1
0
Sunday 26 Mar 2023 22:10

پاراچنار میں لوڈ شیڈنگ کے اسباب اور اسکا ممکنہ حل

پاراچنار میں لوڈ شیڈنگ کے اسباب اور اسکا ممکنہ حل
رپورٹ: ایس این حسینی

ضلع کرم ویسے تو ہر طرح کے ترقیاتی منصوبوں بلکہ بنیادی سہولیات سے محروم علاقہ ہے۔ حکومت کے پاس بھی اس حوالے سے ایک نہایت ہی بھونڈا بہانہ موجود ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر خود ہی معترض ہیں۔ چنانچہ کوئی کالج، یونیورسٹی یا کوئی ترقیاتی منصوبہ اگر شروع کریں تو کہاں پر۔؟ اس موضوع پر تو علیحدہ بات کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ یہاں پر ہمارے پیش نظر انتہائی بنیادی سہولت یعنی بجلی کی فراہمی ہے۔ کرم میں خصوصاً یہاں کے صدر مقام پاراچنار بلکہ اس پوری تحصیل (اپر کرم) میں بجلی کا انتظام کچھ اس طرح سے ہے۔ پاراچنار گرڈ اسٹیشن میں اس وقت ٹوٹل 15 فیڈر موجود اور فعال ہیں۔ جن میں کینٹ، ایکسپریس، سٹی ون، ٹو اور تھری، شبلان ون ٹو تھری، زیڑان، کڑمان ون اور ٹو، شلوزان، پیواڑ اور خرلاچی ون ٹو۔ ان میں سے ہر فیڈر پر پتہ نہیں کتنا لوڈ ہے۔

مگر بجلی کی تقسیم کچھ یوں کی گئی ہے کہ ہر فیڈر پر واقع علاقوں کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پھر ہر علاقے کی بجلی سے ایک دن تو مکمل چھٹی ہوتی ہے، جبکہ اگلے دن 24 گھنٹوں میں سے صرف 2 گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے، جس میں سے ایک گھنٹہ وقفے وقفے سے صبح سویرے جبکہ ایک گھنٹہ رات کو آنکھ مچولی کرتی ہے۔ خیال رہے کہ پاراچنار میں اکثر مقامات پر پانی کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پانی کا انحصار بھی بجلی ہر پر ہوتا ہے اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پانی کے چند قطروں کے لئے ترستے ہیں۔ پاراچنار شہر میں لوگ اکثر ٹریکٹرز کے ذریعے ٹینکیوں سے پانی حاصل کرتے ہیں، جبکہ ایک ٹینکی ان کے لئے تین ہزار میں پڑتی ہے۔

بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ سے تنگ آکر بالآخر عوام نے پاراچنار پریس کلب کے سامنے ایک غیر سیاسی جلسہ منعقد کیا، جس میں زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں بالخصوص دکاندار صاحبان نے بھرپور شرکت کی۔ پریس کلب کے سامنے ٹائروں کو آگ لگا کر کئی گھنٹوں تک روڈ بلاک کیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مطالبات کو احتجاج کی صورت میں ریکارڈ کرایا۔ اس کے بعد مظاہرین نے گرڈ اسٹیشن تک پیدل مارچ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ متعلقہ سٹاف نیز ہنگو کے ایکس سی این نے طفل تسلیاں دیکر انہیں رخصت کر دیا۔ تاہم بنیادی طور پر یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ گرڈ پر لوڈ ہے اور لوگ بل ادا نہیں کرتے، نیز یہ کہ میٹر سسٹم کے ذریعے یہ مسئلہ ہوسکتا ہے۔ یوں بلا کو وقتی طور پر ٹال دیا گیا۔

واپڈا کے یہ تمام تحفظات حق بجانب ہیں۔ گرڈ پر لوڈ ہے، میٹر سسٹم سے مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے، یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ مگر کسی بڑے لیڈر وزیراعلیٰ وغیرہ کی آمد پر یہ مسئلہ کیسے حل کیا جاتا ہے۔ اس وقت گرڈ میں بجلی سالر سے پوری کی جاتی ہے، یا کرم کے وافر پانی پر نئے ڈیم باندھ کر پوری کی جاتی ہے اور کیا میٹر کا مسئلہ دیگر اضلاع میں موجود نہیں۔ وہاں کونسا کلیہ اور قاعدہ لاگو کیا جاتا ہے۔ بندہ پورے KP میں گھوما پھرا ہوں۔ کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں، جہاں 20 فیصد سے زائد عوام بل ادا کرتے ہوں۔ قبائلی اضلاع میں تو ایک فیصد لوگ بھی بل ادا نہیں کرتے، بلکہ مرکزی اضلاع چارسدہ، مردان، نوشہرہ، صوابی نیز ضلع پشاور کے اطراف میں واقع علاقے بڈھ بیر، متنی حتیٰ پشاور ضلع میں واقع بہت سے علاقوں میٹر اگر لگے بھی ہیں، تو پھر بھی بل ندارد۔ بلکہ عوام میٹر کے تھرو بجلی استعمال کرنے کی بجائے ناجائز اور بائی پاس کنڈوں کے ذریعے بجلی استعمال کرتے ہیں۔

دو سال قبل بندہ کو کسی کام کی غرض سے بے نظیر یونیورسٹی کے ساتھ ٹچ ایک دوست کے ساتھ دو دن ٹھہرنا پڑا تو ایک نیا تجربہ یہ حاصل ہوا کہ دن میں تقریباً 6 تا 8 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ سبب پوچھا تو جواب ملا کہ یہاں کے لوگ بل ادا نہیں کرتے، نیز بجلی کا استعمال ناجائز کنڈوں کے توسط سے کرتے ہیں۔ کسی دوست کی تسلیت اور فاتحہ پڑھنے دو ماہ قبل جنوری میں پشاور کے مین علاقے واڈپگہ اور ملحقہ علاقوں میں جانا پڑا، وہاں دوستوں نے بتایا کہ اس علاقے میں شاید ہی کوئی بجلی کا بل ادا کرتا ہو، کسی کی مجال نہیں کہ کسی سے بجلی کا بل وصول کرنے یہاں آجائے۔ اسی سال چارسدہ گیا تو لوڈ شیڈنگ دیکھ کر سبب پوچھا، بتایا کہ لوگ بجلی چوری کرتے ہیں اور پراپر طریقے سے بل ادا نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے یہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کرک، بنوں اور ٹانک وغیرہ میں بھی پچھلے سال یہی کچھ مشاہدہ ہوا۔

بجلی بلکہ کسی بھی سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا یا ان کا غلط اور ناجائز استعمال کرنا حرام ہے۔ تاہم حیرانگی کی بات یہ ہے کہ حرام چھڑا کر سرکار ہمیشہ اہلیان کرم پر یہ نوازش کیوں کرتی ہے۔ اس حوالے سے دیگر اضلاع سے ابتداء کیوں نہیں کرتی اور یہ کہ کیا وڈیرے، سیاستدان، وزراء، جج صاحبان، آرمی اور سول افسران وغیرہ وغیرہ باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں؟ یا انہیں 24 گھنٹے فری بجلی دستیاب ہے۔؟ کیا کرم پشاور سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ ہے اور کیا یہ جرم پشاور اور اطراف میں نہیں کیا جا رہا۔ اگر پشاور کے ہمارے پیارے ہم وطن برادران کو بغیر بل کے دن میں 18 تا 22 گھنٹے 220 وولٹ بجلی دستیاب ہے، تو کیا اہلیان کرم کو دن میں 10 یا حتی 8 گھنٹے صرف 100 یا 150 وولٹ بجلی بھی فراہم نہیں کی جاسکتی۔

جواب شاید نہیں میں ملے، کیونکہ یہاں پر شیعہ سنی تنازعات کا مسئلہ ہے۔ تو چلو، اگر یہاں سنی شیعہ مسئلہ ہے تو کیا وزیرستان میں وزیر، محسود اور داؤڑ کا مسئلہ نہیں۔ کیا خیبر میں آفریدی اور شینواری کا مسئلہ نہیں۔ کیا باجوڑ میں ملا گوری اور سالارزئی کا مسئلہ نہیں۔ خود چارسدہ اور مردان میں زمیندار اور کسان کا مسئلہ نہیں۔ یہ سب کچھ موجود ہے تو بتائیں کہ کونسا عامل ہے جس کی وجہ سے ہم پسے جار رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایک بنیادی مسئلہ پورے پاکستان سمیت پاراچنار کی عوام کی بے حسی اور لاپرواہی ہے کہ وہ اپنی حق تلفیوں پر احتجاج کے قابل بھی نہیں رہے۔

اس حوالے سے عوام سے زیادہ ووٹوں کے حقدار ہمارے قد آور ہمارے سیاسی نمائندے اور اس سے بھی زیادہ ہمارے قومی ادارے انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی ذمہ دار ہیں۔ جنہوں نے ضرورت سے زیادہ چپ سادھ لی ہے، جبکہ یہ کالم لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ہمارے ذمہ داران کو شاید یہ علم نہیں، وہ یہی سمجھ رہے ہونگے کہ بل کا مسئلہ صرف کرم میں پایا جاتا ہے، چنانچہ ان کے علم میں یہ لانا لازمی جانا کہ یہ مسئلہ KP میں نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں 80 فیصد تک پایا جاتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
خبر کا کوڈ : 1048864
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Bhut zabardast
ہماری پیشکش