0
Thursday 17 Jul 2014 22:49
عراق میں دہشتگردی سے مغرب کو فائدہ پہنچے گا

اقوام متحدہ کا کردار منافقت پر مبنی نہ ہوتا، تو ابتک فلسطین کا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا، حافظ حمداللہ

جمعۃ الوداع کو فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرینگے
اقوام متحدہ کا کردار منافقت پر مبنی نہ ہوتا، تو ابتک فلسطین کا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا، حافظ حمداللہ
قاری محمد ولی کے صاحبزادے جناب حافظ حمد اللہ سبور کا تعلق جمیعت علماء اسلام (ف) سے ہے۔ آپ 1968ء کو صوبہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے گریجویشن کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔ 2002ء کے عام انتخابات کے دوران قلعہ عبداللہ کے ڈسٹرکٹ پی بی 2 سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ متحدہ مجلس عاملہ کے رہنما بھی ہیں۔ آپ تین سال تک وزیر صحت کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے اور بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے پر برطرف ہو گئے۔ حافظ حمداللہ مارچ 2012ء میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے، جہاں آپ جمعیت علماء اسلام (ف) کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت پر مسلم امہ کی خاموشی، او آئی سی کا کردار اور شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے ملکی صورتحال پر اثرات کے علاوہ دیگر موضوعات پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے حافظ حمداللہ سے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)


اسلام ٹائمز: فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کو آپ کسطرح دیکھتے ہیں۔؟
حافظ حمداللہ: گذشتہ کئی عرصے سے اسرائیل معصوم فلسطینی عوام پر طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ اپنے مظلوم عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والی تنظیم حماس کو دہشتگرد گروہ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اپنے ناجائز قبضے کو مختلف ہتھکنڈوں سے قانونی ثابت کرنے کی کوششیں اسرائیل کی جانب سے ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔ بیت المقدس مسلم اُمہ کیلئے قبلہ اول ہونے کی حیثیت سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے نہ صرف خود فلسطینیوں بلکہ دنیا بھر میں آباد تمام مسلمانوں کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ فلسطین مسلمان کا مقدس سرزمین ہے۔ اللہ تعالٰی نے نہیں کہا کہ یہ صرف عرب کا مسئلہ ہے۔ اسی لئے مسئلہ فلسطین کو مسلم امہ ہی حل کر سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے مسلمہ اُمہ کی بات کی، تو اس حوالے سے او آئی سی کا کردار کس طرح رہا ہے۔؟
حافظ حمداللہ: شروع شروع میں او آئی سی نے فلسطینی عوام کیلئے کافی زیادہ آواز اُٹھائی اور فعال کردار ادا کیا لیکن گذشتہ کافی عرصے سے او آئی سی کا کردار مایوس کن ہے۔ 2012ء اور 2008ء میں بھی فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف او آئی سی نے کوئی مزاحمت نہیں دکھائی لیکن جس طرح میں نے پہلے کہا کہ یہ مسئلہ صرف ایک مخصوص گروہ کا نہیں، بلکہ تمام مسلم ممالک کا ہے۔ او آئی سی سمیت دیگر تمام اداروں کو چاہیئے کہ وہ اس ضمن میں اپنا مثبت کردار نبھائے۔

اسلام ٹائمز: چند مخصوص عرب ممالک اس ظلم و جبر میں مظلوم فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی بجائے اسرائیل کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں۔؟
حافظ حمداللہ: آج پاکستان، افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور مصر سمیت کسی بھی مسلم ملک میں آپ دیکھیں تو کسی کو یقین نہیں‌ ہو گا کہ آیا یہ وہی مسلم امہ ہے کہ جسکو رسول اکرم (ص) نے کہا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ یعنی جسم کے کسی بھی حصے میں کوئی زخم ہو جائے تو پورا جسم اسکی بہتری کیلئے اقدامات کرتا ہے لیکن یہاں پر حالات بالکل اسکے برعکس ہیں۔ اسکے علاوہ عرب ممالک میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے انتہائی بےحسی کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ جس طرح مصر میں اخوان المسلمون کی عوام دوست حکومت کا تختہ الٹا گیا، اسکے بعد وہاں پر فوجی آمر سے یہی توقع کی جا سکتی ہے۔ اسکے علاوہ مشرق وسطٰی کے چند دیگر ممالک بھی اپنی ذاتی مفادات کو مسلمہ امہ کے مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں، جو کہ انتہائی غلط ہے۔ تقسیم در تقسیم ہونے کی بجائے ہمیں صہیونی ظلم و جبر کیخلاف متحد ہو کر لڑنا ہو گا۔

اسلام ٹائمز: کیا اقوام متحدہ کا اپنے حالیہ بیان میں اسرائیل کی بجائے فلسطین کو تنقید کا نشانہ بنانا، ادارے کے دوہرے رویہ کی نشاندہی نہیں کر رہا۔؟
حافظ حمداللہ: اقوام متحدہ ہمیشہ سے ظالموں کا ساتھ دیتی چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے باقاعدہ سیز فائر کا حکم بھی دیا ہے جبکہ سیز فائر وہاں پر کروائی جاتی ہیں، جہاں پر حملے دونوں جانب سے جاری ہوں لیکن یہاں پر صرف اور صرف یکطرفہ حملے اسرائیل کی جانب سے کئے جا رہے ہیں۔ اپنے جہازوں، ٹینکوں اور دیگر خودکار ہتھیاروں سے اسرائیل فلسطینی عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کا کردار منافقت پر مبنی نہ ہوتا، تو اب تک فلسطین کا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کس حد تک ممکن ہے۔؟
حافظ حمداللہ: پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کریں۔ وزیرستان میں موجودہ طالبان کیساتھ کس طرح ڈیل کرنا تھا، یہ تو حکومت ہی کی ذمہ داری تھی۔ سب سے پہلے جس طرح مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا، وہ سب کے سامنے آیا ہے۔ طالبان کیساتھ مذاکرات کیلئے اعتماد کی کمی اور غیر سنجیدہ حکومتی قیادت کی وجہ سے ریاست کو ان کیخلاف آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا۔ آپریشن کیلئے انہیں آئی ڈی پیز کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے تھا، لیکن حکومت ابھی تک شمالی وزیرستان کے متاثرین کو بنیادی ضروریات دینے میں ناکام رہی ہیں۔ اگر آپ اپنے شہریوں کیساتھ ایسا سلوک کرینگے، تو دہشتگردی میں کمی کیسے واقع ہو سکتی ہے۔؟

اسلام ٹائمز: کیا تحفظ پاکستان آرڈیننس ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔؟
حافظ حمداللہ: یہ ایک انتہائی کالا قانون ہے۔ ہم نے شروع دن سے اسکی بھرپور مذمت کی ہے۔ تحفظ پاکستان بل سے ملک میں استحکام نہیں، بلکہ ریاستی اداروں کو قانون کی دھجیاں اُڑانے کا موقع ملے گا۔ کسی بھی شہری کو بغیر تفتیش کے پکڑنے اور مارنے کا حق کوئی بھی نہیں دیتا۔ اس سے قبل بھی بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ اب تک بند نہیں ہوا۔ بلوچ اب بھی اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ لہذٰا اس بل کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عراق میں جاری داعش کی دہشتگردی سے خطے میں کونسے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔؟
حافظ حمداللہ: عراق میں بھی مغربی قوتیں اپنی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اسلام کبھی بھی اسلحے اور بارود کی بات نہیں کرتا۔ کہیں بھی اپنے حقوق کی جنگ کے بہانے ہتھیار اُٹھانا غلط بات ہے۔ عراق کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہاں پر آباد تمام مسالک و قومیت کے لوگوں کو اکھٹا کرکے روشن مستقبل کی جانب بڑھایا جائے۔ کسی بھی حکومت کے اہلکار چاہے وہ شیعہ، سنی یا کرد، کوئی بھی ہوں، سب کو چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ اگر سیاسی و مذہبی قوتوں نے وہاں پر اتحاد و اتفاق سے کام نہیں لیا، تو عراق کا مستقبل بھی انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جمعۃ الوداع کو اسرائیلی جارحیت کیخلاف آپکی جماعت کی جانب سے کونسے پروگرامز منعقد کئے گئے ہیں۔؟
حافظ حمداللہ: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ یا پوری انسانیت کا ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان دوست شخص کو چاہیئے کہ وہ اسرائیلی دہشتگردی کیخلاف آواز بلند کرے جبکہ پاکستان کو بھی ریاستی سطح پر اسکے خلاف اقدامات کرنا ہونگے۔ میاں نواز شریف صاحب کو چاہیئے کہ وہ مذمتی بیان کے علاوہ دیگر سفارتی و حکومتی اقدامات بھی کرے۔ اسکے علاوہ ہماری جماعت بھی جمعۃ الوداع کو بیت المقدس اور معصوم فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کریگی اور عوام سے استدعا ہے کہ وہ تمام ایسے پروگرامز کا بھرپور ساتھ دیں۔
خبر کا کوڈ : 400063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش