1
Monday 15 Aug 2022 20:56

آج کے پاکستان کے ارتقاء میں تشیع کا اجتماعی کردار

آج کے پاکستان کے ارتقاء میں تشیع کا اجتماعی کردار
تحریر: عون عباس

خداوند متعال نے اس کائنات  میں چند اٹل اصول صادر فرمائے ہیں اور خدا نے ان اصولوں کو اپنی سنتیں، اپنے قانون قرار دیا ہے اور قرآن مجید میں ان سنتوں کے بارے میں، ان قوانین کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان سنتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ *وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا*، "اللہ کی سنت میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔" ان اٹل اور ناقابل تغییر قوانین اور سنتوں  میں سے ایک سنت یہ ہے کہ *إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ*، "اللہ کسی قوم کا حال یقیناً اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔" بقول مرشد من شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (رہ)
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


جب پاکستان بنا ہی نہیں تھا اور برصغیر کی مسلم امت قعر مذلت میں گھری ہوئی تھی، ہر طرف ظلم و ستم کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں، ایک طرف دنیا کا بدترین استعمار برطانیہ کا تسلط اور دوسری طرف ہندو کے ظلم و ستم کا غلبہ تھا اور دور دور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی، ایسے میں شعیان علی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر گھنگھور گھٹاؤں کے پیچھے سے خورشید امید اپنی تابانی سے پردہ ظلمت کو تار تار کر دیتے ہیں۔ یعنی کربلا کے ماننے والے خدا کے اس قانون اور سنت سے الہام لیتے ہوئے قیام کرتے ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قوم کی نجات کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کی مشکلات کو پاؤں تلے کچلنے کا اور ہر دشمن کو زیر کرنے کا مصمم عزم کر لیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے کربلا کے مکتب سے الہام لیا ہو، مکتب کربلا سے درس تربیت لیا ہو اور حسین ابن علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور مقتدیٰ مانا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس کسمپرسی مایوسی، دکھ بھری حالت پر خاموشی اختیار کر لیں۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام  نے یزید کی بیعت کے جواب میں فر مایا تھا کہ *لا والله لا أعطيهم بيدى إعطاء الذليل و لا أفرّ فرار العبيد*، "نہ خدا کی قسم! ذليل و خوار شخص کی طرح آپ کے ہاتھ پر بيعت نہیں کروں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح راہ فرار اختیار کروں گا۔" تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو یہ آزاد مملکت کسی نے طشتری میں یا ڈش میں رکھ کر پیش نہیں کی تھی، بلکہ  اس کے حصول کی خاطر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر قیادت ایک عظیم الشان جدوجہد کی گئی تھی۔ اس جدوجہد کے دوران مسلمانوں نے انگریز حکومت کے جبر و تشدد اور ہندو اکثریت کی ریشہ دوانیوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا۔ حصول منزل کی راہ میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں اور عصمت کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے 50 لاکھ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، تب جا کر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔

تحریک پاکستان ایک اہل بیت علیہ السلام  کے پیروکار کی سربراہی میں شروع ہوئی اور اس میں اہل بیت علیہ السلام  کے ماننے والوں نے کلیدی کردار اد کیا اور آج تک اپنا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں اور ہر وقت لبوں پر یہی صدا ہے کہ *پاکستان بچایا تھا، پاکستان بچائیں گے* اور پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دلوانے میں دن رات میدان میں ہیں اور اپنا تن من دھن پاکستان کے لئے قربان کیا تھا اور کر رہے ہیں۔ الحمداللہ قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لینے والی قوم، لینے والا مکتب عصر حاضر میں بھی وطن عزیز پاکستان کے استحکام، سالمیت اور بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں تو آج ہم بھی استحکام پاکستان کے لئے، ترقیِ پاکستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ جو کل  وجود پاکستان کے مخالف تھے، آج وہی بقائے پاکستان کی دشمنی پر ہیں اور یہ ان کی دشمنی اوج پر ہے۔ اس وطن عزیز کے مدافعین، غیور ملت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی دن رات کوشش کی جا رہی ہے۔

کبھی مساجد کو بم دھماکوں کی نظر کر دیا جاتا ہے تو کبھی جلوسوں پر فائرنگ ہوتی ہے۔ کبھی ذکر حسین کروانے والوں پر ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں اور کبھی حقیقی محب وطنوں کو جبری گمشدہ کیا جاتا ہے اور ان مختلف واقعات میں سینکڑوں علمائے کرام، انجینئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور بے گناہ مومنین شہید کر دیئے جاتے ہیں۔ اسیر کر دیئے جاتے ہیں اور ابھی تک یہ دہشت گردی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، لیکن ان غیور حسینیوں میں حب الوطنی، وطن کو ترقی دینے کا جذبہ کم نہیں ہوا بلکہ دن بدن رشد کر رہا ہے۔
فقط اِس جرم میں کہلائے گنہ گار کہ ہم
بہر ناموسِ وطن، جامہ تن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن
ہم تو اے اہلِ وطن، دردِ وطن مانگتے ہیں
(احمد ندیم قاسمی)

دراصل تشیع پر ظلم کرنے والے افراد رشد پاکستان نہیں چاہتے، لیکن ان دشمنانِ وطن قوتوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جو قوم بوڑھے استعمار انگریز کے تسلط کو توڑ کر اسے اپنی سرزمین سے بھاگنے پر مجبور کرسکتی ہے اور نہرو جی، پٹیل جی اور گاندھی جی جیسے مدبرین کے گھناؤنی سیاست خاکستر کرکے ایک علیحدہ مملکت حاصل کرسکتی ہے، ہر طاغوتی طاقت کا مقابلہ بھی کرسکتی ہے اور ہر دشمن وطن کی طاقت کے شر سے وطن عزیز کو محفوظ بھی رکھ سکتی ہے۔ کربلا کا ماننے والا ہر پاکستانی جوان دشمن کو للکار کر کہہ رہا ہے کہ
 اے وقت کے یزید! تیرے پاس جتنی سلطنت ہے استعمال کرلے
اے وقت کے ابن زیاد! تیرے پاس جتنے لشکر ہیں بڑھا لے
اے وقت کے شمر! تیرے پاس جتنے خنجر ہیں آزما لے
اے وقت کے خولی! اپنے ترکش خالی کر لے، لیکن یاد رکھ 
پاکستان بچایا تھا پاکستان بچائیں گے
پاکستان کو مثل جنت بنائیں گے
پاکستان کو مرکز انسانیت بنائیں گے
پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دیں گے

کیونکہ ہم پاکستانی ہیں۔

بقول شاعر
ہمارا دیس ہے پاکستان ہم اس کی نشانی ہیں
ہم پاکستانی ہیں
ہمارے چہچوں سے کوئی آخر سرگرداں کیوں ہو؟
کوئی ناشادماں کیوں ہو؟
یہ ہمارا باغ ہے ہم اس میں محوِ گلفشانی ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں
وطن کی خاک میں ملتا ہمارا، دین و ایماں ہے
یہی مرنے کا ارماں ہے
شباب زندگانی یا خراب زندگانی ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں
عجم تا عرب ہے دھوم اپنی سخت کوشی کی
وفا سر فروشی کی
بہ ایں افسردگی بھی آب و رنگِ بزم فانی ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں
ہمیں کہتی ہے دنیا میکش میخانہ پاکستانی
گلِ گلخانہ پاکستانی
اسی اک کیف میں سرشار و محو نغمہ خوانی ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں
یہیں اپنے عروج و دائمی کی کوششیں کرنا
یہیں جینا یہیں مرنا
ہمیں ناکامیاں بھی اک طرح کی کامرانیاں ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں
کہاں کی فرقہ بندی اور جماعت سازیاں کیسی
یہ کثرت سازیاں کیسی
ہمیں پاکستانی کہو ہم ربطِ قومیت کے بانی ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں
ہم اپنی مادرِ پاکستان کے نغمے گائیں گے
اسے دلہن بنائیں گے
جوانی یہ ہماری اور ہم اس کی جوانی ہیں
کہ ہم پاکستانی ہیں


اب ہم آج کے پاکستان کے ارتقاء میں تشیع کا کردار کا ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں، جس کا آغاز ایک مختصر پاکستان کا محل وقوع سے کرتے ہیں۔
پاکستان کا محل وقوع
پاکستان براعظم ایشیاء کے جنوب میں واقع ایک ایسا ملک ہے، جس کا نام اسلامی جمہوریہ رکھا ہوا ہے اور اس کی آبادی کا اکثر حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سنہ 1947ء کو پاکستان آزاد ہوکر ہندوستان سے الگ ہوگیا تھا۔ پاکستان کا کل رقبہ 796٬095 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں سے 6774 کلومیٹر بارڈر ہے، جس کے شمال مغرب میں افغانستان، جنوب میں ایران، شمال مشرق میں چین، مشرق اور جنوب مشرق میں ہندوستان اور جنوب میں بحر ہند واقع ہے۔ پاکستان کی کل آبادی تئیس سے چوبیس کروڑ بتائی جاتی ہے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا ملک شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود اقوام میں پنجابی، سندھی، پٹھان،‌ بلوچ اور مہاجر ہیں۔ قومی زبان اردو ہے، جبکہ انگریزی بھی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو اور براہویی، اس ملک کی رائج زبانوں میں سے ہیں۔

پاکستان کا نظام خالص اسلامی نہیں ہے بلکہ برطانیہ سے لیا ہوا ہے اور اس وقت پاکستان ایک فیڈرل گورنمنٹ کے تحت چلتا ہے۔ جس میں چار صوبے اور گلگت بلتستان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ ہر صوبے کی ایک صوبائی اسمبلی ہوتی ہے، جس کے اراکین کو عوام انتخاب کرتی ہے اور جیتنے والی پارٹی صوبائی حکومت تشکیل دیتی ہے۔ پاکستان میں قوانین قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہوتے ہیں۔ تمام اسمبلیوں کی مدت پانچ سال کی ہوتی ہے۔ پاکستان کے صدر مملکت کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دے کر پانچ سال کے عرصے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ البتہ ملک میں اجرائی امور وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فوج بھی اپنا کلید کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 96% آبادی مسلمان ہے، جس میں سے 77% اہل سنت اور 20٪ شیعہ ہیں۔ 1.75 ہندو 1.6 عیسائی 0.04 سکھ بھی پاکستان میں بستے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اقلیتیں جیسے، مجوسی، احمدی، بدھ مت اور قادیانی بھی پاکستان میں ہیں۔ اس ملک کے اکثر باشندے اہل سنت اور حنفی مسلک ہیں اور عقیدتی اعتبار سے تین گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔
بریلوی
دیوبندی
اہل حدیث

قیام پاکستان میں اہل تشیع کا کردار
یوں تو قیام پاکستان میں دوسرے مکاتب فکر کے برعکس اہل تشیع حضرات نے کسی تفریق کے بغیر قیام پاکستان میں حصہ لیا، لیکن کچھ ایسی شخصیات کا تذکرہ ضروری ہے، جن کے بغیر تاریخ پاکستان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح
پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا، آپ 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ میں پیدا ہوئے، جو کہ اُس وقت بمبئی کا حصہ تھا۔ آپ کا پیدائشی نام ؒمحمد علی جناح  رکھا گیا۔ گو کہ ابتدائی اسکول کے ریکارڈ کے مطابق جناح کی تاریخِ پیدائش 8 اکتوبر 1875ء تھی، لیکن موجودہ حکومتی ریکارڈ میں تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876ء مذکور ہے۔ قائد اعظم کی دوسری شادی رتن بائی سے ہوئی، جنہوں نے اپریل کے مہینے میں اسلام قبول کیا اور 19 اپریل کو ان کا نکاح قائد اعظم سے ہوا، جس میں ابو القاسم شریعتمدار نے وکالت کے فرائض انجام دیئے۔ قائد اعظم 11 ستمبر 1948ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ابتدائی طور پر آپ اسماعیلی مکتب پر عمل پیرا تھے، لیکن بعد میں اثناء عشری مکتب کو قبول کیا اور پھر آخر عمر تک اسی پر کاربند رہے۔ نیز آپکی تجہیز و تکفین کے فرائض ہدایت اللہ عرف کلو نے اور نمازِ جنازہ شیعہ اثناء عشری عالم دین مولانا انیس الحسنین نے گورنر ہاؤس میں پڑھائی، جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی اور دوسری مرتبہ عمومی طور پر حنفی فقہ کے مطابق ہوا۔ دفنانے کے بعد تلقین سید غلام علی وکیل احسن اکبر آبادی اور آغا حسین بلتستانی نے پڑھی۔

راجہ محمود آباد
بیسویں صدی میں انڈیا کی امیر ترین شخصیت راجہ امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد(جس کی آمدنی کا اندازہ ماہانہ  40لاکھ روپیہ تھا) جو کہ بھرپور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی۔ امیر حسن نے اپنی وصیت میں اپنے بیٹے امیر احمد کا سرپرست قائد اعظم کو قرار دیا، ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر احمد خان راجہ بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سن 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس کا انتظام و خرچہ راجہ صاحب نے اس وقت اٹھایا، جب مسلم لیگ کے دولتمند زمینداروں نے کانگریس کے خوف سے مالی معاونت سے ہاتھ روک لیا تھا۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے، نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مسلمانوں کے لئے ڈان، تنویر، حق، ہمدم اور دیگر نشریات کیلئے خطیر رقم دیتے رہے۔ نشرواشاعت کیلئے مسلم پریس لگوایا۔ دس سال نجف کربلا بغداد رہنے کے بعد 1957ء میں کراچی آکر قیام کیا۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت کی حکومت نے راجہ صاحب کو ملک دشمن قرار دے کر تمام خاندانی املاک بحقِ سرکار ضبط کرلیں، چونکہ راجہ صاحب ایک دشمن ملک (پاکستان) کے شہری تھے۔ ایوب کے دور میں وزارتوں کی پیشکش کو ٹھکرایا۔ 1968ء میں لندن مسقر ہوئے اور تنخواہ کی ملازمت اختیار کی اور 1973ء میں فوت ہوئے۔ انہیں مشہد حرم امام رضا میں دفنایا گیا۔

 ان کے علاوہ قیام پاکستان میں بہت سے شیعہ راہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا، جن میں سید امیر علی، ڈی آغا خان، مہا راجہ محمد علی محمد، کرنل سید عابد حسین، تراب علی، نواب محسن الملک، مرزا ابو الحسن اصفہانی۔ علماء میں سے سید محمد دہلوی،حافظ کفایت حسین، سید ابن حسن جارچوی، مرزا یوسف حسین لکھنوی، نجم الحسن کراروی، شیخ جواد، علامہ رشید ترابی، ایسی شخصیات ہیں، جن کے نام لئے بغیر تشکیل پاکستان کی روداد ناتمام ہے۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمۂ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم، لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمۂ صغریٰ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

پاکستان کے ارتقاء میں تشیع کا کردار
ملک کی آبادی کا 20 سے کچھ زائد فیصد حصہ ہم شیعوں پر مشتمل ہے، جو پاکستان کے مختلف صوبوں، شہروں اور دیہاتوں میں آباد ہے۔ بہت سارے شیعہ سیاستدان اور اعلیٰ عہدے دار رہ چکے ہیں اور اب بھی ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ شناخت کے ساتھ  مختلف ادارے اور پارٹیاں کام کر رہی ہیں۔ دینی مدارس، مختلف علمی اور تربیتی ادارے بھی کام  کر رہے ہیں ہمارے بہت سارے شیعہ ڈاکٹر، انجنیئر، سائنس دان، ادیب، شاعر، اینکر، بزنس مین ہیں، جو ارتقاء پاکستان میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تشیع نے قوم کو دینی احکامات اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کروانے کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی یا دینیات سینٹرز کا قیام عمل میں لایا ہے، جو عام طور پر مدارس دینی سے ہی وابستہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ مخصوص افراد کے تحت نظر کام کرتے ہیں۔ مدارس ہوں یا دینیات سینٹرز یہ تمام ادارے اپنے اخراجات مخیر حضرات کی مدد سے پورا کرتے ہوئے اپنی فعالیت جاری رکھتے ہیں اور بہت سے تعلیمی ادارے، دینی مدارس، يتيم خانے میڈیا سنٹر کام کر رہے ہیں اور مختلف ناموں پر مشتمل قوم کی خدمت کے لئے جوانوں کی ٹیمیں تگ و دو کر رہی ہیں، جس میں آئی ایس او (ISO)، اصغریہ سٹوڈنٹس اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (JSO) اور غیر تعلیمی اداروں میں آئی او (IO) اور تحریک بیداری امت مصطفیٰ وغیرہ تنظیمیں موجود ہیں، جو لمحہ بہ لمحہ خدمت پاکستان کے لئے میدان میں موجود ہیں اور خالص اسلام ناب محمدی کی ترویج کر رہے ہیں، انسانیت کا سہارا ہیں، ملت کے دکھوں اور دردوں کے ساتھی ہیں۔
شکر کرنے کے لئے امیدِ فردا اب اٹھے
ایشیا میں جان آئی یعنی شیعہ اٹھے
(اکبر آلہ آبادی)

اس کے علاوہ افکار اقبال، اتحاد بین المسلمین، شعور و آگاہی دینے میں نظریاتی اور بابصیرت طبقہ پیدا کرنے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو زندہ کرنے میں یزید وقت امریکہ و اسرائیل کے پاکستان کے متعلق ناپاک منصوبوں کو روندنے میں، انہیں للکارنے میں ملت کو ان شیطانوں سے بیزار کرانے میں تشیع نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے لبوں پر ہر وقت یہی صدا ہے کہ
چشم روشن پاکستان دل کی دھڑکن پاکستان
صحرا صحرا اس کی دھوم گلشن گلشن پاکستان

تشیع اس ملت کو عروج تک پہنچانے کے لئے بیدار ہے اور تشیع اس ملت کے لئے اقبال کے خواب کی تعبیر ہے، اقبال کے نطریات کی محافظ ہے، دو قومی نطریئے کی وفادار ہے۔ مزید تشیع نے پاکستان میں اسلامی تعلیمات، جا بجا عزاداری حسین، فضائل آل محمد کے ذریعے زندہ کیا ہے، کیونکہ تعلیمات اسلام کو زندہ رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ مذہبی شخصیات کے ایام شہادت اور وفات منانا ہے۔ اسی کے تحت مذہب تشیع میں ہادیان برحق کے ایام منانا، ان کے مذہبی شعار میں سے سمجھا جاتا ہے اور رسول خداؐ حضرت علی اور دیگر ہادیان برحق خاص طور پر حضرت امام حسین ؑ کے ایام شہادت کو نہایت پر جوش طریقے سے مناتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ عزاداری امام حسینؑ ہم تشیع کی پہچان ہے۔ حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے عنوان سے اول محرم سے دس محرم تک پورے پاکستان میں مجالس عزا، نیاز و لنگر کا اہتمام ہوتا ہے۔

تشیع نے اس ملک میں امن و سکون کے لئے اس ملک کے ریاستی اداروں سے جڑ کر رہنے کے لئے اپنا بہت کلیدی کردار ادا کیا جبکہ مخالفین شیعہ نے شیعہ کشی کو کئی بار دہرایا اور بے پناہ ظلم کیا، تکفیریت کا ساتھ دے کر اس ملک کا امن بگاڑنے میں دن رات لگے رہے، لیکن شیعہ نے ہر موقع پے اس وطن وفاداری کی مثال قائم کی۔ مزید شیعہ پر ظلم و ستم کے واقعات میں بم، دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، شہداء اور زخمیوں کی تعداد درج ذیل ہے۔
*2001ء میں 3 ٹارگٹ کلنگ، 31 شہید اور 6 زخمی ہوئے*
*2002ء میں 6 ٹارگٹ کلنگ، 29 شہید اور 47 زخمی ہوئے*
*2003ء میں 1 دھماکہ، 4 ٹارگٹ کلنگ، 83 شہید 68 زخمی ہوئے*
*2004ء میں 4 بم دھماکے، 4 ٹارگٹ کلنگ، 130 شہید اور 250 زخمی ہوئے*
*2005ء میں 2 بم دھماکے، 4 ٹارگٹ کلنگ، 91 شہید اور 122 زخمی ہوئے*
*2006ء میں 2 بم دھماکے، 3 ٹارگٹ کلنگ، 116 شہید اور لاتعداد زخمی ہوئے*
*2007ء میں 2 بم دھماکے، 11 ٹارگٹ کلنگ، 442 شہید اور 423 زخمی ہوئے*
*2008ء میں 6 بم دھماکے، 10 ٹارگٹ کلنگ، 416 شہید اور 453 زخمی ہوئے*
*2009ء میں 8 بم دھماکے، 27 ٹارگٹ کلنگ، 381 شہید اور 593 زخمی ہوئے*
*2010ء میں 7 بم دھماکے، 16 ٹارگٹ کلنگ، 322 شہید 639 زخمی ہوئے*
*2011ء میں 2 بم دھماکے، 33 ٹارگٹ کلنگ، 203 شہید 156 زخمی ہوئے*
*2012ء میں 11 بم دھماکے، 310 ٹارگٹ کلنگ، 630 شہید اور 616 زخمی ہوئے*
*2013ء میں 20 بم دھماکے، 283 ٹارگٹ کلنگ، 1222 شہید اور 2256 زخمی ہوئے*
*2014ء میں 7 بم دھماکے، 262 ٹارگٹ کلنگ 361 شہید اور 275 زخمی ہوئے*
*2015ء میں 11 بم دھماکے، 99 ٹارگٹ کلنگ، 369 شہید اور 400 زخمی ہوئے*
*2016ء میں 2 بم دھماکے، 54 ٹارگٹ کلنگ، 65 شہید اور 207 زخمی ہوئے*
*2017ء میں 4 بم دھماکے، 34 ٹارگٹ کلنگ، 308 شہید اور 133زخمی ہوئے*
*2018ء میں 1 بم دھماکہ، 28 ٹارگٹ کلنگ، 58 شہید اور 50 زخمی ہوئے*
*2019ء میں 2 سے زائد بم دھماکے، 15 سے زائد ٹارگٹ کلنگ، 38 سے زائد شہید اور 9 سے زائد زخمی ہوئے۔*
تقریباً اب تک چار ہزار سے زائد شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ اسیر ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ، کراچی اور ڈیرہ اسمغیل خان کے شیعہ ہیں۔
حوالہ
*(Shia Genocide Database*
 *(A detailed account of Shia killings in Pakistan")*.

پھر اس کے بعد مسلسل آج تک شیعہ جبری گمشدگیاں اور ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔
لیکن کمال ہے کہ اس ملتِ تشیع کا سلام ہو ان پر، سلام ہو ان باوفا وطن پر، سلام ہو ان غیور اور حسینیوں پر کہ اس سب کچھ کے باوجود بھی کہیں بھی ملت تشیع پاکستان نے پاک فوج پر، پولیس پر رینجرز پر کسی ادارے کے اہلکاروں پر حملے نہیں کئے، کبھی کسی ادارے کو نقصان نہیں پہنچایا، کسی کا قتل نہیں کیا، ہاں اپنا پُرامن احتجاج ضرور کیا اور کرتے ہیں، لیکن کبھی کسی کو ان احتجاجوں میں مارا نہیں، کسی کے گھر اور دوکان کو نہیں جلایا، کسی کی عمارت پر پتھر نہیں برسائے۔ ہاں اپنا سینہ پیٹا، عزاداری کی اپنے پیاروں کے لاشے لے کر کئی کئی دن ضرور بیٹھے رہے، تاکہ اس بزدل دشمن کو بتا سکے، گر ہمت ہے تو  سامنے سے وار کر، اس لئے بیٹھے رہے کہ ان ریاستی اداروں کو متوجہ کیا کہ ہمیں انصاف دلاؤ، تم اس لئے بیٹھے رہے کہ تم ان تکفیروں کے خلاف قدم اٹھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، لیکن افسوس ہمیں پھر بھی نتیجہ اس کے برعکس ملتا ہے۔ عزیزان اس وقت ملت پاکستان کا تشیع ایک خام میٹریل کے طور پر پاکستان میں پایا جاتا ہے، اتنی وفائے وطن کے باوجود ہمارے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا ہے، سرکاری پرائیوٹ ادارے ملکی و غیر ملکی کمپنیاں سب تشیع کو ہاتھوں کا کھلونہ بنا کر استعمال کر رہی ہیں، ہمارے بنیادی حقوق تک سلب کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں ارتقائے تشیع کا حل
سب سے پہلے تمام تشیع پاکستان کو ایک ہونا ہوگا۔
ارتقاء تشیع کے مزید تین پہلو درج ذیل ہیں۔
1۔ نظریاتی و آئیڈیالوجیکل پہلو
اس وقت پاکستان کی تمام مشکلات کا حل ایک جامعہ آئڈیالوجی میں ہے، تشیع کے پاس وہ جامعہ اور مضبوط آئیڈیالوجی موجود ہے، لہذا اسی کے زیر سایہ آگے رشد کرے۔
2۔ جمعیتی پہلو
اس سے مراد جتنے ہمارے طبقات ہیں، ڈاکٹر، انجنیئر، علماء، کسان، دھقان، طالب علم ہر طبقہ تناسب کے ساتھ بیدار ہو، اس میں اس مکتب کی تہذیب، اخلاق سب رشد ہو۔
3۔ اداراتی پہلو
تشیع مل کر علمی، تحقیقاتی، مراکز سازی، اقتصادی، ٹیکنیکی اور تعمیراتی سب پہلووں میں رشد کرے، جس کے ذریعے ہم دشمنان پاکستان، دشمنان تشیع کو زیر کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
سایت world fact book عالمی، ص۵۷
سید محسن حسینی کشمیری، کحل الجواہر، ص103۔
ویکیپیڈیا اردو؛ محمد علی جناح۔
سید وصی خان تشکیل پاکستان میں شیعوں کا کردار
خبر کا کوڈ : 1009340
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش