0
Tuesday 1 Apr 2014 00:29

کاروان شہداء، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

کاروان شہداء، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
تحریر: علی ناصر الحسینی

وزیراعظم کے برادر خورد، پنجاب کے وزیراعلٰی میاں شہباز شریف نے جب اہل سنت کی لاہور کی مرکزی درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی برسی پر خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ طالبان اور ہم ایک ہیں پھر کیوں وہ پنجاب میں کارروائیاں کرتے ہیں، تب کافی لے دے ہوئی تھی اور میڈیا کے کھینچنے پر پھر تردیدی وضاحتی بیانات جاری کئے گئے، مگر اب کی بار جماعت اسلامی کے امیر منور حسن (جو اب جماعت کی امارت کا الیکشن ہار کے نئی تاریخ رقم کر چکے ہیں) نے اپنے عقیدت و محبت بھرے بیان میں اپنی نظریاتی وابستگی کا کھل کر اظہار کیا۔ طالبان کے بارے میں ان کے نظریات پہلے سے آشکار رہے ہیں، وہ اس سے پہلے بھی کئی حدود کو پھلانگ چکے، انہوں نے اپنے فرمودات عالیہ سے جو شہرت پائی ہے اس سے طویل جماعتی سفر و ذمہ داریوں کے دوران بھی نہیں پاسکے تھے۔ طالبان کے دفاع اور محبت میں وہ طالبان سے بھی زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں، جس بات کو خود طالبان تسلیم کرتے تھے وہ اور ان کے جیسے دیگر حمایتی اس سے صاف انکاری نظر آتے تھے، طالبان کے ایسے ہی حمایتیوں اور طرفداران نے میڈیا میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا ہے، اس میں انصار عباسی اور اوریا مقبول جان کا نام بھی لیا جاسکتا ہے، ان کرداروں سے بھی پاکستان کے عوام و خواص اچھی طرح آگاہ ہوچکے ہیں۔ جس طرح طالبان کی صفائیاں دی گئیں اور ان کی توصیف کی گئی ہے، اس سے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کل تاریخ کی کتابوں میں بچوں کو پاکستان کے ان دشمنوں کو بطور محسنین پاکستان اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنان بنا کر پیش نہ کیا جانے لگے اور پاکستان کی بقاء، سلامتی و استحکام کے لیے انکی عظیم خدمات کے اعتراف میں اعزازات اور تمغوں سے نوازا جائے۔

آج جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں، ان کا تصور بھی محال تھا، سات لاکھ پروفیشنل فوج رکھنے والے ملک کی یہ حالت دیکھنا پڑے گی، کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا، کسے خبر کہ سڑسٹھ سال کے بعد پاکستان میں غداروں کو وطن کے ماتھے کا جھومر قرار دیا جائے گا۔ قاتلوں، لٹیروں اور دہشت گردوں کی قصیدہ خوانی کی جائے گی، وطن کے سپوتوں افواجِ پاکستان کے شیر دلوں کی گردنیں کاٹ کر ان کی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے والوں کو امن کے پیامبروں کی فہرست میں شامل کرلیا جائے گا۔ ملک کے چپے چپے پر خون کی ندیاں بہانے والوں کو عزتوں کے تاج پہنائے جائیں گے، افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف معرکہ آرائی کرنے والوں کو ان کی پسند کی جگہ پر دفاتر اور سہولیات بہم پہنچائی جائیں گی، کسے خبر تھی کہ گلی گلی میں، درباروں بازاروں میں، مساجد و امام بارگاہوں میں، جنازوں و ہسپتالوں میں، مجالس و محافل میں چلتے پھرتے انسانوں کو چتیھڑوں میں تبدیل کر دینے والوں کو مسیحائی کی اسناد و سرٹیفکیٹ دیئے جائیں گے، مذاکرات کا کھیل کھیلتے ہوئے پاکستانی قوم پر تازہ انکشاف یہ ہوا ہے کہ طالبان ان کے بھائی ہیں، پہلے تو یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان اپنے ہی لوگ ہیں، اب کام اس سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے کہ طالبان ہمارے بھائی ہیں، یعنی یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جو قابیل کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہیں، یہ قاتلوں کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے، اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے والے اور اپنی ہی بہنوں کو بیوگی کا لباس پہنانے والے طالبان ہمارے بھائی ہیں، یہ قتل کریں، دہشت گردی کا کھیل کھیلیں یا بارود کی بارش کریں، ہمارے بھائی ہیں، یہ مسجدوں کو ویران کریں، صفوں کو نمازیوں کے لہو سے تر بہ تر کریں ہمارے بھائی ہیں، یہ گلے کاٹیں، اللہ اکبر کی صدا سے مسلمانوں کے سرَدھڑ سے جدا کرکے ان کا فٹ بال بنا کر کھیلیں ہمارے بھائی ہیں، یہ اغوا کار ہمارے بھائی ہیں۔ مگر یاد رکھنا ہوگا کہ 
قتل کر ہمیں تم زندہ رہوگے، کب تک؟
موت کے ہاتھ میں ہے سب کا گریبان حیات


جب سے موجودہ حکمران برسراقتدار آئے ہیں، شدت پسندی اور شدت پسند پہلے سے کہیں طاقتور ہوگئے ہیں۔ انہیں جو عزت و مقام دیا جارہا ہے، یقیناً اس کا اثر مستقبل کے پاکستان پر کسی بھی طور اچھا نہیں ہوگا۔ دہشت گردوں کو جو پروٹوکول دیا جا رہا ہے اور اوپر سے سزاؤں کا خوف ختم کر دیا گیا ہے، اس سے اسلام کے نظام جزا و سزا پر کاری ضرب لگائی گئی ہے جبکہ مذاکرات کے نتیجہ میں ہزاروں لوگوں کے سفاک قاتلوں کو اذنِ رہائی دیا جا رہا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ مذاکرات کا موجودہ فیز جس سے اہم فیصلے اور لینا دینا ہو رہا ہے۔ اس سے عوام اور میڈیا کو بے خبر رکھا گیا ہے۔ اُصولی طور پر تو عوام کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ کن شرائط پر بات چیت جاری ہے اور دہشت گردوں کے کون سے مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں۔

ملک کے سنجیدہ طبقات اور ملت تشیع کے بزرگان اور قائدین کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ مذاکرات جس امن کے لیے ہو رہے ہیں، جس دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہو رہے ہیں، ان میں سنی و شیعہ مساجد، عبادت گاہیں اور شخصیات اور اجتماعات بھی آتے ہیں یا نہیں، اس حوالے سے یہ بات تشویشناک ہے کہ کسی بھی سیاسی و مذہبی لیڈر کی طرف سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی پر تشویش کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ حالیہ دنوں میں جب طالبان کے ساتھ "سیز فائر" چل رہا تھا تو شیعہ کلنگ میں تواتر سے اضافہ ہوا ہے۔ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، لاہور، کراچی، خیرپور، گلگت اور دیگر کئی شہروں میں اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حکومت مذاکرات بارے تمام معاملات کو عوام کے سامنے کھول کر رکھے اور میڈیا کو بتائے کہ کن شرائط اور دائروں میں بات کی جا رہی ہے، کیا لیا اور کیا کیا دیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران یک طرفہ ٹریفک چلا رہے ہیں، اس کا نقصان محب وطن قوتوں کو ہو رہا ہے۔ محب وطن قوتوں کو عملاً دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور پاکستان مخالف بلکہ پاکستان دشمن قوتوں کو اس ملک کا وارث بنا دیا گیا ہے۔

حکمرانوں کے تعصب و معاندانہ رویہ کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ اس نے امیر المومنین علی ؑ کے خطبات، کلمات قصار اور خطوط پر مشتمل تاریخ اسلامی کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ پر بھی ایف آئی آر کاٹی ہے اور اسے بیچنے کے جرم میں مکتبہ الرضا لاہور کے مدیر سید محمد رضا پر توہین صحابہ کی دفعات 295-A،298-A کے تحت پرچہ کاٹا گیا ہے اور گرفتار کیا گیا ہے۔ اگرچہ ان کی ضمانت ہوگئی ہے مگر یہ گرفتاری اور FIR گہری سازش کا نتیجہ ہے، جس میں پنجاب حکومت اور اس کے کارپرداز برابر کے شریک ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ پنجاب علماء بورڈ میں نہج البلاغہ سمیت دیگر پرانی کتب بارے فیصلہ ہوچکا ہے کہ ان کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔ اس کے باوجود انتظامیہ کی ملی بھگت سے FIR کاٹنا خطرے کی گھنٹی اور سازش کا پتہ دیتی ہے جبکہ اس سے حکومت کے اہل تشیع کے ساتھ معاندانہ اور متعصبانہ رویہ کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح کے کئی اور مقدمات جن میں تحصیل کمالیہ کے علاقے جکھڑ میں ایک شیعہ نوجوان پر ایک فیس بک پوسٹ پر کمنٹ کرنے اور کمالیہ میں ہی 2009ء میں ایک غلط FIR کے تحت مولانا آصف رضا علوی کو علی پور چٹھہ کے علاقے سے مجلس کے دوران گرفتار کرنا بھی حکمرانوں کے متعصبانہ رویہ کی عکاسی کرتے ہیں۔
 
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جب ملکی سطح پر ایک گروہ کو آپ سر کا تاج بنانے کا اعلان کریں تو اس گروہ کے حوصلے نچلی سطح تک بڑھ جاتے ہیں اور اس گروہ کے حامی و طرفدار کھل کر اپنے شر و فساد سے معاشرے کو آلودہ کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اس وقت پورے پاکستان میں فرقہ پرست سرکاری پروٹوکول میں دورہ جات کرکے اپنے حامیوں کو متحرک کر رہے ہیں اور جلسے جلوس نکال رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ قتل عام کے ذمہ دار جنہیں جیلوں میں VIP سہولیات کے ساتھ رکھا گیا ہے، ان کو رہائی کے پروانے دیئے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں ناسور بن کر بے گناہوں کے خون سے ہولیاں کھیلنے کے لیے آزاد ہونگے۔ حکمرانوں کی اس حکمت عملی سے ملک امن کا گہوارہ بنے گا یا قتل و غارت اکھاڑہ، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ملک بھر کے ہزاروں سنی و اہل تشیع علماء نے حکمرانوں سے کہا ہے وہ ملک کی بنیادوں کو ہلانے والے غداران وطن اور ان کے حمایتیوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کریں اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکر کڑی سزا دلوائیں۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ جو لوگ بے گناہ و معصوم عوام و افواج پاکستان کے قتل کے ذمہ داران ہیں ان کی طرف سے ان کے حمایتی و طرفداران شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ذرا یہ بھی بتائیں کونسی شریعت __گلے کاٹنے والی، سروں کے فٹ بال بنانے والی، قبروں سے مردوں کو نکال کر درختوں اور کھمبوں سے لٹکانے والی شریعت۔؟

کیا آپ بھول گئے کہ 1973ء کا آئین ایک اسلامی آئین ہے۔ آپ کی جماعت کا اب تک تو یہی مؤقف تھا، کیا یہ موقف تبدیل ہوسکتا ہے؟ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والی قتل و غارت کی وارداتیں اور شہداء کی فہرست میں اس ماہ بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ کئی ماؤں کے لخت جگر گولیوں سے چھلنی کر دیئے گئے، کئی بہنوں کے پیارے خون میں لت پت کئے گئے، کئی بیٹیوں کے سہاگ اجاڑ دیئے گئے۔ ذرا دیکھئے سفر شہادت پر کون کون سدھار گیا۔
5 مارچ، کراچی:
منظور حسین ولد غلام حسین کو رتی پہاڑ ایریا پیر آباد میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا، عمر 18سال تھی۔
5 مارچ، پشاور:
پولیس کانسٹیبل ابن حسن علی ولد قیصر علی کیانی شہید کو یکہ توت کے علاقہ میں شہید کر دیا گیا۔ والد قیصر علی کو بھی پہلے شہید کیا گیا تھا۔
9 مارچ، پشاور:
افتخار حسین ولد غلام سرور، عمر 40 سال کو سرکی کے علاقہ میں شہید کیا گیا۔ 6 ماہ پہلے ان کے فرزند کو بھی اسی علاقہ میں شہید کیا گیا تھا۔
11 مارچ، کراچی:
سید فضل عباس ولد سید ظہیر عباس کو F.B ایریا نزد مفتل مل فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ 43 سالہ جوان کا تعلق ملیر سے تھا۔ اسی روز سید نسیم حسین جعفری کو لیاقت آباد اور عزت حسین ولد افضال حسین رضوی کو نارتھ کراچی بلال کالونی کے علاقہ میں شہید کیا گیا۔

15 مارچ، ٹانک:
شوکت حسین ولد حسین بخش کو 13 مارچ کے دن اغوا کیا گیا اور ان کی تشدد زدہ لاش F.R ایریا سے ملی۔
16 مارچ، کراچی:
سید خرم حسن عابدی ولد سید محمد حسن کو پیپلز چورنگی کے پاس موبائل شاپ سے واپسی پر ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا۔
18 مارچ، کراچی:
عارف حسین ولد محمد حسین کو منظور کالونی میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا ۔ 25 سالہ نوجوان کا تعلق اسکردو سے تھا۔
20 مارچ، حیدرآباد:
حیدرآباد میں مبلغ آل محمد غلام نبی کو دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔
20 مارچ، کراچی: کورنگی اڑھائی نمبر میں تکفیریوں نے پولیس آفیسر انور جعفری کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔

22 مارچ، خیرپور:
میر منظور حسین تالپور دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ خیرپور میں CM ہاؤس کے سامنے جنازہ رکھ کر شدید احتجاج۔
22 مارچ، کراچی:
سید شجاعت حسین رضوی ولد سید ولایت حسین رضوی گلبہار میں کاظمین امام بارگاہ کے قریب دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید کر دیئے گئے۔ عمر 40سال تھی۔
23 مارچ، کراچی:
بہادر آباد میں ہوٹل پر فائرنگ سے نیب میں تعینات DSP آغا جمیل فائرنگ سے شہید۔
23 مارچ، لاہور:
مسلم ٹاؤن کے ایریا میں FIA کے ڈپٹی ڈائریکٹر فرحت عباس بیٹے سمیت شدید زخمی۔
25 مارچ، کراچی:
سرجانی ٹاؤن D-5 میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے عزادار سید ذوالفقار علی ولد ولی شاہ شہید، عمر 45 سال تھی۔
اس کے علاوہ بھی فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کی کئی ایک خبریں ملیں، کئی ایک مقامات پر تکفیری دہشتگردوں نے حسینیت کے پروانوں پر وار کئے، مجالس، جلوس و عزا کے پروگراموں کو روکنے کی کوششیں ہوئیں۔ دشمن کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس کے سرپرست امیہ و عباسی حکمرانوں سے زیادہ ظلم نہیں کرسکتے۔
خبر کا کوڈ : 367797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش