4
0
Thursday 24 Apr 2014 22:32

طالبان نواز کمیٹیوں کا اجلاس!

طالبان نواز کمیٹیوں کا اجلاس!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

تاریخ سے سبق سیکھنے والے لازماً تاریخی واقعات، تجربات اور خدشات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کرتے ہوں گے۔ ہم تاریخ کو مگر ذہنی آسودگی یا دوسروں کے لیے اذیت کاری کا ایک حسیں سبب سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے مقصد کے واقعات سے اپنی پسند کے نتائج اخذ کرکے اپنے تئیں عہدِ جدید کے بڑے فلاسفر اور سیاست کار بن جاتے ہیں۔ سچ بات مگر یہی ہے کہ ریاستیں جب دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کی طرف سے کی جانے والی پروپیگنڈہ مہم کے سامنے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کا شکار ہونے لگتی ہیں تو اس کا نتیجہ ہمیشہ غیر ریاستی عناصر کے حق میں ہی نکلتا ہے۔ بارہا لکھا، مکرر عرض ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے جبکہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان والے اپنے مقصد کے حوالے سے یکسو، وہ کل بھی حملے کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ البتہ کل اور آج میں ایک فرق یہ آیا کہ پہلے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان والے براہِ راست دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے تھے لیکن طالبان کی طرف سے ’’جنگ بندی‘‘ کے بعد ہونے والے حملوں کی ذمہ داری احرار الہند اور انصار المجاہدین وغیرہ قبول کرنے لگے ہیں۔ یہ مگر کون لوگ ہیں؟ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ونگ۔ یہ امر ظاہر ہے کہ جب بھی کوئی ریاست غیر ریاستی عناصر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہے تو ہمیشہ غیر ریاستی عناصر، اپنی بات منوانے کے لیے اپنی انہی سرگرمیوں میں تباہ کن تیزی لاتے ہیں جن سرگرمیوں کی وجہ سے ریاست انھیں اپنا باشندہ تسلیم کرنے کے بجائے ان کے لیے ’’غیر ریاستی عناصر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ کالعدم تنظیمیں بنیادی طور پر انہی غیر ریاستی عناصر کا مجموعہ ہوا کرتی ہیں۔

مذاکرات کی’’چلہ کشی‘‘ کے فوراً بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے شاعرانہ سے نام والے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا بیان سامنے آیا کہ ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات کے تو خواہاں ہیں، مگر اب ’’فائر بندی‘‘ نہیں ہوگی، یعنی اس کا سادہ مطلب کہ اب کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان والے خودکش حملے اور دھماکے کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ داری بھی قبول کریں گے۔ چالیس روزہ فائر بندی کہ جسے طالبان اور ’’ایٹمی ریاست پاکستان‘‘ کے درمیان جنگ بندی کا نام دیا جا رہا ہے، کے بعد حکومت کو طالبان کے ترجمان کے بیان پر تحفظات ہوئے، مگر ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر ابراہیم بھی طالبانی ترجمان کے بیان پر افسردہ دکھائی دیئے۔ یاد رہے کہ یہ اسی جماعت اسلامی کے اہم رہنما ہیں جس کے سابق امیر منور حسن شاہد اللہ شاہد کی طرف سے دہشت گردی کی قبول کی گئی کارروائیوں پر کہا کرتے تھے کہ شاہد اللہ شاہد کوئی فرضی نام ہوگا، اصل میں یہ کارروائیاں بھارت اور امریکہ و اسرائیل کروا رہے ہیں۔

خواجہ حیدر علی آتش کا مصرعہ کہے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ کیا جمہوری حکومتوں کی ایسی مجبوریاں بھی ہوا کرتی ہیں کہ وہ جمہور کا تحفظ کرنے کے بجائے کسی فرقے اور گروہ کے ایجنڈے کی ترجمان بنتی چلی جائیں؟ میڈیا بلاشبہ ایک طاقتور صنعت کی طور پر سامنے آیا، لیکن ملائیت اس صنعت سے بھی بڑھ کر ایک گینگ ہے۔ جی ہاں گینگ، جس کے سامنے حکومتیں اور ریاستیں بھی سر اٹھا کر چلنے سے گریز پا ہیں، ورنہ دہشت گردوں کے حمایتیوں کو اگر پہلے سبق سکھایا جائے تو فتنہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ ستم اور کس شے کا نام ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنے 31 دہشت گرد ساتھی چھڑ وا لیے اور کہنے لگے کہ چھوڑے گئے بندے ہمارے نہیں؟ دہشت گردوں کی آپس کی لڑائی پر ان کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ پورے پاکستان کو ’’اماراتِ اسلامیہ الباکستان‘‘ بناتے ہوئے ’’اماراتِ اسلامیہ الہند‘‘ بنانے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں۔ 

مذاکرات میں ڈیڈ لاک نامی کیا چیز ہے؟ اور کس بات پر ڈیڈ لاک؟ دہشت گرد اپنی عسکری طاقت تسلیم کرا چکے ہیں، اب وہ اپنی سیاسی طاقت کا اظہار اپنی کمیٹیوں کے ذریعے کر رہے ہیں۔ اعتماد کی بحالی کے لیے جس ’’پیس زون‘‘ کا مطالبہ دہشت گردوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے، دراصل ایک ایسے خطہ اراضی کو حکومتِ پاکستان سے تسلیم کرانا ہے جس پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی’’رٹ‘‘ کو تسلیم کرتے ہوئے ’’ایٹمی ریاست‘‘ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان والوں سے ہمسایہ مملکت جیسا رویہ اپنائے اور ان کی ’’رٹ‘‘ والے علاقے میں مداخلت کو طالبان ’’سرحد پار‘‘ سے مداخلت کہہ کر پشاور کے راستے اسلام آباد کی طرف پیش قدمی جاری رکھیں۔

کالعدم تحریکِ طالبان والوں کی وحشت ناکی اور ان کے ایجنڈے کو سمجھنے کے لیے افلاطونی فکر کی چنداں ضرورت نہیں، حکومت ان کے 31 ’’غیر عسکری دہشت گرد‘‘ رہا کرچکی ہے، لیکن کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے حکومت کی طرف سے پیش کردہ فہرست میں سے ایک مغوی بھی رہا نہیں کیا۔ دونوں جانب سے چلی جانے والی سیاسی چالوں کو سمجھنے کے لیے یہ ایک ادنٰی مثال ہے۔ طالبان نے جنگ بندی کی ’’چلہ کشی‘‘ کے بعد مزید حملے کرنے کا اعلان کرکے دراصل ریاست پر دباؤ بڑھایا ہے۔ ریاست کا رویہ اگر فدویانہ قسم کا نہ ہو تو کسی بھی مسلح دہشت گرد گروہ کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ریاست کو جب چاہیں اپنی مرضی و منشا کے مطابق نہ صرف مذاکرات پر مجبور کرتے رہیں بلکہ اپنی مرضی و پسند کے افراد کمیٹیوں میں شامل کرواتے رہیں۔ ماضی قریب میں ہم دیکھتے ہیں کہ سری لنکن ریاست، جو ’’ایٹمی‘‘ بھی نہیں ہے، اس نے غیر ریاستی عناصر کو ریاستی طاقت سے شکست دے کر یہ ثابت کر دیا کہ ریاست جیسے بھی مسائل کا شکار ہو، اگر وہ اپنی طاقت سے غیر ریاستی عناصر کے ایجنڈے کو رد کرے تو اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ بات مگر یقین کی ہے۔

حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا ’’تازہ‘‘ اجلاس ہوا تو اس میں جنگ بندی میں توسیع اور مذاکراتی عمل پر اتفاق کیا گیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا جنگ بندی یا امن، ایسی کمیٹیوں کے اختیار میں ہوتا ہے؟ کمیٹیاں تو کسی محلے کا معمولی سا پیچیدہ مسئلہ بھی حل نہیں کر سکتیں، وہ ایک فتنے سے ریاست کی جان کیسے چھڑائیں گی؟ جس نے ایٹمی ریاست کو زخم زخم کیا ہوا ہے۔ اس اجلاس کی دلچسپ بات یہ ہوئی کہ موجودہ کمیٹیاں ایک ایسی کمیٹی کو ’’جنم دینے پر راضی ہو‘‘ گئی ہیں جو طرفین کی شکایات کا ازالہ کرے گی۔ غالب کو آواز دیے بغیر چارہ نہیں۔
’’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘
اب یہ کھیل مزید جاری نہ رہ سکے گا، مذاکرات مذاکرات کی اس دلجوئی میں فائدہ دہشت گردوں کا ہی ہو رہا ہے، اور ریاستی تحفظ کے ذمہ دار ادارے اس کا شدت سے احساس بھی کر رہے ہیں۔

بدھ کو آمی چیف نے سوات و دیر میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج کا عزم پختہ ہے۔‘‘ اس عزم کا اظہار جمعرات کی صبح خیبر ایجنسی میں، دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جنگی طیاروں کی بمباری سے ہوا، امن پسند شہریوں کو توقع کرنی چاہیے کہ فورسز دہشت گردوں کو ان کے برے انجام سے دوچار کرکے ہی چھوڑیں گی۔ آخری تجزیے میں ریاستیں خس و خاشاک نہیں ہوا کرتیں، جو ’’غیر ریاستی‘‘ عناصر کے دباؤ کا شکار ہو کر دہشت و وحشت کے کسی خوفناک طوفان میں بھگولے کی صورت اڑ جائیں۔ کالعدم تنظیموں کے ساتھ ساتھ ان کے رفاقت کاروں کا بھی ایسا ہی بندوبست ہونا چاہیے، جیسے بندوبست کے مستحق غیر ریاستی عناصر ہیں۔ اسی میں ریاست کی بقا ہے۔
خبر کا کوڈ : 376152
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
well done bahi ji
Oman
mujhy samajh ni ati lafz jang k bary kia pakistan bahseat aik mulk k gali k chand tuchy ghundon k sath jang kar raha hy ager aisy bat hy to myry muhalay myn bhi kuch ghundy hyn myn soch raha tha k atmi qowat k un se muzakrat karwa don ta k mulak aik aur jang se bach jay
Japan
Great Yashin Saab Ajj kal Kay daour mien app nay Jo kuch likha nahiet Jurat mandana tahreer hai aor Aor app ka vision ka belay tahseen hai. YEH Jurat HIMAT Allah KARAY hamary leaders mien aa jaay aor YEH Mazak raat band hou
United States
very nice
ہماری پیشکش