4
0
Sunday 27 Jul 2014 11:25

خاموش اکثریت

خاموش اکثریت
تحریر: سید قمر رضوی
qamaraza@gmail.com


عراق کے شہر موصل میں واقع پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کے مزار کو داعش کے دہشتگردوں نے دھماکے سے تباہ کر دیا۔
عرشِ الٰہی پر لرزہ برپا کر دینے والا یہ واقعہ زمین پر بسنے والوں کے لئے یک سطر خبر سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس سے قبل بھی اسی طرح کی یک سطری خبریں مسلمانوں کی سمع خراشی کرتی رہی ہیں جسمیں حضرت شیثؑ، حضرت عمار یاسر، حضرت اویس قرنی، حضرت خالد بن ولید اور حضرت حجر بن عدی رضوان اللہ علیہم کے مزارات کو تاراج کرنے کے دلدوز واقعات شامل ہیں۔ دلدوز واقعات شاید خدا کی اس مخلوق کے لئے ہوں، جسے خدا نے دل دیا ہی نہیں لیکن دل نامی گوشت کا لوتھڑہ رکھنے والی مخلوق پر ان سانحات کا کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کی تاریخ تو ایسے ہی واقعات سے عبارت ہے کہ جن کے بارے میں جان کر اول مسلمان اور پھر انسان ہونے پر شرم آتی ہے۔

خدا برا کرے اس تاریخ کا جو بتاتی ہے کہ خدا کے مقرب اور قیمتی ترین بندوں کو جھٹلا کر، انکی تذلیل و تضحیک کی جاتی رہی اور انہیں شہادت کی وادی میں اتارا جاتا رہا، لیکن مسلمان کا رویہ ایک تماش بین سے زیادہ کا نہ رہا، کہ مسلمان کی لغت میں مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جو عبادت نامی چند رسومات کی بجاآوری میں پابندی سے مشغول رہتا ہو۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے مقرب بندوں کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہو تو مسلمان، مسلمان ہی کی برپا شدہ اس آتشیں قیامت کے ھنگام میں اپنے حجروں میں چھپے اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کسی صحرا میں کوئی وحشی درندہ تنہا بہروپ بدل کر آجائے اور اپنے مکروہ چہرے سے نقاب الٹے تو سینکڑوں مسلمان اپنے چوغے تر کرتے ہوئے الٹے پیروں اپنے گھروں کو بھاگ کر دروازے مقفل کرکے دل کشادہ کرنے والی دعاؤں کے ورد میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
 
کسی دشت میں وجہِ تخلیقِ کائنات خاندان کو تہہِ تیغ کردیا جائے تو مسلمان لاتعلق ہی رہتا ہے۔ کبھی کسی نمائندہء خدا  کا سر نوکِ سناں پر تلاوت کر رہا ہو تو مسلمانوں کو  گھروں کے اندر قرآن خوانی برپا کرنے کا ثواب زیادہ متوجہ کرتا ہے۔ کبھی کہیں عفت مآب بی بیاں بے کجاوہ اونٹوں کی کوہانوں پر بے ردا سجدہ ہائے نمازِ شب ادا کر رہی ہوں تو مسلمان اپنے آرام دہ گھروں میں نمازِ تہجد کی ادائیگی کو ترجیح دیتا ہے۔ وارثانِ کعبہ کا قافلہ زنجیروں اور رسیوں میں جکڑا ہوا کسی زندان میں پڑا ہو تو مسلمان کو صرف طوافِ کعبہ سے ہی غرض رہتی ہے۔ کبھی کسی خلیفۃ اللہ کا جنازہ کسی پُل پر تین روز تک پڑا رہے تو جنت کے متلاشی کسی مسلمان میں اتنی جرآت نہیں ہوتی کہ وارثِ جنت کے لاشے کو دفنا کر جنت کا مالک بن جائے۔ ۔۔۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ بات چند دنوں سے بڑھ کر مہینوں، مہینوں سے بڑھ کر سالوں اور سالوں سے بڑھ کر صدیوں تک جا پہنچی، لیکن مسلمان کے رویئے میں رتی برابر فرق نہ آیا۔ آج بھی اسلامی دنیا کے طول و عرض میں مظلوم و بے گناہ انسانوں کے اوپر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ آج کے دور کے قیمتی ترین انسان جو انسانیت کے لئے اثاثہ ہیں، راہ چلتے راہِ شہادت پر گامزن کروا دیئے جاتے ہیں۔ انسانی صورت میں انسانیت کے لئے سرمایہ یہ افراد ڈاکٹر، انجینئیر، وکیل، جج، اساتذہ، افسران، فوجی، رضاکاران، دوکاندار اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اپنی ذمہ داریاں بعنوانِ عبادت انجام دے رہے ہوتے ہیں کہ اچانک سے ثقیفائی قوتوں کا نشانہ بن کر دارِ ابدی کی جانب کوچ کر جاتے ہیں۔ انکی شہادت کی یک سطری خبر لمحوں کے لئے گردش میں آتی ہے اور گردشِ ایام میں کہیں کھو جاتی ہے کہ آج کا مسلمان بھی چودہ صدیوں قبل کے مسلمان کی مانند اپنی انفرادی و اجتماعی عبادات کی رسومات کی ادائیگی میں مصروف ہے، کیونکہ عبادت کا مفہوم جو اسکی فہم کا حصہ بن سکا، وہ  محض وقت کے مخصوص حصوں میں چند مخصوص حرکات و سکنات کی ادائیگی ہی تھا۔ اسکی ساری توجہ اس  غیر مرئی ثواب کی جانب مرکوز ہے کہ جسکی اصل صورت نجانے وہ دیکھ بھی پائے گا کہ نہیں!

ثقیفہ ہو، شام کی غاصب سلطنت ہو، دارالامارہ میں بیٹھے دہشت گرد ہوں یا آج کا داعش، طالبان، سپاہِ صحابہ یا کسی اور نام کا سہارا لئے دفترِ ابلیس۔ ۔۔ سب کا ایک ہی نعرہ، ایک ہی کام اور ایک ہی طریقہء واردات۔ ۔۔ یعنی مسلمان کے روپ میں اسلام کا خاتمہ۔ خدا کے مقرب اور مظلوم بندوں کو قتل کرنا، انکے سر کاٹنا، انکے اعضا کی بے حرمتی کرنا، انکی ناموس کو بے توقیر کرنا، اس حزب الشیطان کے پسندیدہ ترین کام ہیں۔ ازل سے موجود اس مٹھی بھر ٹولے کی اتنی جرآت کہ لاکھوں، کروڑوں اور اب اربوں انسانوں میں سے چن چن کر ان ہستیوں کو نشانہ بنانا جو خدا کی بنائی اس دنیا میں خدا کے بنائے ہوئے انسانوں کی فلاح اور بہتری کے لئے مصروفِ عمل ہوں، ایک ترنوالہ حلق کے پار اتارنے سے بھی زیادہ سہل ہے۔

ہاں۔ بہت آسان۔ کیونکہ ایک اکثریت کی خاموش تائید نے ثقیفہ کو جنم دیا۔ ثواب کی متلاشی اسی اکثریت کی خاموشی خانہء سیدہؑ کی تاراجی کا باعث بنی۔ ابنِ زیاد کے گھوڑے کی ایک ہنہناہٹ پر سینکڑوں لبیک کہنے والے الٹے پیروں دوڑ گئے۔ دشتِ کربل میں خانوادہء رسالت کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا گیا اور مشرق و مغرب میں پھیلے مسلمان اپنی عبادتوں کی درستگی میں مصروف رہے۔ نواسہء رسولؑ کا سر نوکِ نیزہ پر تلاوت کرکے مسلمانوں کو متوجہ کرتا رہا جبکہ ایک اکثریت اپنے گھروں میں اپنی تجوید و قرآت پر توجہ دیتی رہی۔ رسول زادیوںؑ کو قید کرکے بازاروں اور زندانوں کی نذر کیا جاتا رہا اور مسلمانوں کی اکثریت اپنی نذر میں مصروف رہی۔ ستونِ کعبہ سے زیادہ محترم وارثِ کعبہ ؑکے پیروں کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور مسلمان غلافِ کعبہ کو پکڑ کر ثواب حاصل کرتے رہے۔ ایک ملعون اقلیت کے ہاتھوں سینہء زمین پر خدا کی افضل ترین نعمت زندان میں بے دردی سے شہید ہوگئی۔ بعد ازاں اسکے لاشے کو بغداد کے پُل پر دھر دیا گیا۔۔۔ لیکن مسلمان اکثریت۔۔۔۔ ثواب و جنت کے ادھیڑ بن میں ہی غلطاں رہی۔

اقلیت کی اس چیخم دھاڑ اور اکثریت کی پُرخوف خاموشی کا سفر آج بھی اسی رفتار سے جاری ہے۔ دنیا کے طول و عرض میں معصوم اور قیمتی لوگوں کو کمالِ تسلی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انکے لاشوں کو احد و کربلا کی مانند بے حرمت کیا جا رہا ہے۔ انبیاء، اصحاب، اولیاء اور شہداء کی قبور کی تاراجی کے ساتھ ساتھ انکے جسد ہائے خاکی کی بھی توہین کی جا رہی ہے۔ (استغفراللہ ربی واتوب الیہ)۔  اور اکثریت کا رویہ۔۔۔ سحر، افطار، تراویح، شبینہ، عمرہ۔۔۔ کہ ماہِ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک نیکی ستر گنا بڑھ جاتی ہے۔ سحر کرنے کا اتنا ثواب کہ جنت میں سو سال کی مسافت جتنی جائیداد۔ افطار کا اتنا ثواب کہ سحر کا ثواب اسکے سامنے کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ ایک حرف قرآن کا ثواب عام دنوں کے پورے قرآن کے ثواب پر بھی بھاری۔۔۔۔ تو کیوں نہ ایک ایک شب میں ایک ایک قرآن فرفر کیا جائے اور عمرہ۔۔۔ کعبۃ اللہ کا طواف، اسکے غلاف کو تھام کر جنت طلب کرنا گویا جنت کو خرید لینے کے مترادف ہے۔

لیکن بدنصیب مسلمان اکثریت کو کون سمجھائے کہ مظلوموں کے قتلِ عام، مزارات کی شہادت اور لوٹ مار پر اپنے گھروں سے نکلنے کی بجائے خاموش رہ کر اپنی عبادتی رسومات میں مصروف رہنا دراصل اس قتلِ عامِ مظلومین، مقدسات کی تاراجی اور لوٹ مار میں برابر کا حصہ دار ہونے کے مترادف ہے۔ رسولِ اکرمؑ کے فرمان کے مفہوم کے مطابق مسلمین کے امور کے بارے میں لاتعلق اور خاموش رہنا دراصل کفر کی جانب سفر طے کرنا ہے۔ اس لحاظ سے ایک کافر کا نمازیں، روضے اور عمرے ادا کرنا چہ معنی دارد؟ کاش یہ خاموش اور لاتعلق اکثریت گھروں سے نکل پڑتی تو نہ ہی ثقیفہ جنم لیتا اور نہ ہی خانہء سیدہؑ کو آگ لگتی۔ اسی ڈرپوک اکثریت میں سے دو جوان ہمت کرکے ابنِ زیاد کی ٹانگ کھینچ کر زمین پر گرا دیتے اور چار جوان ایک ایک ٹھوکر ہی مار دیتے تو کربلا برپا ہونے سے بچ سکتی تھی۔ قرآن خوانی کے ثواب کے متلاشی اگر گھروں نکل کھڑے ہوتے تو رسول زادیوںؑ کا پردہ قطع نہ ہوتا۔ کعبے کا طواف کرنے والے اگر طواف کی حقیقت سے آشنائی حاصل کرلیتے تو وارثِ کعبہ کے پیروں میں زنجیر نہ پہنائی جاتی۔ اگر مجرم اکثریت کو اپنے ثواب کی گنتی کی فکر نہ ہوتی تو نہ ہی حجتِ خدا کو قید ہوتی اور نہ ہی اسکا لاشہ پُل پر پڑا رہتا۔

اگر اکثریت بیدار ہوتی تو نہ بقیع تاراج ہوتا۔ آج  اویس قرنی، عمارِ یاسر،  حجر بن عدی، خالد بن ولید اور  یونس و شیثؑ کے مزارات کی طرف کسی ملعون کی ناپاک نگاہ نہ اٹھتی۔ شام و سامرہ کی جانب پیش قدمی کرنے والے ناپاک قدم وہیں منجمد ہوگئے ہوتے۔ مسلمان اکثریت خوابِ غفلت میں غلطاں ہے اور ملعون اقلیت کے اگلے قدم اب ۔۔۔۔ خاکم بدہن۔ ۔۔۔۔خدایا! ہمیں بیدار فرما اور ہمارے باقی ماندہ مقدسات کو ہماری جانوں کے عوض محفوظ کرکے ہماری آخرت کو ضائع ہونے سے بچا۔ آمین یا رب العالمین۔
خبر کا کوڈ : 401766
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Bohat Ala. Kash kay is tahreer ka maqsad pura ho sakya. Is purhol waqt mai kia Eid aur kia tahwar. kay Muslim Umah ko aik jism say tashbeeh di gae kay agar aik hisay mai zakhm ho to pura jism takleef mehsoos karay per aj bhi iftar dinners kay shor auri gehma gehmi mai koi is per kan dhernay ko tayyar nahi. Afsos sad afsos... h
United Kingdom
Excellent piece of writing as usual
جزاک اللہ برادرم
آپ نے اُس جرم پر قلم اُٹھایا ہے جس کا مجرم خود اس جرم کی سنگینی سے بے خبر ہے، حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے خوف سے ظلم پر آواز بلند نہ کرکے عاقبت تو خراب ہوگی ہی دنیا بھی برباد کر دے گی۔ پروردگار خاموش مجرموں کو بھی نِشان عبرت بنا دیتا ہے۔ خدا ہم سب کو اصل عبادت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
bitter truth....
ہماری پیشکش