0
Monday 28 May 2012 03:07

نیٹو سپلائی بحالی، آخر معمہ کیا ہے؟

نیٹو سپلائی بحالی، آخر معمہ کیا ہے؟
اسلام ٹائمز۔ شکاگو میں نیٹو کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق نیٹو ممالک 2013 میں افغانستان کی سیکیورٹی مقامی فورسز کے سپرد کرنے پر رضا مند ہوگئے جبکہ پاکستان سے سپلائی روٹ جلد از جلد بحال کرنیکا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فورسز کے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات پر معافی اور معاوضہ کے مطالبے پر قائم ہے جبکہ امریکہ اس سے انکاری ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آ گئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے تاحال نیٹو سپلائی کا راستہ بند ہے۔

یہ بات صاف عیاں ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت سپلائی روٹ کھولنے کے حق میں ہے اور اس کی بندش سے پیدا ہونے والے مضمرات سے پوری طرح آگاہ ہے جبکہ پاکستان کے دوست ممالک بھی پاکستان کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وقت ضائع کئے بغیر اس سپلائی کو بحال کردیا جائے اور اپنی معاشی اور اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنے پر توجہ دی جائے لیکن اب تک تو یہی نظر آتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس اہم ترین معاملے پر باہمی تقسیم کا شکار ہیں اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ پر ان کا زور زیادہ ہے۔ عسکری حلقے بھی ان تمام مضمرات سے بخوبی آگاہ دکھائی دیتے ہیں تاہم جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ معافی کا معاملہ ہی بظاہر رکاوٹ بن رہا ہے۔ اگر یہ اور دیگر معاملات بخوبی حل نہیں ہو پاتے تو پاکستان کے لئے کئی خطرات منہ کھولے کھڑے ہیں مثلاً

1۔ دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کے بہانے سلالہ پوسٹ جیسے واقعات دہرائے جاسکتے ہیں اور الٹا الزام بھی پاکستانی فورسز پر عائد کیا جائے گا۔
2۔ پاکستانی فورسز پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزمات عائد کرکے بھرپور مہم چلائی جا سکتی ہے۔ جس کے لئے امریکہ میں ہوم ورک تیار ہے۔
3۔ معاشی طور پر پاکستان کو جھکانے کے لئے بین الاقوامی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔
4۔ حافظ سعید اور ممبئی واقعات کا بہانہ بناکر پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر خطرات بڑھائے جا سکتے ہیں۔

دنیا ہمارے بارے میں کیا اور کیسا سوچ رہی ہے؟ کیا ہمارے قائدین ان تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر اپنی موج مستی میں گم ہیں؟ عوام کو ان خطرات سے کیوں آگاہ نہیں کیا جارہا ہے؟ ہم بحیثیت قوم کیوں ان خطرات کے خلاف متحد نہیں ہو پارہے ہیں؟ نیٹو سپلائی بحال کی جائے یا نہ کی جائے۔ آپ بھی اس اہم ترین معاملے میں تبصرہ کرکے بحث میں شامل ہو سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 166159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش