزب اللہ لبنان کے نیوز چینل المنار نے ان غنائم کی ویڈیو نشر کرتے ہوئے دنیا والوں کو اس خبر سے آگاہ کیا تاکہ اسرائیلی فوجی کی ناکامی اور شکست کے نتیجے میں ہونے والی رسوائی کو دنیا والوں کے سامنے ثابت کر سکے۔ 
 
اس شکست اور عقب نشینی کے بعد اسرائیلی فوج نے کسی اور راستے سے مارون الراس جیسے اسٹریٹجک قصبے پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ لہذا اسرائیل نے "برکہ الحافور" نامی سرحدی علاقے سے بڑی تعداد میں مرکاوا ٹینک لبنان میں گھسا دیئے جنہوں نے مارون الراس کو یارون نامی گاوں سے ملانے والی سڑک کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ البتہ اس راستے میں بھی حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کا ایک دستہ گھات لگائے بیٹھا تھا جن کا کمانڈر ایک 25 سالہ نوجوان تھا۔ جیسے ہی اسرائیلی فورسز دور سے نظر آنا شروع ہوئیں اس جوان کمانڈر نے اسرائیل کے پہلے مرکاوا ٹینک کو نشانہ بنایا۔ کچھ ہی دیر بعد ٹینک سے آگ کے شعلے اٹھنا شروع ہو گئے اور اس میں بیٹھے تمام اسرائیلی فوجی ہلاکت کا شکار ہو گئے۔ اگلے چند لمحوں میں دوسرا مرکاوا ٹینک اس جوان مجاہد کے راکٹ کا نشانہ بن کر نذر آتش ہو گیا اور اس میں بھی سوار تمام اسرائیلی فوجی واصل جہنم ہو گئے۔ اس لمحے تک اس معرکے میں 12 اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ حزب اللہ لبنان کا ایک مجاہد شہید ہو چکا تھا۔ 
 
ان حملوں نے اسرائیلی فوجیوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا دیا لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج کی بٹالین خود کو مارون الراس تک پہنچانے اور چند گھروں میں مورچہ بند ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ اس طرح سے ممکن ہوا کہ جل الدیر معرکے کے فورا بعد اسرائیل نے اپنے مارون الراس کے پچھلے حصے میں اپنے چھاتہ بردار فوجی اتار دیئے جنہوں نے مارون الراس کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ لہذا مارون الراس قصبے میں اسرائیلی کمانڈوز اور حزب اللہ لبنان کے گوریلوں کے درمیان تن بہ تن لڑائی شروع ہو گئی اور مارون الراس کے گھر اسرائیلی فوجیوں کے مقبروں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ مارون الراس کے مرکز میں واقع ایک گھر جس میں اسرائیلی فوجیوں نے پناہ لے رکھی تھی حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کے حملوں کا نشانہ بنا جس میں 2 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے۔ 
 
مارون الراس میں حزب اللہ لبنان اور اسرائیلی کمانڈوز ار فوجیوں کے درمیان چار دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں تقریبا 80 اسرائیلی فوجی مارے گئے اور 15 مرکاوا ٹینک بھی تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ تین اسرائیلی آپاچی ہیلی کاپٹر بھی حزب اللہ لبنان کے دلیر مجاہدوں کے ہاتھوں نابود کر دیئے گئے۔ مارون الراس کا معرکہ اسرائیلی فوج کیلئے ایک ڈراونے خواب میں تبدیل ہو گیا جس کے تصور سے ہی انہیں 33 روزہ جنگ میں حاصل ہونے والی عبرت آمیز شکستوں کی یاد ستانے لگتی ہے۔ آخرکار حزب اللہ لبنان کے جنگجووں اور مارون الراس کے بہادر شہریوں نے اپنی استقامت اور شجاعت کے ذریعے اسرائیل آرمی کو فرار پر مجبور کر دیا اور اسرائیلی فوجی لبنان کے تین سرحدی علاقوں مارون الراس، عیترون اور بنت الجبیل کے ذریعے عقب نشینی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس عقب نشینی نے زمینی جنگ میں اسرائیل کی شکست کو حتمی مرحلے میں داخل کر دیا۔ 
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خبر کا کوڈ : 293392
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Khaista rahman swat
Satellite Provider
اللہ اکبر
منتخب
ہماری پیشکش