0
Sunday 8 Sep 2013 15:00

بھارتی مسلمانوں نے آگے بڑھنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی، مولانا جنان اصغر مولائی

بھارتی مسلمانوں نے آگے بڑھنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی، مولانا جنان اصغر مولائی
حجۃ الاسلام مولانا جنان اصغر مولائی شہید مطہری سوسائٹی نئی دہلی کے جنرل سیکرٹری ہیں، جس سوسائٹی کا کام شہید مطہری (رہ) کے اثار و افکار کو بھارت میں عام کرنا ہے، آپ خبرنامہ محبانِ اہلبیت (ع) کے مدیر بھی ہیں جو سابقہ تین سال سے شائع ہورہا ہے جس کے ذیل میں انقلاب امام خمینی (رہ) اور فکر شہید مطہری (رہ) کی مناسبت سے خصوصی شمارے بھی منظر عام پر آتے ہیں، مولانا جنان اصغر حوزہ علمیہ قم میں طویل مدت گذارنے کے بعد نئی دہلی میں مصروف تبلیغ ہیں، آپ المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی دہلی نمائندگی کے دفتر میں بھی خدمت سر انجام دے رہے ہیں، دہلی کے اطراف میں مخلتف دینی کانفرنسز اور سیمیناز کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کی دینی بیداری کے سلسلے میں آپ کا رول بہت ہی اہم ہے۔ اسلام ٹائمز نے مولانا جنان اصغر مولائی سے ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز:  عالم اسلام میں اسلامی بیداری کے مدںظر بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کی حالت اور ذمہ داری کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا جنان اصغر مولائی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔اولاً میں اسلام ٹائمز کا شکر گذار ہوں کہ جس نے مجھے یاد کیا، ایک طویل مدت سے ہم اسلام ٹائمز خود بھی پڑھتے ہیں اور اپنے جریدے کے لئے بھی اسلام ٹائمز کا استعمال کرتے ہیں، اسلامی بیداری اور اسلام ناب محمدی (ص) کو اجاگر کرنے اور عالم اسلام و مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جو کاوش یہ اخبار انجام دے رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، ایسے ہی بے باک میڈیا کی سخت ترین ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ ہم اس اخبار کو پڑھنے کی نوجوان طبقے کو مسلسل تلقین کرتے رہتے ہیں۔

آپ کے سوال کے حوالے سے میرا نظریہ یہ ہے کہ عالمی اسلام میں جو اسلامی بیداری کی ایک لہر ہے وہ ملت اسلامیہ کے لئے بہت ہی نیک شگون ہے اور انشاء اللہ عالمی اسلام میں یہ لہر مسلمانوں کے فکری اور علمی مسائل اور سیاسی شعور کی بیداری کے لئے بہت بڑا وسیلہ اور ذریعہ ثابت ہوگا، اسلامی ممالک میں لازمی طور پر جو اس سے بدلاو آئے گا وہ سیاسی سطح پر ہوگا جس کو بعض ممالک میں محسوس کیا جارہا ہے، اُمتوں کی مثبت تبدیلی اور نااہل حکمرانوں کا خاتمہ، یہ تمام تبدیلیاں اسلامی دنیا میں یا اسلامی ممالک میں ہونی ہیں اور ہورہی ہیں، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا، دوسری بات جو ایسے ممالک ہیں جہاں حکومتوں کی تبدیلی ناممکن ہے جیسے ہمارا ہندوستان یہاں چونکہ ظاہر سی بات ہے حکومتوں کی تبدیلی کا تو نہ کوئی مسلمانوں کا ارادہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسی کوشش ہے، البتہ ہم اسلامی بیداری سے یہ ضرور حاصل کرسکتے ہیں کہ اس سلسلے میں جتنے ہمارے فرائض ہیں یہاں دور سے بیٹھ کر اسلامی دنیا کی آواز میں آواز ملاکر اُن کو تقویت بخشیں اور انہیں مسئلہ فلسطین یا خود اسلامی ممالک میں حقیقت پسندانہ افراد جو اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، اسلام کی حاکمیت کے لئے محنت کر رہے ہیں، اُن کی حمایت یہاں سے ہم کریں اور ہم یہاں خود اپنے طور پر اپنے اسلامی سماج میں زیادہ سے زیادہ بیداری و تبدیلی لائیں۔

مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہتر ہو، لوگ تعلیم کی طرف متوجہ و مائل ہوں اور اپنے آپ کو ایک ممتاز قوم میں تبدیل کرنے کے لئے دن رات کوشش کریں تو یہ مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں اسلامی بیداری کا فائدہ ہوسکتا ہے، ہمیں اپنے غرق شدہ اور تلف شدہ حقوق یا جن حقوق کو ہم حاصل کرنے کا شعور نہیں رکھتے، اُن تمام حقوق کو حاصل کریں، اپنے لئے تعلیم کے دروازے کھولیں، ترکی کے راستوں کو تلاش کریں، اپنی حالت میں تبدیلی لائیں، اپنی کاروباری، تجارتی حالت، سیاسی حالت اور ثقافتی حالت تمام حالتوں میں تبدیلی لائیں، یہ اسلامی بیداری کا ایک اثر ہمارے یہاں ہندوستان میں ہونا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ لوگ کوشش کریں گے اوراسلام بیداری کے پیش نظر جن تحریکوں کو یا جن خدمات کو شروع کرنے کی ضرورت ہے لوگ توجہ دیں گے، انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ دنیا میں اس قدر مسلمانوں کی پیشرفت کے باوجود بھارتی مسلمانوں کی حالت عقب ماندہ و پسماندہ ہے اور مسلمان اب بھی طبقہ بندی میں الجھے ہوئے ہیں۔؟

مولانا جنان اصغر مولائی: ہندوستان کی سطح پر یہ بات ظاہر سی ہے اور حکومتی اداروں کی جو رپورٹس ہیں وہ بھی اس بات کی شاہد ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی حالات اور انکی پسماندگی نہایت ہی نچلے ترین سطح اور درجہ پر ہے لیکن اس کے اسباب اور وجوہات ہیں، ایک طویل مدتی وجوہات کارفرما ہیں، دراصل ہندوستان کی آزادی کی بعد مسلمانوں نے اپنے آپ کو قومی دھارے میں اس طرح سے پیش نہیں کیا جس طرح سے پیش کرنا چاہیے تھا کچھ ایسی طاقتیں رہیں جنہوں نے منظم طور پر کوششیں کی کہ مسلمان آگے نہ بڑھیں لیکن مسلمانوں نے منظم کوشش نہیں کی آگے بڑھنے کی، نتیجہ یہ ہوا کہ جو اُن کی ترقی کو روکنا چاہتے تھے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نظر آئے اور مسلمان شعور، ترقی و پیشرفت، تعلیم و ہنر سے دور ہوتا گیا، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہم آواز نہ ہونا اور عدم اتحاد، ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کو نہ سمجھنا اور نفرتوں کی خلیج اس کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوا دیا گیا، لہذا ہم ایک دوسرے سے بے خبر رہے، ذات پات اور طبقاتی نظام میں دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اپنے طبقاتی نظام میں اُلجھا رہا یہ بھی ایک بنیادی وجہ ہے مسلمان کے پسماندگی کی، اسلام طبقاتی نظام کی نفی کرتا ہے مگر ہندوستانی مسلمانوں کا سماج مکمل طور پر طبقاتی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔

اسلام تہذیب کے بجائے بھارتی مسلمان ہندوزم اور ہندو نظریات  و طبقہ بندی سے متاثر ہیں ہم پر ان کا کلچر مغلوب ہوچکا ہے، طبقاتی نظام جو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے اس نے بھارت میں رہ رہے تمام مسلمانوں کو اسلام ناب سے دور کیا اور اس طبقاتی نظام کو مسلمانوں نے پوری طرح سے اپنی زندگیوں میں رچا بسا لیا، لہذا ہم مسلمان ہونے کے بعد بھی جو ذات برادری کے بندھن ہیں اسے باہر نہیں آسکے لہذا وہ طبقہ جو مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت کے لئے سوچ سکتا تھا اور کام کرسکتا تھا اُس نے اسلئے نہیں کیا کیونکہ اس نے صرف اپنے طبقے  کے بارے میں سوچا ہے، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر جو قدم مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور پیشرفت کے لئے اٹھنا چاہئے تھا نہیں اٹھائے گئے، اور وہی ایک اہم جملہ ہے کہ جو ہمیں تعلیمی، علمی اور کاروباری میدان میں پیچھے کرنا چاہتے تھے وہ تو منظم طور پر آگے بڑے لیکن مسلمانوں نے اپنے ترکی، تعلیم اور پیش رفت کے لئے کوئی منظم پروگرام نہیں بنایا اور کوئی منظم کوشش نہیں کی۔

بہت کم کوششیں ہوئی جس کے بہتر نتیجے بھی دنیا کے سامنے ہیں مثلاً سر سید احمد خان نے جو کوشش کی اس کے نتیجے میں ایک بہت بڑا طبقہ مسلمانوں کا ہے جس کو علم و ترقی کی روشنی ملی یا خود ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے، لیکن یہ چند افراد کی کوشش ہے ظاہر سی بات ہے پورے قوم کی کوشش شمار نہیں ہوتی ہے، اس طرح کی بہت سی کوشش کی جاسکتی تھی کیوں کہ اُس دور میں جب ہندوستان آزاد ہوا مسلمانوں کے پاس مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی اور اُس وقت مسلمانوں کی ایک اچھی پوزیشن تھی، اسی ہندوستان میں آزادی سے پہلے یہاں سینکڑوں اسلامی اسٹیٹ تھی اور مسلمانوں کی بہت سی جگہوں پر حکمرانی تھی تو ایسا نہیں ہے کہ ان کا سب کچھ ختم ہوگیا ہو لیکن منظم کوشش نہیں ہوئی اور یہ کمی رہی جو مسلمان تعلیمی کی میدان میں پیچھے رہے۔

اسلام ٹائمز: ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ بھارت میں رہ رہے مسلمان ہندو کلچر سے بہت حد تک متاثر ہیں اوران غیر شرعی رسومات کو اپنایا جارہا ہے، اس کی کیا وجوہات ہوسکتے ہیں۔؟
مولانا جنان اصغر کربلائی: اسلام تو برابری اور مساوات کا دین ہے، ذات پات اور طبقہ بندی و گروہ بندی کی اسلام مکمل منفی کرتا ہے لیکن ہندوستان میں اسلام جیسے جیسے آگے بڑھا، لوگ دائرے اسلام میں آئے یا جو افراد پہلے سے مسلمان تھے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو قدرے ساتھ رکھا لیکن انہوں نے اسلام کی مساوات و برابری کو ساتھ نہیں رکھا، جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمان یہاں کے ہندو دھرم اور نظام طبقہ بندی سے متاثر تھے اور رہے بھی یعنی ہندووں میں جو ذات پات اور طبقاتی نظام پایا جاتا ہے اُس کو اتفاقاً مسلمانوں نے اُسی طرح اپنایا، مساوات و برابری قائم کرنے کے بجائے اسی طبقاتی نظام میں الجھے رہے، اسلام میں بھی جاری رکھا لہذا یہاں قوم اور طبقات مسلمانو ں میں بھی وہ موجود ہیں، لہذا وہ افراد جو دائرہ اسلام میں آئے غیر مسلم اقوام سے ان کی زندگی میں اسلام تو آیا مگر وہ مساوات کا فائدہ اسلام کو نہیں ملا جو ان کو ملنا چاہے کیوں کہ وہ اسلام میں آنے کے بعد بھی طبقاتی نظام میں الجھے رہے ۔

اسلام ٹائمز: بھارتی مسلمانوں میں پائے جانے والے غیر اسلامی رسومات، یا خرافات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا جنان اصغر مولائی: میرا نظریہ یہ ہے کہ خرافات اس سماج میں پیدا ہوجاتی ہیں جس سماج میں مذہبی شعور کمزور ہوجاتا ہے لازمی طور پر اس کا نتیجہ خُرافات کی شکل میں سامنے آتا ہے اکثر ہم یہ دیکھتے ہے کہ جو افراد ان خُرافات میں مبتلا ہیں، بنائے دین اگر ان ہی سے اُس کی وجوہات پوچھی جائیں کہ کیوں ایسا کر رہے ہو، تو ان کے یاس کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے، دلیل نہ ہونا بے شعوری کی علامت ہے دراصل ہمارا سماج بے شعوری میں مبتلا ہے، اسلئے بہت ہی ایسی رسومات منظر عام پر آرہے ہیں جن کا دین اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اکثر موارد میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلمان وہ رسم انجام دے رہے ہیں جو حد درجہ اسلامی قوانین و احکامات کے منافی ہیں، اس کی وجوہات بے شعوری ہے لہذا علماء اسلام کو بھی کوشش کرنی چاہئے اور ذاکرین، علماء و خطباء کو ممبر سے وعظ و نصیحت کے ذریعہ سے کوشش کرنی چاہیے کہ مذہبی شعور اور معرفت کو سماج میں زیادہ بڑھا کر پیش کیا جائے اگر شعور و بیداری بڑھے گی تو خرافات کا خود بہ خود خاتمہ ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ ذاکرین روایتی مواد پیش کرکے ان اہم نکات کو فراموش کئے ہوئے ہیں۔؟
مولانا جنان اصغر مولائی: جتنے بھی صاحبان شعور ہیں وہ یہ بہ خوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم ممبر کو اگر معرفت  و بیداری کے لئے استمعال کرنے لگے تو یقینا سماجی شعور میں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی، سماج میں بدلاو آئے گا، شعور میں بدلاو آئے گا، لیکن اکثر ذاکرین ہمارے ایسے افراد ہیں جو قومی اور مذہبی خدمات کے بجائے اپنے ذات کو مدنظر رکھتے ہیں، یعنی مجلس اور تقریر کے بعد لوگ میرے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے مجلس شاندار پڑھی ہے یا نہیں پڑھی، یعنی ہمارا پہلا نظریہ اپنی شخصیت کے بارے میں ہوتا ہے، جب تک ہم پہلے اپنے آپ کو رکھیں گے بعد میں دین و شریعت کو تب تک یہ مشکل باقی رہے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو ذمہ داری اور معارف دین کے  لئے پیش پیش رکھیں کے تو انشا اللہ اصلاح ہوجائے گی۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کی پیش رفت میں رکاوٹ ان کے درمیان عدم اتحاد کو مانا جاتا ہے، آپ کا نظریہ۔؟
مولانا جنان اصغر مولائی: اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں تمام مسلم رہنما علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی ضرورت ہے اور تمام مسالک کے درمیان اتحاد ہونا چاہیے اور مسلمانوں کو متحد ہونا چاہئے اس کے لئے وہ ہمیشہ اسٹیج پر سیمنارز، کانفرنسز میں علی الاعلان اظہار کرتے ہیں، مگر عملاً ان کے دل اس طرف مائل نہیں ہوتے ہیں، عملی کوشش نہیں کرتے ہیں بلکہ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں، ہم یہاں پر مسلم رہنماوں میں اکثر و بیشتر ایسے افراد نہیں پائیں گے جو عملی میدان میں اتحاد کا مظاہرہ کریں، کوئی ایسا اقدام ہمیں نظر نہیں آتا جس سے اتحاد اسلام کو تکویت ملے یا ہم کسی مشن میں ایک پلیٹ فارم پر نظر آئیں، جب عملی اقدامات کا وقت آتا ہے تو سب اپنے اپنے خیموں میں چلے جاتے ہیں، میدان عمل میں نظر نہیں آتے ہیں، ہمارے مبلغین کو چاہیے عام مجمع  جہاں تمام مکاتب فکر ہوں وہاں اتحاد کی بات کریں اور اپنی مسجدوں میں اپنے عوام میں بھی جاکر اسی نظریہ کی تبلیغ کریں  تو بہت جلدی انشااللہ اتحاد کی فضاء قائم ہوسکتی ہے اور اس کا مثبت نتیجہ منظر عام پر آئے گا۔

اسلام ٹائمز: نئی دہلی میں آپ چونکہ مقیم ہیں، نوجوان نسل میں تعلیم و بیداری کے حوالے سے کیا رجحان پایا جاتا ہے۔؟
مولانا جنان اصغر مولائی: دیکھئے ہمیشہ مذہب سے دوری یا خرافات تبھی پیدا ہوتے ہیں جب تعلیم ، شعور و معرفت کی کمی ہوتی ہے، لیکن اب ہمارے یہاں مسلم سماج میں خاص طور پر ہماری شیعہ کمیونٹی میں تعلیم کو لے کر بیداری آئی ہے، ہمارے نوجوان الحمد اللہ تعلیم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں لہذا میں موجودہ نوجوان نسل کے بارے میں بہت زیادہ خوش بین ہوں اور یہ محسوس کر رہا ہوں کہ جو موجودہ نسل ہے بہت تبدیلی چاہتی ہے اور یہ پوری طرح سے دین کے بارے میں معرفت اور شعور حاصل کرنا چاہتے ہیں، نوجوانوں میں آج آگے بڑھنے، حقائق و معارف سمجھنے کا بے انتہا اشتیاق پایا جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ابھی بھی ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے جو نوجوانوں کو فکری طور پر رہنمائی کرسکے اور ان کی حصول معرفت کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکیں، ایسے افراد کی ابھی بھی کمی ہے جو ان نوجوانوں کی دستگیری کرسکے اور ان کو آگے کرسکیں، لیکن مستقبل کے بارے میں ہم مایوس نہیں ہیں بہت جلد ایسے افراد  ہمارے درمیان ہونگے جو ہمارے سماج میں ہمارے نوجوانوں کے ساتھ کام کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 298149
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش