2
0
Thursday 25 May 2023 21:12

جبر کی سیاہ رات آخر کب تک

جبر کی سیاہ رات آخر کب تک
تحریر: ڈاکٹر ہادی حسینی (جرمنی)

جب صحیح اور غلط کی جنگ آپ کے دیس میں لڑی جا رہی ہو تو عالمی مسائل پر بات کرنا عجیب لگتا ہے۔ ویسے تو دنیا میں بہت سے ایسے مسائل ہیں، جن پر بات کی جانی چاہیئے۔ ایران اور سعودیہ تعلقات، ایران اور مصر کے مابین عمان کی ثالثی، ایرانی صدر کا دورہ انڈونیشیا اور وہاں طے پانے والے گیارہ معاہدے ہر موضوع اہم ہے، جس کے خطے کی سیاست اور عالمی سطح پر اثرات ہیں۔ اسی طرح دس بڑے تجارتی ملکوں کا اپنی تجارت سے ڈالر کے حصے کو کم کرنا، ایران میں ڈالر میں کاروبار کا دس فیصد کی سطح پر آجانا، سبھی اہم باتیں ہیں، مگر اہم ترین معرکہ میرے اپنے دیس میں وقوع پذیر ہے۔

پاکستان تحریک انصاف جسے 2018ء میں وفاق اور صوبہ پنجاب و خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل ہوئی، جو آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، اسے اس وقت شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ عمران خان کی وفاق میں حکومت کے خاتمے کے بعد، خان صاحب نے اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کر دیں۔ ان کا مقصد ملک میں ایک آئینی ضرورت پیدا کرنا تھا، تاکہ الیکشن کمیشن کو آئین کی پاسداری کرتے ہوئے نہ فقط دو صوبوں میں بلکہ پورے ملک میں انتخابات کروانے پڑیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب میں چودہ مئی کو انتخابات نہ ہوئے۔

9 مئی کو ایک عدالتی پیشی کے دوران عمران خان کو رینجرز کے ذریعے گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے ملک بھر میں بے چینی کو جنم دیا۔ خود عمران خان کے اعداد و شمار کے مطابق مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں پچیس مظاہرین جاں بحق ہوئے۔ تقریباً سات سو کے قریب افراد زخمی ہوئے اور ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان مظاہروں میں بعض ایسے واقعات بھی ہوئے، جس میں افواج پاکستان کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کور کمانڈر ہاؤس لاہور جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، کی آتشزدگی، میانوالی میں ایم ایم عالم کے جہاز کی آتشزدگی، جی ایچ کیو راولپنڈی پر حملہ، خیبر پختونخوا میں مختلف فوجی مراکز پر چڑھائی شامل ہے۔

حکومت اور ریاستی اداروں کے مطابق یہ تمام واقعات پی ٹی آئی کے مظاہرین نے کیے، جبکہ پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے، اگر پی ٹی آئی کے اراکین ان واقعات میں ملوث ہوں تو ان کو سزا دی جائے، لیکن فقط الزام کی بنیاد پر گرفتاریاں، تشدد اور ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانا درست نہیں ہے۔ نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ان کی مرکزی قیادت کو بھی گرفتار کیا گیا، جس میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، شیریں مزاری، اسد عمر، شہریار آفریدی، علی محمد خان، فیاض الحسن چوہان، سید علی زیدی، مفتاح اسماعیل، سرفراز چیمہ اور دیگر صوبائی عہدیداران شامل ہیں۔ ان تمام افراد کے خلاف مختلف مقدمات قائم کیے گئے۔ ایک مقدمہ میں ضمانت منظور ہوتی ہے تو اگلے مقدمے میں پولیس گرفتار کر لیتی ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی کو چھوڑنے کی ہوا چلی۔

شیریں مزاری، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان اور دیگر کئی صوبائی اور مقامی قائدین پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اسد عمر نے پارٹی چھوڑی تو نہیں لیکن تمام عہدوں سے استعفی دے دیا ہے۔ وہ لوگ جو اب تک پارٹی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں، وہ قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا پر پی ٹی آئی کے خلاف ایک پراپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا اکاونٹس کی جانچ پرکھ کی جا رہی ہے۔ وہ لوگ جو عمران خان یا پی ٹی آئی کی حمایت میں کوئی پوسٹ کرتے ہیں، ان کو وارننگ ایشو کی جا رہی ہے۔ کئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

درج بالا واقعات ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں، جس میں پی ڈی ایم حکومت اور ان کے ہینڈلرز برابر کے شریک ہیں۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی وفاقی جماعت کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے، جو اس سے قبل ایم کیو ایم پر بھی کی گئی تھی۔ یہی وطیرہ مشرقی پاکستان میں بھی اپنایا گیا۔ مشرقی پاکستان نے تو اس جبر کو قبول نہ کیا اور خود کو اس پاکستان سے جدا کر لیا، جس کے لیے انھوں نے مغربی پاکستان کے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر جدوجہد کی تھی۔ ایم کیو ایم ایک چھوٹی جماعت تھی، خاموش ہوگئی، تاہم معاملہ فقط ان گروہوں تک محدود نہیں ہے۔ بلوچستان میں اس وقت علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، جس میں بڑا کردار سیاسی مسائل کو فوجی حکمت سے حل کرنے کا ہے۔ زبان سے حل ہونے والے مسائل کو لاٹھی اور گولی کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان میں بھی پاکستان سے علیحدگی کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، جن کو پاکستان میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد تقویت ملی ہے۔ ان کو یہ پیغام گیا ہے کہ اگر پاکستان کا سابق وزیراعظم اپنے حقوق کے لیے عدالت سے عدالت تک ایڑیاں رگڑ رہا ہے تو ان کو کون حقوق دے گا۔ یہ سوچ واقعاً خطرناک ہے۔ اگر یہ سوچ گلگت بلتستان کی ایک بڑی اکثریت میں سرایت کر گئی تو یقیناً پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ انسان ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لے کہ ملک پر حکومت کرنے والے ارسطو جو کر رہے ہیں، وہ ٹھیک کر رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس درست عمل کو عوام پر دلیل کے ذریعے ثابت کیوں نہیں کر رہے۔؟ ان کو اپنا موقف نافذ کرنے کے لیے لاٹھی، گولی اور ملٹری کورٹس کی کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ کیوں لوگوں سے جبری طور پر پارٹی سے استعفے دلوائے جا رہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے بعد سے تادم تحریر جو ڈرامہ رچایا گیا ہے، اس نے عوام کی آنکھوں پر پڑے جمہوریت کے سب نقاب نوچ ڈالے ہیں، معدودے چند اندھوں کے علاوہ سب کو علم ہوچکا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں آئین و قانون فقط درسی کتابوں میں پڑھائی جانے والی رام کہانیاں ہیں۔ عدلیہ واقعاً طاقتور کی رکھیل کا کردار ادا کر رہی ہے۔ عالمی برادری بالخصوص دنیا کے وہ ممالک جو جمہوریت کا نقارہ بجاتے ہوئے تھکتے نہیں، اس وقت خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود فسطائیت پر وہ ایسے خاموش ہیں، جیسے عرب دنیا میں موجود آمریت پر وہ لب بستہ رہتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام پر روا رکھے جانے والا یہ ظلم کسی اور کی نہیں، خود پاکستانیوں کی اپنی شامت اعمال ہے۔ ہمارے سامنے ملک کے محسنوں کو در بدر کیا گیا، لیکن ہم نے ہوش نہ کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، راجہ صاحب آف محمود آباد اور نہ جانے کتنے تحریک پاکستان کے سپاہی اس وطن میں ذلیل و خوار ہوئے، ہم نے آواز نہ بلند کی۔ ہم نے ہر لاش کو اس کی مسلکی اور قومی شناخت سے دیکھا۔ شیعہ مرا تو پورے پاکستان میں خاموشی رہی، بلوچ، سندھی، پختون یا پنجابی قتل ہوا تو دوسروں نے آواز بلند نہ کی، یہ انصاف نہ تھا۔

جب انسان میں بے انصافی، کرپشن، بدعنوانی اس حد تک پہنچ جائے تو یقیناً اس پر ایسے لوگ مسلط کر دیئے جاتے ہیں، جو اس قوم کی سزا ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم پر ایسے ہی لوگوں کا تسلط ہے۔ آج تحریک انصاف کی باری ہے، کل کسی اور جمہوری جماعت یا جمہوریت پسند انسان پر نزلہ گرے گا۔ ہمیں کسی مسیحا کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی حالت کو بہتر بنانا ہوگا۔ عمران خان پاکستان میں آزادی کی آواز ہے، جس کو ملک پر مسلط لوگ یقیناً جلد خاموش کرنا چاہیں گے۔ اگر یہ آواز آج خاموش ہوگئی تو دوبارہ ایسی ہی آواز بلند ہونے میں شاید ہمیں دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے۔
خبر کا کوڈ : 1060132
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
کیا عمران نے فوج کے ساتھ ملکر نون لیگ کی لیڈر شپ کی ایسی تیسی نہیں کی تھی؟ یہ مکافات عمل ہے۔ عمران کی ٹیم کمزور ثابت ہوئی، نون لیگ کے رہنماوں میں قوت برداشت زیادہ تھی۔۔ نون لیگ نے اقتدار کے لئے قربانی دی۔ عمران ابھی بھی فوج سے امیدیں لگائے ہوئے ہے۔ عمران گروپ پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے بغیر میدان میں آیا ہے۔ جنرل فیض اس کو جیل یا جلاوطنی تک پہنچا کر رہے گا۔
Iran, Islamic Republic of
اگر عالمی یہودی ایجنٹ، زلمے خلیل زاد کا آلہ کار نیازی فتنہ برسر اقتدار آجائے اور سی پیک جیسے منصوبے رول بیک، ٹرامپ سے ملکر ورلڈکپ جیتنے سے زیادہ خوشی، شیعہ شہداء کے خاندان سے ملنا بلیک ملینگ کہلائے، نصاب تعلیم میں معاویہ، عمرو عاص و خالد بن ولید کی سیرت داخل اور مکتب اہل بیت کو نکال دیا جائے تو محترم کالم نویس صاحب اس وقت حقیقی جمہوریت ہوگی اور آپ خوشحال ہوں گے اور سکون کی نیند آپ کو آئے گی!!!! اب کیونکہ شہداء اور قوم و ملت کی یادگاروں کو نذر آتش کرنے اور قومی اثاثوں کو فروخت کرنے والوں کی قانونی گرفت ہو رہی ہے تو جمہوریت کا آپ کے بقول قتل ہو رہا ہے!!!!
ہماری پیشکش