0
Thursday 17 Apr 2014 18:58

بجلی چوری کرنیوالے مجاہد بھی اور چور بھی

بجلی چوری کرنیوالے مجاہد بھی اور چور بھی
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

لوڈشیڈنگ کے مارے عام شہری یہ سمجھتے ہیں کہ جو چیز دستیاب ہی نہیں وہ چوری کیسے ہو سکتی ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ 2010ء کی عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان بجلی چوری کرنے والے ممالک کی فہرست میں 23ویں نمبر پر تھا، 2011ء کے دوران 131 ممالک میں سے پاکستان 14ویں اور اب بجلی چوری کے حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ جب سے نئی حکومت آئی ہے بجلی چوری بند تو نہیں ہوئی لیکن مہنگی ضرور ہو گئی ہے۔ البتہ بجلی کے وفاقی وزیر عابد شیر علی کے شور سے پاکستانی عوام کو یہ یقین ہو رہا ہے کہ پاکستان میں بجلی چوری عوام کم اور سیاستدان زیادہ کرتے ہیں بلکہ وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزراء بجلی چوری میں ملوث ہیں۔

وفاقی وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں صوبائی حکومت کو بجلی چور کا طعنہ دیا اور ساتھ ہی صوبائی حکومت کو چوروں کی سرپرستی کے لئے ذمہ دار بھی ٹھہرایا اور صوبے کے 11  فیڈرز پر مکمل طور پر بجلی بند کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ ہنگو سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی خیال زمان اورکزئی نے خود اعتراف کیا کہ ان کے حلقے میں 90 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے.

ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بجلی چوری پنجاب اور پھر سندھ میں ہو رہی ہے اسکے بعد خیبر پختونخوا کا نام آتا ہے لیکن چونکہ پنجاب میں خود نون لیگ کی حکمرانی ہے اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی ناراضگی کے ڈر سے وفاقی حکمران کچھ کہہ نہیں سکتے لہٰذا وہ اپنا غصہ دوسرے صوبوں کے عوام اور اپوزیشن کے سیاستدانوں پر نکالتے ہیں۔ جس سے اپوزیش کا اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر وفاقی حکومت واقعی بجلی چوری روکنے میں مخلص ہوتی تو پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں بھی بجلی چوروں کے خلاف کارروائی ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا، جس کی وجہ سے صوبے کے عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ مرکز خصوصاً پنجاب ان کے حقوق پر نہ صرف ڈاکہ ڈال رہا ہے بلکہ اس صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک بھی روا رکھ رہا ہے یہ حکومتی ناقص انتظام کا ثبوت ہی ہے کہ اگر ایک فیڈر پر ہزار میں سے پانچ سو صارفین بجلی چوری میں ملوث ہیں اور باقی پانچ سو صارفین باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں تو مذکورہ فیڈر کی بجلی بند کرکے بل ادا کرنے والے صارفین کے ساتھ کیا انصاف کیا جا رہا ہے۔

بات اب دوسرے صوبوں سے ہوتے ہوئے پنجاب تک آ پہنچی ہے لیکن یہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ بجلی چوری کا الزام لگایا جا رہا ہے بلکہ رکن قومی اسمبلی جمشید احمد دستی نے بجلی چوری کرنیوالوں کیطرف سے انتظامیہ پر حملے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بجلی مہنگی ہو اور کسی کو انصاف نہ مل رہا ہو تو پھر بجلی چوری کرنا ثواب ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمشید دستی نے کہا کہ فورٹ منرو کے عوام نے میپکو اہلکاروں کو یرغمال بنا کر درست اقدام اٹھایا، بجلی آتی نہیں لیکن 50، 50 ہزار روپے کا بل آتا ہے جب کہ وڈیروں کو چھوڑ کر بلوں کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور بل کی عدم ادائیگی پر انہیں پولیس پکڑتی ہے جس کے باعث بجلی کی چوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جمشید دستی نے یہ بھی کہا کہ عوام کو چاہیئے کہ ان دہشت گرد حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو جائیں، جب اتنی بڑی زیادتی ہو رہی ہے تو لوگوں کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے نکلیں۔

جمشید دستی کے اس بیان پر مذہبی اسکالر مفتی عبدالقوی کا کہنا ہے کہ چوری، چوری ہوتی ہے اور شریعت ہمیشہ وہ بات کرتی ہے جو انسانی عقل اور حکمت کے عین مطابق اور قریب تر ہو۔ انہوں نے چوری کو ہر صورت میں چوری قرار دینے کے ساتھ ہی کہا کہ جمشید دستی کے کچھ اقدامات مجاہدانہ ہیں اور گفتگو سے لوگوں کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن وہ مفتی بننے کی کوشش نہ کریں، شریعت اسلامیہ میں اس معاملے میں جو اصول اور قواعد و ضوابط ہیں ان کی ایک حقیقت ہے، چور، چور اور ڈاکو، ڈاکو ہی ہوتا ہے لہذا جو شخص بجلی چوری کرے گا وہ پوری قوم کا مجرم ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے چوروں کے زمرے میں شامل کرنے کے باوجود انکے مجاہدانہ کردار کی تعریف کی، کیا ایک ہی شخص کے دو چہرے قابل قبول ہیں؟ ایک طرف حکمران اور سیاستدان اور دوسری طرف عوام چوری کو اپنی مجبوری قرار دیتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ناانصافی، بدعنوانی، بجلی چوری سمیت ہر قسم کی ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 373922
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش