0
Friday 4 Apr 2014 08:42

امریکہ اور القاعدہ، طیارہ شکن ہتھیار دینے کا وعدہ

امریکہ اور القاعدہ، طیارہ شکن ہتھیار دینے کا وعدہ
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


نائن الیون کے بعد سے آج تک دنیا کو صرف یہی بتایا اور دکھایا گیا ہے کہ امریکہ دنیا میں القاعدہ نامی دہشت گرد جماعت کا سب سے بڑا دشمن ہے، جو القاعدہ کے تمام عہدیداروں اور رہنمائوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے امریکی حکومت نے نائن الیون کے فوری بعد افغانستان پر حملہ کیا، پھر اس کے بعد عراق کو تہس نہس کیا گیا، بالآخر امریکہ نے پاکستان میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن نامی القاعدہ اور طالبان رہنما کو بھی قتل کر کے ہی دم لیا، امریکہ نے صرف یہیں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ مشرق وسطٰی میں لیبیا، یمن، سمیت دیگر ریاستوں پر بھی حملہ آور ہوا اور آج بھی جنوبی ایشائی ممالک سمیت مشرق وسطٰی کے ممالک میں امریکی ڈرون آزادی سے دوسرے ممالک کی خود مختاری کو پائمال کرتے پھرتے ہیں اور جہاں دل چاہتا ہے بھاری بم گرائے جاتے ہیں اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ معصوم انسانوں کا قتل عام جاری ہے، پاکستان بھی انہی بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے۔ بہر حال پوری دنیا کو یہ تاثر دیا گیا کہ امریکہ القاعدہ نامی ایک دہشت گرد گروہ کا سب سے بڑا دشمن ہے اور دنیا میں امن و امان کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ القاعدہ کا خاتمہ کر دیا جائے، تاہم اس بات کو سامنے رکھ کر امریکہ نے نہ جانے کتنے ہی لاکھوں معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلانے سے بھی گریز نہ کیا، غرض یہ کہ پوری دنیا میں ایک عالمی جنگ کا آغاز کر دیا گیا اور اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنوان دیا گیا، جس جنگ میں پاکستان آج تک جل رہا ہے۔

امریکہ کو شاید القاعدہ کا خاتمہ کرنے کا مقصد حاصل ہوا ہو یا نہ، لیکن یہ بات بڑی واضح ہے کہ امریکہ نے جہاں ایک طرف القاعدہ کے افراد کو قتل کیا ہے، وہاں القاعدہ کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت بھی جاری رکھی ہے۔ خود مغربی ماہرین سیاست نے امریکہ پر متعدد مرتبہ تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکہ دنیا کو دھوکے میں نہ رکھے اور القاعدہ جو خود امریکی اتحادی ہے، اس کے جھانسے میں پوری دنیا کو آگ میں نہ جھونکا جائے۔ امریکہ اور القاعدہ کی دوستی کی ایک اہم مثال خود پاکستان میں موجود القاعدہ کی شاخ یا ان سے منسلک گروہ ہیں، جن کو پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، ماضی میں سوویت یونین کو تقسیم کرنے اور نقصان پہنچانے کے لئے امریکہ نے پاکستان کی مدد سے ان گروہوں کو افغانستان بھیجا، جس کے بعد جہاد افغانستان کا نیا باب شروع ہوا اور نتیجے میں بالآخر روس کو شکست ہوئی اور دنیا ایک مرتبہ پھر یونی پولر نظام کی طرف چلی گئی اور طاقت کا مرکز و محور امریکہ کی طرف مرتکز ہوگیا۔

دور حاضر میں بھی امریکہ کے پاس القاعدہ ایک ایسا بہانہ ہے کہ جس کی بنیاد پر امریکہ جہاں چاہتا ہے اور جس ملک پر چاہتا ہے فوجی یلغار کرنے سے دریغ نہیں کرتا ہے، اور اسی طرح تنظیم کے جس رہنما کو راستے سے ہٹانا ہو، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں پناہ لئے ہوئے ہو، اپنے مقامی ایجنٹوں اور آپسی لڑائیوں کے ذریعے نہیں تو پھر ڈرون حملوں میں اور فوجی آپریشن میں قتل کروا دیتا ہے۔ اسی طرح اب تک امریکہ نے جہاں لاکھوں بے گناہ انسانوں کا قتل عام صرف اس بنیاد پر کیا ہے کہ جس کے پیچھے بنیاد القاعدہ تھی، وہاں القاعدہ کے ہی درجنوں یا شاید سینکڑوں رہنمائوں کو حملوں میں قتل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بارے میں اب مغربی مفکرین ہوں یا پھر مشرقی ماہرین سیاست، سب ایک نکتے پر مشترک ہیں کہ نائن الیون کی کارروائی میں امریکہ اور اسرائیل براہ راست ملوث ہیں۔

حال ہی میں امریکہ کی القاعدہ کے ساتھ دوستی کی ایک بڑی واضح مثال ہمیں شام میں دیکھنے کو ملی ہے، جہاں امریکہ ایک مسلم عرب ملک کے ساتھ مل کر القاعدہ کو اس لئے مدد فراہم کر رہا ہے کیونکہ امریکہ اور کچھ عرب ممالک کے مقاصد ایک جیسے ہیں، امریکہ بھی چاہتا ہے کہ شام سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور خطے کی عرب ریاستوں کی خواہش بھی یہی ہے، امریکی و عربی خواہش کی تکمیل کے لئے القاعدہ براہ راست میدان جنگ میں موجود ہے اور اس بات کا ثبوت اقوام متحدہ کی وہ آفیشل رپورٹ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مغربی ممالک کی جیلوں میں قید القاعدہ کے خطرناک دہشت گردوں کو صرف اس لئے رہا کر دیا گیا ہے کہ وہ شام میں جا کر شامی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لیں۔ حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ سعودی عرب کے ذریعے شام میں القاعدہ کو طیارہ شکن بندوقوں سمیت خطرناک اور جدید ہتھیار فراہم کرے گا، اس معاہدے کے بعد امریکہ کے ماہرین سیاسیات اور تجزیہ نگاروں نے اوبامہ انتظامیہ پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ کیا اوباما سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ہتھیار صرف شام میں استعمال ہوں گے یا پھر یہی ہتھیار بعد میں امریکی عوام کی قتل و غارت گری میں بھی استعمال ہوں گے، بہر حال یہ سوال امریکہ کے خواص کو پریشان کر رہا ہے کہ آخر اوبامہ انتظامیہ شامی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے کیوں القاعدہ کی مدد کر رہی ہے، حالانکہ امریکی انتظامیہ ہمیشہ القاعدہ کو امریکہ کا دشمن کا قرار دیتی رہی ہے۔

ذرائع ابلاغ پر شائع ہونے والی خبروں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ اوبامہ کی سعودی عہدیداروں سے ہونے والی ملاقات میں اس بات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ امریکہ اینٹی ایئر کرافٹ MANPADs نامی اسلحہ شامی باغیوں تک منتقل کرے گا اور اس کام کے لئے سعودی عرب، قطر اور ترکی اہم کردار ادا کریں گے۔ ذرائع پر شایع ہونے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے شام کی طرف بھیجی جانے والی ایک امدادی کھیپ میں مہلک اور خطرناک ہتھیار بھی روانہ کئے ہیں، تاہم ان ہتھیاروں میں MANPADs 150 portable missile-launchers شامل ہیں۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ جدید ہتھیاروں کی القاعدہ کو فراہمی سے شاید بشار الاسد کو مزید دباو میں لیا جاسکے گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے شام میں موجود القاعدہ کے دہشت گردوں کے ساتھ براہ راست تعلقات رکھے ہوئے ہیں، تاہم وہ اسلحے کی فراہمی میں ایک طرف خود القاعدہ کو مسلح کر رہا ہے، جبکہ دوسری جانب عرب حکومتوں کے ساتھ اسلحے کے بڑے معاہدے کرکے اسلحے کو شام بھجوانے میں مصروف عمل ہے۔ بہر حال تازہ ترین معلومات کے مطابق دوسری طرف امریکہ سمیت عرب حکمرانوں میں شام کے معاملے پر اختلاف بھی پیدا ہوچکے ہیں، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ جو خود کو دہشت گردوں کا دشمن کہلواتا ہے، کس طرح القاعدہ کی براہ راست مدد کرنے کے بعد خود کو دہشت گرد حکومت کہلوانے سے دور رکھ سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 368505
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش